یونیورسٹی آف بلوچستان اور اغواء کاری کا مسئلہ

0 283

یونیورسٹی اف بلوچستان صوبے کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہیں جہاں بلوچستان کے تمام اضلاع سے طلباء اپنے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے یہاں کا رخ کرتے ہیں یونیورسٹی اف بلوچستان میں پچاس سے زائد شعبہ جات موجود ہیں جس میں سائنسز اور ارٹ اور اسلامی تعلیمات کےعلاہ پروفیشنل ڈگریاں بھی حاصل کرتے ہیں
طلباء کی طالبعلمی کے دور میں سیاست مختلف سبجیکٹ میں حصہ لینا ، ریسرچ کرنا اور معمار قوم بننے کیلئے مختلف مواقع میں سٹڈی سرکل ، سیمنار اور کھیل وثقافت کتنا اہم کردار ادا کرتا ہیں
مگر بدبختانہ یہاں وہ نظام جو پاکستان کے مختلف صوبوں کے یونیورسٹیوں میں دکھائی دیتا ہے موجود نہیں ہے مگر یونیورسٹی اف بلوچستان میں تعلیمی نظام کم اور تحفظی ادارہ زیادہ دکھائی دیتا ہے
ایک معیاری تعلیم نظام کے اندر طلباء کے برابر مختلف فورسسز ادارے کے فوجی دستے بھی صاف دکھائی دیتے ہیں،
جب دور سیاست میں مختلف سیاسی طلباء تنظیمیں بحال تھی اور طلباء کے اندر سیاسی جذبہ سرکلز اور مختلف مواقع پر پروگرام کرتے تھے
تب اس نظام کو مزید فعال نہ رہنے اور عدم مستحکم رہنے کیلئے طلباء تنظیموں کو دھمکیوں کے ساتھ ساتھ سٹڈی سرکلز کو بند کیا اور طلباء غائب ہوجاتے ہیں
اور یہ تمام تر معاملات کئی سال تک غیر فحال رہا
ایک تو سیکورٹی سورسسز کی وجہ دوسری نظام تعلیم میں تبدیلی تھا جس کی وجہ سے تمام طلباء کلاسز اور امتحانی سرگرمیوں اور تیاریوں میں مصروف رہتے ہوئے سیاست سے دوری اختیار کیا گیا
پچھلے دو تین سال سے سیاسی سرگرمیاں شروع ہوئی جس میں یونیورسٹی اف بلوچستان کے اندر کئی سیاسی جماعتوں کے طلباء. مختلف مواقع پر سرگرمیاں کرتے ہیں جس میں طلباء کے مسائل ڈپارٹمنٹ کے مسائل پر سنجیدگی سے کام کرتے ہیں
اور دوسری طرف پرنٹیر کورس کے گارڈ یونیورسٹی کے مختلف جگہوں پر مختلف سرگرمیوں میں مصروف نظر اتے ہیں
پچھلے دو سالوں سے یونیورسٹی ہاسٹل سے مبینہ طور پر طلباء کو اغواء کیا جاتا ہے
جس کا تمام تر سوالات اور ذمہ داری سیکورٹی اہلکار اور سی سی ٹی وی کیمروں کی انچارج پر ہٹایا جاتا ہے
پچھلے ہفتے میں ایک ہی نوعیت کے واقعہ سامنے پیش ایا جس میں یونیورسٹی آف بلوچستان کے مین بووائیز ہاسٹل سے جبری طور پر دو طلباء غائب ہو گئے ہیں جس کے تمام تر سوالات اور ذمہ داری کیلئے بلوچستان یونیورسٹی کے سیکورٹی اہلکار اور سیکورٹی انچارج بے بس نظر ارہے ہیں
طلباء جائز مطالبات کے ساتھ یونیورسٹی کو مکمل طور پر بند کیا ہے
مطالبات میں ایک سٹوڈنٹ کے بازیابی اور دوسری یونیورسٹی کے اندر سیکورٹی کے بے بنیاد مداخلت اور اس باہر نکالنا ہی مطالبات ہیں
مجلس فکر و دانش علمی و فکری مکالمے کے اعلیٰ سطحی وفد نے گزشتہ روز عبدالمتین اخونزادہ،عامر خان مندوخیل ایڈووکیٹ اور کلیم اللہ کاکڑ و عجب خان ناصر نے جامعہ بلوچستان میں احتجاجی طلبہ وطالبات کے دھرنے میں شرکت کی اور اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ طلبہ وطالبات کے موقف و مطالبات کو سنجیدگی سے ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آسانی سے سنجیدگی کے ساتھ مفاہمت اور انسانوں کی عزت و آبرو مندی کی آرزو مندی و حفاظت زندگی کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اور منصفانہ سماجی شعور کی بیداری و احیاء کے لئے ماحول و فکری مکالمے کا پہلا قدم اٹھایا جاسکے،تعلمیی اداروں کے تقدس اور انسانوں کی عزت و تکریم سب کچھ پر مقدم ہونا چاہیے ورنہ تبدیلی اور ممکنات کے مواقع ضائع ہو جاتے ہیں اور ارمانوں و آرزوؤں کا خون کیا جاتا ہیں بلوچستان میں صحافی و ادیب اور دانشور و مصنف، خواتین اور بچیوں و طالبات کے ساتھ مزدروں اور عام آدمی کی زندگی کو درپیش خطرات لاحق ہیں اور اب تعلیمی اداروں میں بچے و بچیاں محفوظ نہیں ہیں تو قوم وملت کی تقدیر بدلنے کے دعوے دار جھوٹے ہوتے ہیں ،
مجلس فکر و دانش علمی و فکری مکالمے کے ذریعے ہم صوبے کے دانشوروں اور مفکرین کے ساتھ سول سوسائٹی اور علماء و دانش مندوں مرد و خواتین اور نوجوانوں و بزرگوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ظلم و استہزاء اور انسانوں کی تذلیل و فکری افلاس میں مبتلا کرنے کے خلاف توانائی و دانش مندی سے بھرپور آواز اٹھائیں اور پاور آف نالج کی مجموعی ترقی و خوشحالی کے لئے جدید رجحانات اور تحقیقات کی روشنی میں تحقیق و جستجو اور تخلیق و تدبیر کی نئی جہتیں تلاش کرنے اور نئی نسلوں کے لئے محفوظ و مامون زندگی و سماجیات اور سوچ وفکر کی قوتیں تشکیل و تعبیر نو کے لئے آواز بلند کریں اور نوجوانوں و طلبہ وطالبات کی راہنمائی و ضابطہ اخلاق کی تشکیل و تعمیر نو پر مکالمہ و ڈائیلاگ کا انعقاد کریں

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.