سماجی, معاشرتی و تعلیمی میدان کی قد آور شخصیت نوابزادہ اسفندیار جوگیزئی کے قابل قدر خدمات
قبائلی و سماجی رہنما نوابزادہ اسفندیار خان جوگیزی علاقے میں قد آور شخصیت کے طور پر مانے جاتے ہیں۔ نوابزادہ صاحب سادہ مزاج اور بہترین اخلاق کے مالک ہیں۔ نوابزادہ صاحب نے بنیادی تعلیم ضلع کوئٹہ میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنےکے لیے لندن چلے گئے۔ جہاں سے اپ نے قانون کی ڈگری حاصل کیا۔ نوابزادہ صاحب 2008اور 2009 کے دوران واپس آبائی شہر ضلع قلعہ سیف اللہ آگئے۔ جہاں پر انہوں نے علاقے کے لوگوں کو تعلیم کے مقاصد اور تعلیم کی بدولت بہتر زندگی بسر کرنےکے تلقین کی۔ انہوں نے کئی مرتبہ غریب سٹوڈنٹس کو نہ صرف کتابیں اور کاپیاں بلکہ اسکول اور کالج کے یونیفارمز بھی دلوائے۔ اس کے ساتھ ساتھ نوابزادہ صاحب نے علاقے کے لوگوں کے لئے بےشمار پرائمری اور سیکنڈری اسکول حکومت بلوچستان سے منظور کروائے۔ اور کئی اسکولوں کے چاردیواری اور گراو¿نڈز بنوائے۔ انسانی معاشرے کی ترقی کے لیے تعلیم کی اہمیت پر نوابزادہ اسفندیار خان جوگیزی صاحب کہتے ہیں کہ تعلیم انسان کو ان باتوں کی اگاہی دیتا ہے جنہیں وہ نہیں جانتا ہے۔ تعلیم کے ذریعہ زندگی کا جینا آسان ہوجاتا ہے۔ نواب زادہ کا کہنا ہے کہ تعلیم کی اہمیت کا اعتراف جہانی سطح پر اقوام عالم نے کیا ہے۔ اسی لیے تمام قومیں حصول تعلیم وعلم میں لگ گئے ہیں۔ اسی وجہ سے ہر طرف سائنسی ایجادات کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور مزید لگتے جا رہے ہیں۔ ہر لمحہ تجربات ہورہے ہیں اور ہر پل تحقیقات ہورہی ہیں۔ اس کی تیزی اور برق رفتاری کا یہ عالم ہے کہ ابھی ایک چیز مارکیٹ میں ڈھنگ سے آئی بھی نہیں کہ اگلے پل اس سے ایڈوانس چیز آجاتی ہے۔ بلکہ عالم تو یہ ہے کہ بہت سی چیزیں منظر عام پر آنے سے پہلے ہی پرانی ہوجاتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیا نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا ہے اور دونوں ہاتھوں سے وہ لوگوں پر اپنا خزانہ لٹا رہی ہے۔یہ سب سامنے کی باتیں ہیں اور ہر ایک انہیں دیکھ اور برت رہا ہے۔ لیکن سامنے کی ان باتوں میں سمجھنے کی جوچیز ہے وہ یہ کہ کیوں کر ایسا ممکن ہوا؟۔ اندھے کے ہاتھ بٹیر لگ گئی ہے ، اتفاقیہ اور حادثاتی طور پر یہ ساری چیزیں سامنے آرہی ہیں، دنیا کی یہ چکاچوند محض اتفاق ہے۔نوابزادہ اسفندیار خان جوگیزیی صاحب پورے بلوچستان کے عوام میں قد آور شخصیت کے طور پر مقبول ترین انسان ہیں۔ کیونکہ شخصیت انسان کے ذہنی و جسمانی برتاو¿ اور اوصاف و کردار کے مجموعہ کا نام ہے۔ یعنی شخصیت کسی بھی انسان کی ظاہری و باطنی صفات و نظریات اور اوصاف و کمالات سے منسوب ہے۔ شخصیت سازی انسان کے اندر دائمی حسن و جمال اور اثرانگیزی کو جنم دیتی ہے۔ انسان کی تعمیر شخصیت میں فکر و نظریات کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ کسی بھی مذہب و مسلک اور معاشرے سے تعلق رکھنے والا انسان یہ ضرور چاہتا ہے کہ وہ معاشرے کا قابل فخر اور مو¿ثر شخص ہو۔ لوگ اسے اہمیت دیں، اس کی بات کو سنیں اور اس کا قول و فعل دوسروں کیلئے مشعل راہ کا کام کرے۔ ان تمام درینہ خواہشات کا زینہ اور مآخذ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ حق و انصاف اور معاشرے کے اصول و ضوابط کے مطابق زندگی بسر یا وقف کریں تو یقیناً وہ انسانیت کیلئے قابل فخر اور مو¿ثر شخصیت کا حامل ہوگا۔ اگر ہم شخصیت سازی کے عوامل کی بات کریں تو اس میں اخلاق حسنہ کا پیکر ہونا، سچ بولنا، جھوٹ اور بدگمانی سے اجتناب کرنا، حسد اور لالچ سے دور رہنا، ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار ہونا، غصہ اور کینہ پروری سے بیزار رہنا اور نفس کی اصلاح کیلئے کوشاں رہنا جیسے عوامل بھی شامل ہیں۔ اور اللہ تعالی نے نوابزادہ صاحب کو ان کامل صفات سے نوازا ہے۔ نفس کی درستگی شخصیت سازی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ نفس کی طہارت و پاکیزگی انسان کو مسجود ملائک بناتی ہے۔ نفس کی اصلاح اور روحانی ترقی کے لئے اسلامی تعلیمات ہی جو کسی بھی معاشرے کے انسان کو رشک ملائک بنا دیتی ہیں۔ اگر انسان عملی کاوشوں، محنت و ریاضیت سے اخلاق حسنہ کا مرکب بن جائے تو وہ انسانیت کی معراج کو پہنچ جاتا ہے جھوٹ، لالچ، غصہ اور حسد جیسے عناصر پر قابو پا لے تو انسان کی شخصیت نکھر جاتی ہے۔ یہ بات مسلم ہے کہ سچ بولنے والا شخص نڈر، بے باک، بے خوف اور مستحکم شخصیت کا حامل ہوتا ہے۔ لوگ اس کی دل سے عزت کرتے ہیں اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوابزادہ اسفندیار خان جوگیزئی صاحب عوام میں اپنی قد آور شخصیت اور تمام تر خاصیتوں کی بنیاد پر روز اول کی طرح آج بھی مقبول ہیں۔نوابزادہ اسفندیار خان جوگیزی صاحب نے ہمیشہ تمام تر صلاحیتیں بروکار لاتے ہوئے پشتون قبائل کے درمیان لڑائی جھگڑوں کو ایک پلیٹ فارم پر خوش اسلوبی اور سماجی اصولوں پر حل کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور جب بھی پشتونوں کے علاوہ دو سرے قوموں کے درمیان بھی لڑائی جھگڑوں, زمین ،جائیداد, چوری, ڈکیتی یا قتل جیسے بڑے معاملات کو بھی خوش اسلوبی اور سماجی اصولوں پر حل کرنے کی بھرپور تجربات رکھتے ہیں۔ نوابزادہ اسفندیار خان جوگیزی صاحب نے آج تک بنیادی اصولوں اور حقائق کے بغیر کوئی بھی فیصلہ نہیں سنائی۔اسی لیے لوگ نوابزادہ اسفندیار خان جوگیزئی صاحب کے فیصلوں کو من وعن قبول کرتے ہیں۔ پشتون, بلوچ اور دیگر اقوام کے فیصلے حقائق پر حل کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے نہ صرف پشتونوں میں بلکہ دیگر اقوام کے لوگ بھی نوابزادہ اسفندیار خان جوگیزئی صاحب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگر ہم نواز دہ اسفندیار خان جوگیزی صاحب کی معاشرتی زندگی کے پہلو پر نظر ڈالے تو ہم یقیناً کہہ سکتے ہیں کہ معاشرے کے لیے ان کے خدمات قابل ستائش ہیں۔ انہوں نے منشیات کو ناسور قرار دیتے ہوئے کہا کہ منشیات انسان کو سکون دینے کے دھوکے میں رکھ کر بربادی تک لے جاتا ہے، نشے کے استعمال سے انسان ذہنی طور پر مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔ جس سے مختلف نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ نشے کے استعمال میں نہ صرف دنیا میں بلکہ پاکستان میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ایک عام اندازے کے مطابق دس ملین افراد اس لعنت کا شکار ہیں جن میں زیادہ تعداد نوجوان نسل کی ہے سب سے زیادہ 25 سے 30 سال کے افراد اس کے بعد 15 سے 24 سال تک کے افراد ہیں۔ جن میں ابھی اَسی مرد اور بیس فیصد خواتین کی ہے۔ہمارے تعلیمی ادارے بھی اس لعنت سے محفوظ نہیں ہیں نشے کی عادت ہماری نوجوان نسل میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے مستقبل کے معماروں کو منشیات کے شکنجے میں جکڑ کر ان کو تعلیم سے دور اور پاکستان کو ترقی سے دور کیا جارہا ہے۔ نوابزادہ صاحب نے ضلع اور صوبے میں بڑھتی ہوئی مختلف منشیات جیسے کہ چرس ہیروئن، افیم، شیشہ ، آئس جیسے مہلک نشے میں مبتلا افراد کی تعداد پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ نشہ کو ایک برائی یا ایک لعنت سمجھنے اور اس سے دور رہنے کی ترغیب دینے کی بجائے اس کو فیشن بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور وہ ذہین لوگ جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ملک کی ترقی میں حصہ لینا ہوتا ہے وہ اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔اور پھر نہ صرف اپنی زات اپنا کیرئیر اپنی زندگی تک کو برباد کر لیتے بلکہ مختلف قسم کے جرائم میں ملوث ہو کر اپنے ساتھ جڑے دوسرے لوگوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔نوابزادہ اسفندیار خان جوگیزی صاحب نے منشیات کی تدارک اور اس کو ختم کرنے کے لیے نہ صرف بہت سے آرگنائزیشن بنائے گئے ہیں بلکہ مختلف آرگنائزیشن کو مالی سپورٹ بھی کرتے چلے آرہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ علاقے کے بہت سے لوگ جو مختلف قسم کے نشے میں مبتلا تھے ان جیسا لوگوں کی اسپتالوں میں مفت علاج کروایا گیا ہے۔ انہوں نے والدین پر زور دیتے ہوئے کہا کہ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں ان کی سرگرمیوں پر دھیان دیں اور حکومت کو منشیات فروشوں کے خلاف سخت کارروائی بھی کرنی چاہیے تاکہ ایک مضبوط قانون بنائیں کیونکہ اس کی اشد ضرورت ہے کہ نشے میں مبتلا افراد کی مدد کرنا صرف ان کے والدین یا حکومت کی ہی نہیں ہماری بھی زمہ داری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہمیں اپنے اردگرد رہنے والوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں تاکہ ان کو با اختیار بنائیں تاکہ لوگ اس لعنت کی جانب کم سے کم متوجہ ہوں اور جو اس کا عادی ہو اس کو پیار سے سمجھائیں تاکہ وہ اس نشہ سے چھٹکارا پا سکے نہ کہ ان سے نفرت کریں اس طرح وہ مزید اس دلدل میں پھنستا چلا جائے بطور شہری ہم سب کو اس کی روک تھام کے لیے زمہ داری ادا کرنی چاہئے۔نوابزادہ صاحب مختلف فورمز یہ کہتے رہے ہیں کہ معاشرہ افراد کے مجموعہ کا نام ہے ،اور ہر فرد مجھ سمیت اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ اپنے معاشرہ کو ہر طرح کی خرابیوں اور گندگیوں سے پاک و صاف رکھے،ظاہری نجاست اور باطنی ہلاکت والی چیزوں کو معاشرہ سے نکال کر دورکرنے کی فکرکریں۔اسلام نے مسلمانوں کو اس بات کی بطور ِ خاص تعلیم دی کہ وہ اپنے گرد وپیش کاجائزہ لیتے رہیں اور جو خرابیاں در آرہی ہیں ان کے سدِ باب کی فکر کریں۔جب معاشرہ کی اصلاح اور سدھار کی فکریں ہوں گی تو پھر اس کے نتیجہ میں افراد بھی پاکیزہ سانچے میں ڈھلیں گے اور نوجوان بھی بے راہ روی سے بچیں گے۔ نوابزادہ اسفندیار خان جوگیزی صاحب نے اسلامی معاشرے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی معاشرے میں بھی ہر فرد اصلاح معاشرہ کا ذمے دار ہے ، نوابزادہ اسفندیار خان جوگزءصاحب نے سماجی مسائل کو کسی بھی سماج کے تمام افراد یا کثیر افراد کومتاثر کرتے ہیں۔ کیونکہ سماجی مسلئہ گہرا بھی ہو سکتا ہے اور ہلکا بھی۔ یہ مخلتف قسم کے ہو سکتے ہیں۔ مگر کسی بھی سماج کا مسئلہ وہاں کے تمام لوگوں کا مشترک مسئلہ ہوتا ہے جس سے سب کی زندگی متاثر ہوتی ہے اور سماج کے بہت سارے افراد اس کو حل کرنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ یہ کسی ایک فرد کا مسئلہ نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی ایک فرد اس کو حل کرسکتا ہے۔ کیونکہ سماج میں مختلف طرح کے لوگ رہتے ہیں اور مختلف خیالات، نظریات اور تصورات جنم لیتے ہیں جن سے اختلاف رائے پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح کے تصورات عموماً انسان کی ذاتی زندگی اور باہمی سماجی زندگی کے مطابق اخلاقاً درست بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی۔ اسی لیے کسی بھی سماجی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اسی سماج کے مختلف لوگ آپس میں مل جل کسی متفقہ فیصلہ پر پہنچتے ہیں۔ سماجی مسئلہ معاشی مسئلہ سے مختلف ہے مگر کبھی کبھی کوئی مسئلہ دونوں پہلو لیے ہوتا ہے جیسے ترک وطن کا مسئلہ کہ یہ سماجی بھی ہے اور معاشی بھی۔ کئی ایسے بھی مسائل ہیں جن کا دونوں سے کوئی تعلق نہیں ہے جیسے جنگ وغیرہ۔نوابزادہ اسفندیار خان فرماتے ہیں کہ اس امر میں اتفاق یا اختلاف ہو سکتا ہے کہ کون سے سماجی مسائل حل کیے جا سکتے ہیں اور کون سے نہیں۔ مختلف لوگ اور مختلف سماج کی ترجیحات مختلف ہو سکتی ہیں۔ اور انہی ترجیحات کی بنا پر نظریات اور تصورات بھی پیدا ہوتے ہیں جو سماجی مسائل کو باہم حل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تھومس پین نے اپنی کتاب حقوق آدمی اور عقل میں انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ “ انسان جو حقوق اپنے لیے تلاش کرتا ہے وہی دوسروں کے لیے بھی تلاش کرنا چاہیے“ ایسا نہ کرنے سے سماجی مسائل پیدا شروع ہو جاتے ہیں۔نوابزادہ صاحب کیمطابق سماجی مسائل کو کئی طریقوں سے حل کیا جا سکتا ہے۔ کہیں جمہوریت کا آغاز ہوا اور لوگوں حق رائے
دہی کا استعمال کر کے اپنا ایک قائد منتخب کر لیا مگر یہ ایک سیاسی حل ہے۔ اس کے علاوہ لوگ اپنا وقت، پیسہ، طاقت اور دیگر وسائل کی قربانی دے کر اپنے سماجی مسائل کو حل کرتے ہیں۔ ایسا کرنے والے رضاکار ہوتے ہیں۔ کہیں غیر منافع بخش تنظیمیں بنا لی جاتی ہیں۔ کہیں تنظیمیں جنم لیتی ہیں جو عوام کو اکٹھا کرتی ہے اور مسئلہ کا حل تلاش کرتی ہے۔مختصراً یہ کہ نوابزادہ اسفندیار خان جوگیزئی کی انسان دوست سماجی, تعلیمی, اصلاحی , تعمیری,معاشرتی و سیاسی کردار بے نظیر اور قابل ستائش ہیں۔ اسکی کثیر الجہتی شخصیت یقنناً اسکی قداوری اور بڑی شخصیت کا ایک واضح دلیل ہے۔