شہید علامہ عبدالغنی اسلامی تاریخ کے آئینے میں
شہید علامہ عبدالغنی1940کو مرحوم ملا میرعالمکے ہاں پیدا ہوئے۔آپنے ابتدائی تعلیم کا آغاز دس برس کی عمر میں اپنے پہلے استاد ملا محمدحنفیہ سے شروع کیا کہ دو برس کی عمر میں قاعدہ۔ناظرہ قرآن مجید اور شروط الصلوٰسے فراغت حاصل کی تیرویں برس کی عمر میں چمن کے مشہور عالم دین حضرت مولانا محمدنور سے مزید علم حاصل کرنے کا آغاز کیا ایک سال میں آپنے علم الصرف۔علم النحوہ کافیہ تک علم الفقہ شرح وقایہ تک فارسیات گلستان و بوستان تک حاصل کرلیا۔اسکے بعد 18 برس کی عمر میں آپکو حج کی سعادت نصیب ہوءاس کم عمری میں حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد شہیدعلامہ عبدالغنیعلمائ کرام اور عوام الناس میں حاجی صاحب کے نام سے پکارے جانے لگے سفرحج کے بعد درس نظامی کیلئے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک نوشہرہ پشاور میں داخلہ لیا جو تقسیم ہند کے بعد اس علاقے میں علوم و فنون کا پہلا عظیم منہج تھا۔چار سال تک پورے انہمام اور شوق و ذوق سے حصول علم میں مشغول رہے۔علمی ذوق اور جذبہ اس قدر غالب تھا کہ حصول علوم کے دوران گھر والوں سے رابطہ منقطع تھا ہر طرح کے تعلقات اور عوامل سے خلوت نشین رہے۔اپنے آساتذہ اور مشائخ سے کامل استفادہ میں کوئی خلل آنے نہیں دیا۔شہید علامہ عبدالغنیطالب علمی کے زمانے ہی سے کامیاب مدرس کی طرح شہرت رکھتے تھے جامعہ حقانیہ میں دستار فضیلت کی سعادت کے حصول کے بعد درس کا آغاز جامعہ مظہرالعلوم شالدرہ سے کیا اسکے بعد کلی پیر علی زءمیں دورہ حدیث کاآغاز کیا مولاناخیر محمد اور مولانا محمدمعصوم پہلے سال کے فضلائ کرام تھے۔آخر کار اپنے آبائی علاقے چمن ہی کو علوم نبوت کی خدمت کیلئے منتخب کیاپچیس سالوں تک چمن کے وسط میں اپنے مرکز تعلیمات اسلامی (جامع مسجد قبائ )جملہ فنون بشمول دورہ حدیث کا درس دیا کرتے تھے اسکے پانچ ایکڑ رقبے پر مشتمل جامعہ اسلامیہ علامہ ٹاون باءپاس روڈچمن کے نام سے وسیع دینی ادارے و جامعہ کی بنیاد رکھی۔جامعہ اسلامیہ کی بنیاد رکھتے ہوئے پاکستان افغانستان اور ایران سے طلبائ اور علمائ کی بڑی تعداد جمع ہوکر شہیدعلامہ عبدالغنیکے زیر سایہ علمی خدمات کاسلسلہ شروع کیا۔جوتاحال بڑی اہمیت کے ساتھ جاری و ساری ہے ،سیاسی لحاظ سے(1)حضرت العلامہ عبدالغنی رحمة اللہ تعالی علیہ 1988 /1997پشین /قلعہ عبداللہ حلقہ قومی اسمبلی سے دومرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ہے( 2)اور اسی حلقہ کا 9 سالوں تک جمعیت علماءاسلام پاکستان کے ضلعی امیر رہے ہیں( 3)جمعیت علماءاسلام بلوچستان کے صوباءنائب امیر اور جمعیت علمائ اسلام پاکستان کے مرکزی سنئیرنائب امیر بھی رہے ہیں( 4)کل پاکستان مجلس الفقہ کے رئیس بھی رہ چکے ہیں( 5) طالبان افغانستان او امارت اسلامی افغانستان کے استاد کل مانے جاتے تھے یہی وجہ تھی کہ ملامحمد عمر مجاھد کا فاتحہ سب سے پہلے اسی جامعہ میں لی گئی( 6)49سالوں تک حدیث وتفسیر قران کریم کادرس دیتے رہے جس سے 10 ھزار کے قریب علمائ کرام اور مفتیان عظام فارغ التحصیل ہوئے جوکہ فی الحال پاکستان افغانستان اور ایران میں سینکڑوں مدارس دینیہ چلارہے ہیں ( 7)انکے دروس احادیث مبارکہ کا 6500صفحات پر مشتمل شرح بخاری شریف پر کام جاری ہے ان شاء اللہ جلد منصہ شہود پرآجائیگی ( 8)ھندوستان ،قطر،سعودی عرب،برطانیہ ؛اور افغانستان کے متعدد بیرونی دعوتی واصلاحی دورے کرچکے ہیں ( 9)جھاد اسلامی کے علمبردارسیاست اسلامی کے صف اول کے شہسوارقبائلی دشمنیوں کے (خصوصاقبائلی رنجشوں کے تصفیہ کے بدلے عورتوں کی بیاہ )کے سخت مخالف تھے قبائلی رنجشوں کو ختم کرنے میں ھمیشہ مصروف عمل رہتے۔(10)مولانا فضل الرحمن دامت برکاتھم العالیہ انھیں علمی لحاظ سے چلتاپھرتا کتب خانہ کھاکرتے تھے(11) قلعہ عبد اللہ کو ضلع کادرجہ انکے دور ممبری میں دیاگیا جسمیں شہید علامہ عبدالغنیکا کلیدی کردار رہا۔دینی لحاظ سے آپکل پاکستان کے رئیس مجلس الفقہ بھی منتخب ہوئے ہیں۔جمعیت علماءاسلام پاکستان کے مرکزی سنئیر نائب امیر کے عہدے پر فائز رہے۔آپپاکستان و افغانستان میں ایک عظیم و ممتاز عالم دین کے علاوہ ایک نڈر جھادی عالم دین شخصیت کی حیثیت سے اثر رکھتے تھے۔شہید علامہکی علمی سیاسی جھادی قبائلی اور ملکی سطح پر خدمات امت مسلمہ کو درس دیتی ہیں کہ سب اپنے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر باہمی اتحاد و اتفاق اور مساوات عدل و انصاف احسان کی بنیادی اقدار اور تابندہ روایات کی روشنی میں اسلامی علوم جھادی صف و قطار میں پاکیزگی کی بنیادیں قائم کر پختہ عذم رکھ کر آگے بڑھیں۔علامہ شہیدعلمی اور تاریخی حوالے سے تو پاکستان افغانستان اور ایران کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک کا بھی ایک عظیم سرمایہ تھے مگر علامہ شہیدنے انتہائی غربت اور گھمبیر حالات اور ناسازگار فضاءمیں تن تنھائ کھڑے ہوکراور ایک مضبوط منصوبے کے تحت عظیم دینی نقشہ فکر وعمل اور سیاسی علم کی رہنمائی اور ہمہ گیراصلاح کی روشنی میں تابندہ پروگرام کو لے کر بڑھنے اور پوری دنیا میں ایک پرامن پرسکون اور مستحکم قرآنی نظام کے خواہش مندتھے۔شہید علامہکی تقاریر اور درس وتدریس کے اسباق ہمیں فہم و شعور فکر نظر اور اسلام سے محبت اور دین محمدی پر جانثاری کا جذبہ دیتے تھے۔آپمکمل زندگی میں یہی کوشش کرتے تھے کہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں ایسی وحدت بنادو جسے مسلم امہ عظیم اسلامی مقاصد کے لیے ایک فلیٹ پر جمع رہے۔اس عظیم فکر و مشن کے لیے آپوقت کے فرعونیت جہالت اورمسلم امہ کی افراتفری کے منصوبوں کیخلاف ایک روشن مشعل راہ اور سیسہ پلاءہوءدیوار کی مانندتھے۔اسلامی روایات کی روشنی میں معاشرتی اسلامی سیاسی قبائلی اور جھادی وعلمی مسائل کا خوب سے خوب تر حل پیش کرتے تھے۔آپاسلامی تعلیمات سے عوام الناس کو علم جھاداور دعوت کی فکر سے آراستہ کرتے تھے ،درحقیقتاً شہید علامہ عبدالغنیمیں اسلام کے عظیم رہنماو¿ں کی عظیم اوصاف دور دور سے نظر آتی تھیں آپکبر غرور جیسے ناپاک عادتوں سے جام شہادت تک محفوظ اور دور رہے۔منافقانہ سیاست۔شخصیت پرستی مفادپرستی اور غیراسلامی رسومات سے سخت نفرت اور باقاعدہ اسکو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے مسلسل جدوجہد کرتے تھے۔آپ تمام زندگی میں ساتھیوں اور ہر عام و خاص کو تعصبانہ اور قوم پرستی جیسے ناسور سے منع فرماتے تھے اور ایک اسلامی وحدت کی تلقین کیاکرتے تھے۔آپنے جیسی اپنی مکمل زندگی دین کی خدمت کیلئے وقف کر رکھی تھی ویسے ہی افغانستان پاکستان اور ایران میں آپکے علم و جامعہ اسلامیہ سے فارغ التحصیل{ 10000}علمائ کرام و مفتیان عظام نے بھی اپنے وطن میں درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا ہواہے۔آپنے واقعی اس مال و دولت بٹورنے کے دور میں علم کے پھیلنے میں عظیم کردار ادا کیا شہیدعلامہ عبدالغنیکے متعلق قائدجمعیت اور سربراہ پی ڈی ایم حضرت مولانا فضل الرحمٰن فرماتے تھے کہ علامہ شہیدہماری چلتی پھرتی علمی لائیبریری ہے۔خوشی کی بات ھے کہ محدثین کرام کے 1400سو سالہ تاریخ پر ایک عظیم کتاب(ھزار محدثین کے نام سے) تصنیف ہوئی ہے جس میں ایک ھزار کے قریب صرف وہ ہستیاں لکھی گئی ہیں جنہوں نے مکمل زندگی قرآن حدیث اور اسلامی تعلیمات کے لیےو قف کررکھی تھی پورے پشتون اقوام سے شہید علامہ عبدالغنیکا بھی باقاعدہ اس کتاب میں ذکر شامل ہے یہ اہل وطن کیلئے ایک عظیم خوشخبری اور افتخار ہے اسی طرح جامعہ اسلامیہ کی علمی ثمر کے طور پر افغانستان پاکستان اور ایران میں سینکڑوں مدارس وجود میں آئے ہیں افغانستان کے تمام صوبوں میں شہیدعلامہکے شاگرد علمائ کرام موجود ہیں (سوا ئے ایک صوبہ داءکنڈی جو ہزارہ قوم کا ہے) اور پاکستان میں پشتون بیلٹ کے تمام ضلعوں۔ تحصیل اور دیہاتوں میں سینکڑوں کی تعداد میں مدارس وجود رکھتے ہیں اسی طرح ایران میں جامعہ کے فضلاء کرام نے مدارس کھولے ہیں ۔شہیدعلامہ کی جامعہ اسلامیہ کے توسط سے وجود آنے والے مدارس جو بلوچستان کے پشتون بیلٹ میں قائم ہیں سالانہ دستاربندی کے پروگراموں میں سالانہ دعوتی واصلاحی دورے کے موقع پر فرزند و جانشین علامہ حضرت مولانا حافظ محمدیوسف چمن سے ڑوب۔چاغی سےلورلائی تک 30000/25000کلومیٹر تک سفر کرتے ہیں اور مدارس کی دستارفضیلت پروگراموں میں بطور مہمان خاص ہرسال شرکت یقینی بناتے ہیں جوکہ دین دوستی اور علامہ شہیدکی علمی مشن کو آگے بڑھانے اور جاری رکھنے کی ایک مثالی تاریخی اور انتھک عظیم عزم ہے۔شہیدعلامہاسلامی تنظیموں اور امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق اور سب کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کے لیے بے حد منتظر و بے تاب تھے۔طاغوتی قوتوں کیخلاف اور مظلوم و محکوم اقوام و ممالک کے ایک ترجمان کی حیثیت رکھتے تھے۔علامہ شہیدکو اللہ تعالیٰ نے اطاعت خدا۔سنت نبوی اور تقویٰ کرنے پر پہاڑ جیسی استقامت بخشی تھی اسلئے علوم و فنون کا ایک سمندر و سرچشمہ تھے۔شہیدعلامہ عبدالغنیکے علمی دینی اسلامی جھادی سیاسی قبائلی اور شرعی خدمات تو بے تحاشا ہیں لکھنے کو قلم و لکھاری دونوں عاجز ہیں ، 26 اکتوبر 2011 کو صبح معمول کے مطابق علامہ عبدالغنیدرس حدیث کیلئے جامعہ اسلامیہ کی طرف جارہےتھے کہ کوئٹہ چمن کے مین شاہراہ بمقام کالج روڈ علامہ رح کی کار دوسری جانب سے آنے والی کار سے ٹکرا گئی اور چند لمحات میں شیخ علامہ عبدالغنیجام شہادت نوش کیا یہ خبر افغانستان پاکستان اورا یران کے علاوہ عالمی میڈیائ پرنشرہوتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ چمن جامعہ اسلامیہ کا رخ کرتے ہوئے چمن کی تاریخ میں بڑے جنازے کا اعلان ہوکر شہیدعلامہ عبدالغنیکے بڑے فرزند حضرت مولانا حافظ محمدیوسف نے پڑھایا جسمیں ایک بڑی تعداد(ایک لاکھ کے قریب) علمائ کرام شیوخ عظام قبائلی عمائدین سرکاری شعبوں سے منسلک افراد اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والوں نے بہت غم دکھ اور آہ و فریاد اور دردناک وغمناک فضائ میں شرکت کی۔شہید علامہ کے ادھورے مشن و اسلامی خدمات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے علامہ شہیدکے بڑے صاحبزادے و جانشین, جمعیت علمائ اسلام پاکستان کی مرکزی شوریٰ کے ممبر ممتاز عالم دین سیاسی بصیرت رکھنے والے فصیح السان جناب حضرت مولانا حافظ محمدیوسف نے عزم کرکے درہ کوڑک کے دامن میں یہ آباد جامعہ اسلامیہ علامہ ٹاو¿ن کی خدمت اور شہید علامہ کی باقی اسلامی خدمات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے شہید علامہ کی طرح اپنی زندگی وقف کر رکھی ہے جامعہ اسلامیہ میں ماضی کی طرح اب بھی افغانستان پاکستان اور ایران سے ہزاروں کی تعداد میں دینی تعلیمات انتہائی پرسکون اور سہولیات سے دستیاب ماحول میں حاصل کرتے ہیں۔جامعہ اسلامیہ علامہ ٹاو¿ن میں فرزندوجانشین حضرت مولانا حافظ محمدیوسف اور انکے برادر مولوی محمدایوب واساتڈہ کرام جامعہ ومتبعین جامعہ کے توسط سے دینی تعلیمات کا سلسلہ انتہائی احسن طریقے سے جاری ہے علامہ شہیدکا 56سالوں سے دین کا یہ سلسلہ فی سبیل اللہ جاری ہے اس علمی تاریخی اقدامات میں مزید نکھار پیداکرنے کیلئے 25 سال پہلے 1997 میں جامعہ اسلامیہ کی بنیاد رکھی جو تاحال علامہ شہیدکا دینی سلسلہ بڑی محنت کیساتھ جاری وساری ہے۔وقت کے جدید تقاضوں کیساتھ ساتھ جناب حضرت مولانا حافظ محمدیوسف نے بھی جامعہ اسلامیہ میں وقت کے ضروری شعبوں کو فروغ دیا جس سے ہزاروں طلباء وقتاًفوقتاً مستفید ہورہے ہیں۔جامعہ اسلامیہ علامہ ٹاو¿ن میں 1500 طلباء زیر تعلیم ہیں جسکو وفاق المدارس کا نصاب تخصص بالفقہ شعبہ قرات۔شعبہ حفظ۔دورہ تدریبیہ اسکے ساتھ ھم نصابی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں جامعہ اسلامیہ میں ایک عظیم جامع مسجد بھی تعمیر ہے۔اسکے علاوہ دارالحدیث۔ اساتذہ کالونی۔ مہمان خانہ۔طلبائ کی رہائش گاہیں۔درسگاہیں۔شہید علامہ عبدالغنیکی آخری آرام گاہصحت عامہ کے ڈپارٹمنٹ سے منظور شدہ bho اسپتال اور حکومت پاکستان کی طرف سے منظورشدہ ایک پرائمری اسکول واقع ہے۔جامعہ اسلامیہ بشمول دیگر شعبہ جات کے تمام تر ادارے حکومت پاکستان سے باقاعدہ طور منظور شدہ ہیں۔جامعہ اسلامیہ سے ہزاروں علماءکرام متخصصین قراءحضرات حفاظ کرام فارغ ہوچکے ہیں جو اب مختلف ممالک میں امامت خطابت تدریس دعوت وارشاد اور تالیف و تصنیف کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اسی طرح جامعہ اسلامیہ میں دارالافتاءاور دار القضاء والتحکیم شعبے بھی وجود رکھتے ہیں دارالافتائ میں 30 کی تعداد میں مفتیان کرام ہیں جو قندھار سے لیکر بلوچستان بھرکے اضلاع کو دینی شرعی مسائل کا بروقت تحریری جوابات میسر کرتے ہیں۔دارالقضاءوالت حکیم میں 6علماء و مفتیان کرام ہیں جو جائیداد و وراثت کے مسائل کوحل کرنے میں پیش پیش ہیں۔بعض اوقات چمن عدالت و انتظامیہ سے بھی ضرورت کی بنائ پر روابط ہوتے رہتے ہیں۔جامعہ اسلامیہ میں ہرسال دستار فضیلت اور ختم بخاری کی مناسبت سے عظیم الشان فقیدالمثال بیاد علامہ شہیدکانفرنس منعقد ہوتی ہے جس میں قائدجمعیت پی ڈی ایم کے سربراہ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب خصوصی مہمان کی حیثیت سے شرکت فرماتے ہیں ویسے افغانستان پاکستان اور ایران کے عظیم شیوخ کرام علماء کرام و معتبرین سالانہ کانفرنس بیاد علامہ شہیدمیں لازمی شرکت کرتے ہیں اور علامہ شہیدسے اظہار محبت کا ثبوت پیش کرتے ہیں اسکے علاوہ قائدجمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب نے 8 دفعہ جامعہ اسلامیہ میں شرکت فرماءہے۔شہیدعلامہکانفرنس میں عظیم علمائ کرام عوام الناس کو اصلاحی اسلامی اور پرامن رہنے کی تقاریر کرتے ہیں۔اسکے علاوہ فرزندوجانشین علامہ حضرت مولانا حافظ محمدیوسف نے جامعہ اسلامیہ علامہ ٹاو¿ن میں ضلع چمن و بلوچستان بھر اسی طرح ملکی و بین الاقوامی سطح کیلئے اشاعت کا شعبہ بحال کر رکھا ہے جو تمام پشتون بیلٹ میں سہ ماہی اردو میگزین بنام ھوالھدیٰ کو شائع کرکے ارسال کرتے رہتے ہیں تاکہ عوام الناس جامعہ اسلامیہ علامہ ٹاو¿ن کے عظیم علمائ کرام کی تحریریں پڑھ کر فائدہ اٹھا سکے۔اسی طرح جدید دور کی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جامعہ اسلامیہ میڈیائ کا نشریاتی آن لائن بحال سسٹم بھی بنایا ہے جو جامعہ اسلامیہ میں تالیف و تصنیف کے شعبہ میں بحال کردار ادا کرنے میں مصروف رہتا ہے۔جامعہ اسلامیہ میں واقع جامع مسجد میں ہر جمعہ کے دن اور رمضان المبارک میں ہر ظہر نماز کے بعد فرزندوجانشین علامہ حضرت مولانا حافظ محمدیوسف عوام الناس کی اصلاح کیلئے شرعی و اصلاحی مسائل و واقعات پر مبنی تقاریرپیش کرتے ہیں اسی طرح رمضان المبارک می ںسینکڑوں معتکفین کا مشترکہ اعتکاف کا انتظام ہوتاہے جو ہر روز معتکفین کو تین شرعی مسائل سکھاتے ہیں اسکے علاوہ ہرسال حج عازمین کو دو ہفتوں کیلئے ملٹی میڈیائ (پروجیکٹر) کے ذریعے تربیت دی جاتی ہے۔اسی طرح جامعہ اسلامیہ میں بروز بدھ دس قرآن مجیدذکر اورختم خواجہ گان کا اہتمام کرتے ہیں جو ہفتہ میں اہل علاقہ میں کوئی فوت ہوچکاہو انکے روح کے ایصال ثواب کیلئے بلا تفریق بخشے جاتے ہیں اجتماعی دعا ہوتی ہے جامعہ اسلامیہ کا سالانہ 15میلین پاکستانی بجٹ ہے جو علاقے کے دین دوست عوام کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔اسکے علاوہ جامعہ اسلامیہ کسی بھی سرکاری و نیم سرکاری اداروں کی فنڈنگ وتعاون سے بالکل لاتعلق بلکہ ممنوع ہے اور نہ جامعہ اسلامیہ کی یہ پالیسی ہے کہ وہ سرکاری ونیم سرکاری سے دینی خدمت کے سلسلے میں تعاون کی تمناء یا ارادہ رکھے۔اسی طرح فرزندوجانشین علامہ حضرت مولانا حافظ محمدیوسف خود ایک ملنسار مہمان نواز عالم دین دینی علوم کے ماہر شرعی و قبائلی مسائل وتنازعات سے بخوبی واقف اور عبور حاصل رکھنے والی ہستی ہے اسکی واضح مثال شہید علامہکی روہیت ہلال کمیٹی سے39 سالوں سے منسلک رہنے کی ذمہ داری اب فرزندوجانشین علامہ کے کاندھوں پر ہے۔یہ مولانا حافط محمدیوسف کی علمیت پر واضح دلالت ہے حضرت مولانا حافظ محمدیوسف جامعہ اسلامیہ علامہ ٹاو¿ن میں شہیدعلامہ عبدالغنیکی دینی خدمات کا سلسلہ جاری رکھنے کیساتھ ساتھ قدرتی آفات سے متاثرہ عوام کو ریلیف دینے کا بھی ایک سلسلہ رکھتے ہیں جو ایمرجنسی کی صورت میں عوامی استفادہ برقرار رہتاہے۔اسی طرح فرزندوجانشین علامہ حضرت مولانا حافظ محمدیوسف کا جماعتی قبائلی اور سیاسی میدان میں کلیدی کردار ہے گزشتہ سال بنو میں پشتون جرگے کی ایک نشست کی سربراہی دینے سے واضح ہے اور ملک بھر سے اسلام کے عظیم شیوخ کی جامعہ اسلامیہ میں آمد اور بالخصوص فرزندوجانشین علامہ حضرت مولانا حافظ محمدیوسف کا مرکزی سطح پر جماعتی پالیسی کی مجالس میں شرکت یہاں علاقائی قومی اور سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکرعلاقاءپارٹیوں کے ذمہ دار ساتھیوں سے پرامن معاشرے کی مشاورتوں میں شرکت اور فرزندعلامہ حضرت مولانا حافظ محمدیوسف سے صلاح و مشورے لینے سے شہید علامہ عبدالغنیکے اسلامی مشن زندہ و تابندہ نظرآتاہے۔جیسے شہید علامہ عبدالغنیاپنے دور حیات میں تعصب نفرت اور غیر اسلامی و غیرشرعی رسومات سے نفرت اور ایک منظم وحدت کے حامی تھے الحمداللہ فرزندوجانشین شہید علامہعبدالغنی حضرت مولانا محمدیوسف بھی اپنے عظیم والد گرامی کے نقش قدم پر رواں دواں ہے جیسے عوام الناس پ±رامید تھے ویسے ہی فرزند و جانشینِ علامہ حضرت مولانا حافظ محمدیوسف بھی عوامی تمناو¿ں کو مدنظر رکھتے ہوئے بھرپور انداز میں علامہ شہیدکی طرح یکجہتی وحدت عوامی خدمت اسلامی تعلیمات شرعی مسائل قبائلی تنازعات اور درس بخاری کو تازہ اور جاری رکھا ہے اللہ مزید بھی توفیق عطاءفرمائیں آمین