فتنہ قتل سے بھی بڑا ہے( 2 )

0 220

سائرہ حمید تشنہ لاہور

فتنہ قتل سے بھی بڑا ہے۔ ( 2 )

شازب دن ڈھلے گھر آئے تو اجالا کا پہلا سوال یہ تھا
“ڈاکٹر کے پاس گئے تھے”؟
“نہیں، اب میں ٹھیک ہوں”۔شازب نے خوش مزاجی سے کہا
“حد ہو گئی، دو تین دن ہو گئے بخار ہوتے ہوئے لیکن دکھایا کسی کو بھی نہیں”۔
اجالا ناراض ہونے لگی
شازب تن کر بیوی کے سامنے کھڑے ہو گئے۔
“لو، دکھا تو رہا ہوں تمہیں، خوب اچھی طرح دیکھ لو”۔
ان کی آنکھوں اور چہرے پر شوخی تھی۔
“شازب،خدا کے لیے کبھی تو سنجیدہ ہو جایا کریں، آپ کی طبیعت مجھے ٹھیک نہیں لگ رہی، بس، میں نہیں جانتی، آپ ڈاکٹر کو دکھا کر آئیں”۔
اجالا نے خفگی بھری سنجیدگی سے کہا۔بیوی کی خفگی کو دیکھ کر میاں پھر گھر سے باہر جانے لگے۔
“دراصل، اب تمہیں یہ پریشانی ہے کہ میں چھٹیوں پر کیوں ہوں۔گھر میں برداشت نہیں ہو رہا نا تمہیں”۔ کہتے ہوئے شازب پھر گھر سے باہر چلے گئے۔
” اس وقت تو کمپوڈر ہی مل سکتا تھا۔ اس نے کہا ہے کہ ٹھنڈی چیزیں،جوس وغیرہ پیو، گرمی ہو گئی ہے”۔
رات کو گھر آ کر اجالا کے استفسار پر شازب نے بتایا۔

فوج مخالف مہم پر آرمی چیف کا سخت رد عمل آگیا


اجالا نے اسی وقت کینو،سیب،انگور، جو بھی مائع چیزیں مل سکتی ہوں، منگوا لیں۔
رات کے تقریباً بارہ بجے تک بچے اور اجالا مل کر شازب کو دباتے رہے۔ سارے جسم میں خاص طور پر بازوؤں میں شدید درد ہو رہا تھا۔ اس نے بچوں کو سونے کے لیے بھیج دیا اور خود میاں کو دباتے دباتے, غنودگی میں دیکھتی تو، نہ چاہنے کے باوجود، خود بھی اونگھنے لگتی، وہ ذرا سا ہلتے تو ساتھ ہی اجالا کی آنکھ کھل جاتی اور جلدی سے ٹھنڈی رس بھری کوئی نہ کوئی چیز ان کے منہ میں ڈالتی رہتی۔
اگلے دن اجالا کینؤوں کےجوس کا گلاس بھر کر مختلف وقتوں میں شازب کو دیتی رہی یا بچوں سے پلواتی رہی اور ساتھ ساتھ کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھانے کا کہتی رہی۔
” میں ذرا جمشید کے گھر جو حکیم آیا ہے اسے نہ دکھا آؤں؟ تجربہ کار لگتا ہے”۔
شازب نے بیوی کی طرف دیکھ کر اپنے خیال کی تائید چاہی۔
” مجبوری ہے ورنہ گاؤں میں ہر وقت کوئی تجربہ کار ڈاکٹر ہونا چاہیے۔ مجبوراً ہی نیم حکیموں کے پاس جانا پڑتا ہے”۔ اجالا نے بیزاری سے کہا۔
” شرجیل بیٹا، اپنے ابو جی کو پکڑ کر چاچا جی جمشید کے گھر لے جائیں”۔
تین چار دنوں میں خاصی کمزوری ہو گئی تھی۔ اجالا نے جلدی جلدی بستر ٹھیک کیا۔ گلاس جوس کا تیار کیا۔ جوسر گھر میں نہیں تھا، جیسے تیسے کر کے جوس نکالنا پڑتا تھا۔ جب دونوں باپ بیٹا واپس آئے تو وہ جوس کا گلاس تیار کر چکی تھی۔ شریکِ حیات کو جلدی سے بستر پر لٹایا اور گلاس آگے بڑھایا۔
” نہیں امی جی، حکیم صاحب نے کہا ہے کہ کوئی جوس وغیرہ نہیں پینا”۔
شرجیل نے اپنی امی کو بتایا۔
” کیا”؟؟؟
حیرت سے اجالا بول اٹھی۔ اس کا دل نہیں مان رہا تھا حکیم صاحب کی ہدایت پر عمل کرنے کو۔
” لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے، وہ دیکھ نہیں رہا کہ رنگ کیسے زرد ہو رہا ہے”۔
اجالا دونوں سے الجھ پڑی۔
عجیب حکیم ہے، اس نے پھر بھی گلاس شازب کی طرف بڑھایا۔
” اچھا یہ پی لیں اور نہ پینا”۔
” نہیں بھئی، جب حکیم صاحب نے منع کیا ہے تو پھر۔۔۔۔۔۔”
شازب نے انکار کر دیا، اجالا الجھی الجھی سی بچوں کو انہیں دبانے پر لگا کر دوسرے کام کرنے لگی۔
رات پھر سر پر آن پہنچی تھی اور اجالا کا مزاج سخت برہم ہو رہا تھا کیونکہ تکلیف بڑھتی جا رہی تھی اور کسی دوائی سے فرق نہیں پڑ رہا تھا، تین دن ہو گئے تھے اجالا کو شور مچاتے ہوئے کہ کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھائیں۔ شہر ( بڑے بھائی شہر میں رہتے تھے) جا کر دکھا آئیں، لیکن شازب حسب عادت ٹال مٹول سے کام لیتے جا رہے تھے۔ تکلیف بڑھتی رہی اور چوتھا دن یعنی چوتھی رات آ گئی۔
رات آٹھ نو بجے کے درمیان شازب دوائی کھانے لگے۔پانی دیتے ہوئے اجالا نے ان کی آنکھوں کو دیکھا اور حیرت سے خوفزدہ ہو کر چلائی،
” شازب شازب یہ آپ کی آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔”
” کیا ہوا ”
انہوں نے کمزور سی آواز میں پوچھا۔
” انتہائی پیلی ہو رہی ہیں۔”
انتہائی پریشانی سے جواب آیا۔
” میں آپ کو کہتی جا رہی تھی کہ شہر جا کرکسی اچھے ڈاکٹر کو دکھائیں لیکن آپ سنتے ہی نہیں ہیں۔ شرجیل عدیل جلدی سے آئیں، ”
” کیا ہوا امی؟ کیا ہوا امی؟”
دونوں بھاگے آئے اور بیتابی سے بولے
“دیکھو، اپنے ابو جی کی آنکھیں دیکھو کیسی پیلی ہو رہی ہیں۔ ”
اجالا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
“جلدی سے جاؤ، ویگن کا پتہ کراؤ، ابھی شہر جانا ہے، پھر تکلیف یا، اگر خدا نہ خواستہ، کوئی بیماری ہوئی اور زیادہ بڑھ جائے گی تو پھر کیا فائدہ، چار دن ہو گئے مجھے کہتے ہوئے لیکن میری سنتا ہی کون ہے۔”
اجالا انتہائی بے بسی سے رونے لگی۔
” اب میں کسی کی نہیں سنوں گی،خود لے کر جاؤں گی شہر۔”
وہ روتے ہوئے بولتی جا رہی تھی۔
“اچھا پریشان نہ ہو، میں صبح چلا جاؤں گا شہر”
شازب نے بیوی کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا
” نہیں، پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے،اب میں اور صبر نہیں کر سکتی۔ وہ پر زور انداز سے بولی۔”
” بھئی، میں وعدہ کرتا ہوں کہ صبح ضرور جاؤں گا۔”
” جاؤ عدیل، گلباز سے کہو کہ صبح گازی تیار رکھے۔ ابو جی کو اسپتال لے کر جانا ہے”۔ عدیل فوراً چلا گیا۔ اجالا، با دل نہ خواستہ خاموش ہو گئی اور وہ رات سب نے جیسے کانٹوں پر گذار دی۔ شازب کا تکلیف سے برا حال تھا۔ان کی تکلیف خدمت گزار بیٹے اور جانثار بیوی بھی دور نہیں کر سکتے تھے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
_____

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.