“ہم کہاں جارہے ہیں”

0 181

پچھلے دنوں آئی ایم ایف اور اقوام متحدہ کی بلڈنگز کے سامنے تحریک انصاف اور اسکے سپورٹرز نے احتجاج کیا اور پاکستان کو دی جانے والی قسط روکنے کا مطالبہ کیا اس کے علاوہ پاک فوج اور آرمی چیف سید عاصم منیر اور سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کیخلاف نازیبا زبان استعمال کی گئی اور نعرے بازی کی گئی یہ پہلی بار ایسا ھوا ہے کہ کسی سیاسی جماعت اور اسکے سپورٹروں کیطرف سے پاکستان اور اسکے اداروں کیخلاف احتجاج کیا گیا ہے 2013 کے بعد تحریک انصاف کے اس جارحانہ رویے میں شدت آئی بظاہر اسکو عوامی سطح پہ پسند کیا گیا کیونکہ لوگ مسلم لیگ ن,پیپلزپارٹی اور دوسری سیاسی جماعتوں سے تنگ تھے کیونکہ یہ سیاسی جماعتیں الیکشن سے پہلے خوب وعدے وعید کرتی ہیں مگر الیکشن جیتنے کے بعد طوطے کی طرح آنکھیں پھیر لیتی ہے خصوصاً مسلم لیگ ن نے عوام کو پنجاب اور وفاق میں بہت مایوس کیا جبکہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی یہی روش تھی ان کے اس رویے کی وجہ سے عوام ان سے تنگ تھی اور وہ کسی ایسی سیاسی جماعت کو آگے لانا چاہتی تھی جو انہیں باقی تمام سیاسی جماعتوں سے نجات دلانے کیساتھ ساتھ مہنگائی اور بیروزگاری کا خاتمہ کرے اور ملک سے غربت دور کرے اس لیے انہوں نے تحریک انصاف کا چناؤ کیا مگر اس نے پچھلوں کا بھی ریکارڈ توڑ دیا اور عوام کی چیخیں نکل گئیں وزراء,مشیران نے عام آدمی پر اپنے دروازے بند کردیے کاروبار تباہ ھوگئے بیروزگاری بڑھ گئی,سوال پوچھنے والوں کو سلاخوں کے پیچھے بند کروا دیا جاتا یا انہیں سرعام گولیاں مروائی جاتیں میڈیا پر پابندی لگ گئی جو بولتا یا لکھتا ان کے اشتہارات بند کردیے جاتے اور انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا یعنی وہ عمران خان جسے عام لوگوں نے اقتدار کی کرسی پر بٹھایا وہ اقتدار ملنے کے بعد عوام کو ہی دوشی سمجھنے لگا لیکن کہتے ہیں ناں کہ رب کی لاٹھی بے آواز ہے جب پڑتی ہے تو تب سمجھ آتی ہے کہ یہ کیا ھوگیا۔
عمران کی ساڑھے سال کی حکومت ختم کرنیوالی پی ڈی ایم کی 13 جماعتوں نے عوام کا کچومر نکال دیا عمران خان کے دور میں مہنگائی 16 فیصد تھی جو پی ڈی ایم حکومت کے دوران 47 فیصد پر پہنچ گئی,پی ڈی ایم حکومت میں شامل جماعتوں نے عمران خان کے نقش قدم پر چلتے ھوئے عوام کی اگلی پچھلی کسریں نکلوائیں,اب ایک بار پھر پی ڈی ایم ٹو اقتدار میں آچکی ہے اور آتے ہی عوام پر ٹیکسیز کی بھرمار کردی گئی بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ھوشربا اضافہ ھوچکا ہے اشیائے خوردونوش عام آدمی کی پہنچ سے دن بدن باہر ھوتی جارہی ہیں,ملک میں غربت,بیروزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے جرائم کی شرح میں اضافہ ھوتا جارہا ہے لاقانونیت عروج پر پہنچ چکی ہے اغواء برائے تاوان اور ڈکیتیوں میں خطرناک حد تک اضافہ ھوچکا ہے کچے کے ڈاکو عام لوگوں کیساتھ ساتھ اب ریاستی اداروں کو بھی چیلنج کرتے نظر آرہے ہیں پولیس نے بھی تقریباً ہاتھ کھڑے کردیے ہیں ڈاکو کسی کو بھی نہیں چھوڑ رہے چاہے کوئی استاد ھو یا پانچ سو روپے مزدوری کرنیوالا ایک مزدور,انہیں اغواء کرکے ان پر شدید تشدد کیا جاتا ہے اور اسکی تشدد والی وڈیو بنائی جاتی ہے اور ان کے گھر والوں سے کروڑوں روپے بھتہ وصول کیا جاتا ہے خیر یہ تو کچے کی بات ہے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں تھانہ گولڑہ کی حدود میں ایک خاتون کو ایران اور افغانستان سے کال آتی ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ ایک ارب روپے بھتہ دیدو ورنہ آپ کی اور آپ کی بیٹی کی خیر نہیں ہے,اسلام آباد جو کبھی پاکستان کا محفوظ ترین شہر سمجھا جاتا ہے اور لوگ رات کو بھی اکیلے آزادانہ گھومتے پھرتے تھے لیکن پچھلے دو سے تین سال میں یہ شہر منی کراچی بن چکا ہے جہاں دن دیہاڑے ڈکیت دندناتے پھرتے ہیں اور لوگ گھروں میں بھی اب محفوظ نہیں ہیں آپ دو دن پہلے اسلام آباد کی ہی مثال لے لیں جس میں ڈاکو گھر میں گھس کر سب کچھ لوٹ کر لے گئے۔
سیاسی عدم استحکام نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے جس کی وجہ سے افغانستان جیسے ملک نے بھی پاکستان کو آنکھیں دکھانی شروع کردی ہیں پاکستان نے بارہا افغانستان کو باور کرایا ہے کہ اسکی سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال ھورہی ہے مگر وزارت خارجہ کے مطابق دو اڑھائی سال میں افغانستان نے اس کو سئیریس نہیں لیا پچھلے ہفتے شمالی وزیرستان میں پاک فوج کے جوانوں کی شہادت میں افغان سرزمین کے ملوث ھونے کے شواہد ملنے کے بعد پاک فضائیہ نے افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاھوں کو نشانہ بنایا اور نومولود افغان حکومت کو یہ پیغام دیا کہ ھماری شرافت کو ھماری کمزوری نہ سمجھا جائے پاکستانی فوج اپنے چپے چپے کا دفاع کرے گی۔
دوسری طرف انڈیا میں الیکشن سر پہ ہیں اور مودی حکومت اقتدار کی خاطر پلوامہ جیسا منصوبہ بنارہی ہے وہ ایک بار پھر سرجیکل اسٹرائیک کو دہرانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کیلئے ھماری پاک فوج ہمہ وقت تیار ہے مگر ھمارے سیاستدانوں کو بھی سیاسی اختلافات بھلانے ھوں گے اور ملک کی خاطر اکٹھا ھونا ھوگا۔
پاکستان ایک دفعہ پھر آئی ایم ایف پروگرام میں جاچکا ہے اور اس پروگرام کے آفٹر شاکس عام آدمی کو بہت متاثر کریں گے وزیراعظم شہبازشریف,صدرپاکستان آصف علی زرداری اور ان کے اتحادیوں کو مل بیٹھ کر عام آدمی کی مشکلات کم کرنے پر کام کرنا ھوگا اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے جسکی روک تھام کیلئے ابھی تک کوئی عملی منصوبہ شروع نہیں کیا جاسکا جب تک اس ملک سے کرپشن ختم نہیں ھوگی تب تک یہ ملک یونہی بیرونی امداد اور قرضوں کا محتاج رہے گا,سیاستدانوں کو اپنی نسلوں کی بجائے قوم کے بچے بچے کا سوچنا ھوگا پہلے ن لیگ زیر عتاب تھی تو تحریک انصاف خوشی کے شادیانے بجارہی تھی اور آج تحریک انصاف اپنے کیے کی سزا بھگت رہی ہےتو حکومتی جماعتیں خوش ہیں کہ چلو شکر ہے ھم بچ گئے یہ سلسلہ آخر کب تک چلے گا تمام سیاستدانوں کو تحریک انصاف کی طرز پر بھٹی میں پکانا ھوگا تاکہ سب کندن بن جائیں اور اس ملک کی فلاح و بہبود کیلئے اپنا کردار ادا کریں آج ھمارے ساتھ آزاد ھونیوالا بھارت اور ھم سے آزاد ھونیوالا بنگلہ دیش کہاں کا کہاں پہنچ گیا,چین,ملائیشیا,ترکی حتیٰ کہ سعودی عرب کہاں سے کہاں پہنچ گیا اور ہم ابھی بھی کشکول اٹھائے پھر رہے ہیں ھمارے حکمرانوں کو یہ اللے تللے اور عیش و آرام چھوڑنے ھوں گے اب یہ بات مذاق لگتی ہے کہ ھمارے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں ھم ایٹمی طاقت ہیں مگر بجلی,گیس اور صاف پانی سے محروم ہیں ھمارے پاس ایٹمی ہتھیار تو ہیں مگر اپنے بچوں کو کھلانے کیلئے دو وقت کی روٹی نہیں ہے,انہیں اچھے اسکول میں پڑھانے کی طاقت نہیں ہے ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی سکت نہیں ہےھمیں اب اگر زندہ رہنا ہے تو معاشی میدان میں ترقی کرنی ھوگی جاپان ایٹم بم کھاکر بھی آج دنیا پہ راج کررہا ہے اس کے راج کی وجہ اسکے معاشی میدان میں ترقی ہے آج چین سوئی سے لیکر ھوائی جہاز تک بنارہا ہے ان کے حکمرانوں نے اپنی عیش و عشرت کو ترک کیا,ایران کے احمدی نژاد ملک کے طاقتور صدر رہ چکے ہیں مگر آج وہ شخص پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتا ہے اور بکریاں چرا کر اپنی گزر بسر کرتا ہے پاکستان میں صدر تو دور ایک کونسلر بھی اگلی دفعہ مال بناکر ناظم یا ایم پی اے کا الیکشن لڑرہا ھوتا ہے,سابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو اپنے معاملات چلانے کیلئے اپنے کزن سے ادھار لینا پڑتا ہے مگر ھمارے ہاں جو ایک دفعہ بھی وزیراعظم بن جاتا ہے پھر اسکو ساری زندگی غریب عوام کے ٹیکس سے مراعات ملتی رہتی ہیں۔
میں اور کتنی مثالیں دوں کہ ھم بطور قوم سدھرنا ہی نہیں چاہتے بس یہی چاہتے ہیں کہ ہم جس گہری نیند میں سوئے ہیں ھمیں اس سے نہ جگایا جائے ھم وہ قیدی ہیں جن کو اپنی بیڑیوں سے پیار ہے۔
خیر بات کہیں اور نکل جائے گی میں مدعے پر آؤں کہ سب سے پہلے بطور قوم ھمیں خود کو سدھارنے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک ہم خود نہیں سدھریں گے اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کر پائیں گے اور ایسا کرنے کیلئے ھمیں گہری نیند سے جاگنا ھوگا۔
رب کریم سے دعا ہے کہ وہ میرے ملک اور میری قوم پر رحم پر فرمائے اور اس ماہ مقدس کے صدقے پاکستان کو دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے۔آمین

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.