بلوچستان میں ولور کی جاہلانہ رسم
( شادی کے موقع پر دولہا سے لڑکی کے عوض رقم طلب کی جاتی ہے )
تحریر ۔۔۔نورین اکبر غوری
اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت دونوں کو یکساں حقوق و فرائض عطاءکئے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر دونوں کے حقوق و فرائض یکساں ہیں تو ہمارے معاشرے میں خواتین کیساتھ اتنی ناانصافی اور ظلم کیوں روا رکھا جاتا ہے ؟ اس سوال کا آسان ترین جواب یہ ہے
کہ ہمارے ملک میں خواتین کو ان کے حقوق دیئے ہی نہیں گئے ہیں ۔ خواتین بالخصوص دیہی علاقوں کی خواتین کیساتھ جانوروں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے آئے دن اخبارات میں خواتین پر تشدد کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ ملک میں کاروباری اور ستی جیسی مکروہ رسمیں رائج ہیں جن کی وجہ سے خواتین کی زندگی جہنم بن گئی ہے ۔
صوبہ بلوچستان اور سرحد میں ایسی ہی ایک رسم ولور کے نام سے رائج ہے ۔ اس رسم میں
شادی کے موقع پر لڑکی والے لڑکی کے عوض دولہا سے رقم کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ مطلوبہ رقم ملنے پر اس لڑکی شادی کردی جاتی ہے ۔ ولور دینے سے لڑکی پر اس کے ماں باپ کا کوئی حق نہیں رہتا ۔ شادی کے بعد لڑکا یا پھر اس کے گھر والے اس پر جو بھی ظلم کریں لڑکی کے والدین اس کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے کیونکہ وہ تو رقم کے بدلے میں لڑکی کو فروخت کر چکے ہوتے ہیں اور جس طرح دکان پر رکھی ہوئی چیز فروخت کے بعد دکاندار کی نہیں رہتی بالکل اسی طرح شادی کے بعد ولور کی رسم کی وجہ سے لڑکی انسان نہیں بلکہ شے بن جاتی ہے اور اب یہ لڑکے کے اوپر ہے کہ وہ اس بے جان شے کا جس طرح چاہے استعمال کرے ۔
ولور کی رقم کا انحصار لڑکی پر ہوتا ہے جس طرح بکرا پیڑی میں جانوروں کی بولیاں لگتی ہیں اور خوبصورت عمر اچھی نسل کے جانور کی قیمت زیادہ ہوتی ہے بالکل اسی طرح اچھے خاندان کم عمر ، خوبصورت لڑکی کی قیمت بھی زیادہ
ہوتی ہے ۔ اب خود ہی سوچئے کہ جو لڑکی جانوروں کی طرح خریدی جائے گی اس کی کیا قدرو قیمت ہوگی ؟
افسوس تو اس بات کا ہے کہ جاہلانہ رسم کی پیروی کرتے ہیں ۔ بعض کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ یہ ہمارے آباءواجداد کی رسم ہے ہم اس سے منہ نہیں موڑ سکتے ، بعض خاندانی دباﺅ اور جھوٹی شان و شوکت کی خاطر ولور کی رسم اپنائے ہوئے ہیں ۔
عام طور پر اگر لڑکی کے سسرال میں کسی بھی قسم کا لڑائی جھگڑا ہوتا ہے تو اس کے میکے والے اس
کا ساتھ دیتے ہیں جبکہ ولور کی رسم میں گرفتار والدین شادی کے موقع پر دولہے سے رقم لے کر اپنے تمام حقوق و فرائض سے سبکدوش ہوچکے ہوتے ہیں لہٰذا چاہنے کے باوجود بھی وہ اپنی بیٹی کا ساتھ دینے کیلئے اس کی کسی قسم کی کوئی مدد نہیں کرسکتے دوسری طرف لڑکے والے لڑکی کو مایوس اور بے آسرا دیکھ کر ظلم کا بازار گرم کر دیتے ہیں ۔ چاروں طرف سے مایوسی اور کسی قسم کی مدد نہ ہونے کی وجہ سے بعض اوقات ظلم میں گھری لڑکیاں خودکشی پر مجبور ہوجاتی ہیں ۔
دین اسلام کی روح سے دیکھا جائے تو اس قسم
کی کسی بھی رسم کی اسلام میں کہیں کوئی مثال نہیں ملتی ہے ۔ اسلام تو مرد و عورت کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیتا ہے اور ہر جگہ خواتین کیساتھ اچھا سلوک کرنے کی تلقین کی گئی ہے
۔
ولور کی رسم شادی کی رسم نہیں بلکہ لڑکی کے پیروں میں ڈالی ہوئی بیڑیاں ہیں جن سے وہ کسی طرح آزاد نہیں ہوسکتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ولور کے نام پر خواتین کی آزادی سلب کرنے کی اس رسم کو فوری طور پر ختم کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ خواتین بھی
اپنی زندگی اپنی مرضی و خوشی سے گزار سکیں شادی کوئی مجبوری کا بندھن تو نہیں ہے اور ہمارا دین بھی خواتین کو ان کی مرضی کی زندگی گزارنے کی اجازت دیتا ہے لہٰذا ولور کے نام پر ان کے پیروں میں زنجیریں نہ ڈالی جائیں ۔ اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کا بھی فرض ہے کہ وہ ایسے پروگرام نشر کریں جس سے لوگوں میں شعور و آگہی پیدا ہو اور وہ اپنی بہو بیٹیوں کو اس رسم کا شکار نہ ہونے دیں ۔