نہ ظلم کریں گے، نہ برداشت کریں گے، ایران کا دوٹوک مؤقف
نہ ظلم کریں گے، نہ برداشت کریں گے، ایران کا دوٹوک مؤقف
مشرق وسطیٰ میں 12 روزہ جنگ کے بعد ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا عمل تو شروع ہو چکا ہے، لیکن ایرانی قیادت کے سخت بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ تہران کسی بھی قسم کی دباؤ یا ہراسانی کو ہرگز قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ “ایکس” پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا:نہ ہم کسی پر ظلم کریں گے، نہ ہی کسی کا ظلم برداشت کریں گے۔ ایران کسی قسم کی ہراسانی یا دباؤ کو قبول نہیں کرے گا۔ ایران کی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔”
امن کا معاہدہ یا وقتی خاموشی؟
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پلیٹ فارم “ٹروتھ سوشل” پر اعلان کیا کہ ایران اور اسرائیل مکمل جنگ بندی پر متفق ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ:ایران جنگ بندی کا آغاز کرے گا، اور 12 گھنٹے بعد اسرائیل بھی کارروائیاں بند کرے گا۔ 24 گھنٹے بعد جنگ کا باقاعدہ خاتمہ ہوگا۔ یہ جنگ مشرق وسطیٰ کو تباہ کر سکتی تھی، لیکن دنیا بچ گئی۔”میڈیا رپورٹس کے مطابق، جنگ بندی کی درخواست اسرائیل نے خود کی تھی۔ امریکی قیادت نے اس تجویز کو امیر قطر کے ذریعے ایران تک پہنچایا، جنہوں نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔
ایران کا محتاط مؤقف: عسکری ردعمل مؤخر
ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا کہ ایران نے کوئی باضابطہ جنگ بندی معاہدہ قبول نہیں کیا، تاہم اگر اسرائیل مقامی وقت کے مطابق صبح 4 بجے تک اپنی جارحیت روک دیتا ہے، تو ایران بھی جواباً مزید عسکری کارروائی نہیں کرے گا۔انہوں نے کہا:جنگ کا آغاز ایران نے نہیں کیا، یہ اسرائیل کی طرف سے تھا۔ اگر حملے بند نہ ہوئے تو ہم اپنا دفاع جاری رکھیں گے۔