شہیداسلام حضرت مولانا محمدحنیفؒ کی مثالی خدمات

0 191

تحریر۔ محمدنسیم رنزوریار

محترم قارئین(شہید) جاں نثار اس شخص کو کہا جاتا ہے جو ایذا رسائی کا شکار ہوا ہو اور تلقین ترک، ترک کرنے سے انکار یا ایمان کی تلفین ترک کرنے سے انکار پر ایک بیرونی فریق کے ہاتھوں سے قتل کیا گیا ہو۔ مطالبات سے انکار کرنے پر ظالم کے ہاتھوں سے سزائے موت دیے گئے شخص کو شہید کہا جاتا ہے۔ اور دراصل شہید اس کو بھی کہا جاتا ہے جن کو ان کے مذہبی عقیدے کی وجہ سے قتل کیا جائے۔اسلام میں شہید کا مرتبہ بہت بلند ہے اور قرآن مجید کے مطابق شہید مرتے نہیں بلکہ زندہ ہیں اور اللہ ان کو رزق بھی دیتا ہے۔ شہید کو احادیث نبوی کی روشنی میں ابوہرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا۔ت±م لوگ اپنے(مرنے والوں ) میں سے کِسے شہید سمجھتے ہو؟ صحابہ نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول جو اللہ کی راہ میں قتل کِیا جاتا ہے (ہم ا±سے شہید سمجھتے ہیں )، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا۔ اگر ایسا ہو تو پھر تو میری ا±مت کے شہید بہت کم ہوں گے۔ صحابہ نے عرض کِیا۔ اے اللہ کے رسول تو پھر شہید (اور) کون ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشادفرمایاجو اللہ کی راہ میں قتل کِیا گیا وہ شہید ہے،اورجو اللہ کی راہ میں نکلا (اور کسی معرکہِ جِہاد میں شامل ہوئے بغیر مر گیا یا جو اللہ کے دِین کی کِسی بھی خِدمت کے لیے نکلا اور ا±س دوران )مر گیا وہ بھی شہید ہے اور جو طاعون (کی بیماری )سے مر گیا وہ بھی شہیدہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔اسلام کے اس عظیم شہدا کی قطار میں جمعیت علماءاسلام پاکستان کے مرکزی ڈپٹی جنرل سکیرٹری ختم نبوت کے محافظ محب الوطن اور ہر دلعزیز شخصیت قائدجمعیت کے دست راست اور بلوچستان کے نڈر سیاستدان عوام دوست شخصیت شہیداسلام شہیدجمعیت حضرت مولانا محمدحنیف بھی شامل ہوئے۔شہید ایک ممتاز عالم دین اور اسلامی سیاست کے عظیم مینار ہونے کیساتھ ساتھ ایک پرامن قبائلی شخصیت بھی تھے۔جسکی خدمات اور اقدامات صرف بلوچستان تک نہیں بلکہ پاکستان کے قومی سطح پر اور ہمسایہ ملک افغانستان کے عوام میں بھی مقبولیت کی فضاءمیں پیش پیش تھے۔شہیدمولانا محمدحنیف نے بلوچستان بھر کے اضلاع میں چالیس سال تک جمعیت علماء اسلام کے فلیٹ فارم سےغریب اور بے بس عوام کا ترجمانی کیا۔جہاں بھی عوام کو کوئی مشکل درپیش ہوتا تو شہید نے صف اول کا کردار ادا کرتا تھا اسکے علاوہ قبائلی اور سرکاری سطح

پہ شہید اسلام نے بے تحاشا خدمات کئے ہیں جسکی واضح مثال اسکے شہادت کے بعد مظلوم اور غریب عوام کی منظر آفسردگی اور غم رازی سے عیاں ہے کہ ایک سال مکمل ہونے کے باوجود پاکستان اور افغانستان سے تعزیت کیلئے علماءکرام قبائلی عمائدین اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اشخاص جانشین شہیداسلام حضرت مولانا مفتی محمدقاسم کے پاس تشریف لاتے ہیں اور شہید کی مثالی زندگی کے مثالی خدمات اور اقدات سہراتے ہی شہید اسلام کواحترام عقیدت پیش کرتے ہیں۔صرف جمعیت علماءاسلام میں نہیں بلکہ دیگر مذھبی اور سیاسی پارٹیوں میں بھی انتہائی سیاسی بصیرت کی بدولت سے مقبول ترین لیڈرسمجھے جاتےتھے۔جب بھی قلعہ عبداللہ میں جنرل الیکشن کا وقت آتا تو شہید سب امیدواروں میں سے مقبول اور عوام پسند امیدوار تصور کیا جاتا تھا۔یہ کوئی الگ بات ہے کہ شہیداسلام حضرت مولانا محمدحنیف نے( ۹) بارجنرل الیکشن کے قومی اور صوبائی نشست پر مقابلہ کیا ہے کہ وہ جیت کر بھی ہارتا وہ مقاصد اور اغراض سب کو سرکاری اور عوامی سطح پر عیاں ہیں۔کہ شہیداسلام وقت کے خانیزم نوابیزم اور بے جا کلاشنکوف کلچرز اسی طرح عیاشی عریانی اور مظلوموں کی حقوق پر ڈھاکہ ڈالنے کے خیلاف تھے۔وہ قبائلی سطح پر مظلوم عوام اور ہر باطل غاصب کی ظلم و جبر کے درمیان سیسہ دیوار کی حثیت رکھتے تھے۔وہ تن تنہاءسب کا مقابلہ کرتے تھے۔کئی بار ایسی بھی ہوا ہے کہ شہید اسلام کو اپنوں نے ہی دیوار سے لگاکر دشمن کو مقابلہ جیتنے کا راہ ہموار کردیاہے لیکن شہیداسلام ایک ایسی انسان تھے کہ جسکی صبر تحمل وسیع سوچ و فکر سے صوبے اور ضلعے کی پرامن قائم ودائم تھا۔اسکے پرامن سیاست کا سب سے روشن اور واضح مثال یہ بھی ہوتاہے کہ جس نے چالیس سال کی سیاست اور خدمت میں کسی بھی صورت میں کسی کا ایک قطرہ خون تک نہیں بہایا ہے لیکن دیگر صاحباں تو ہم دیکھتے ہیں کہ معمولی سیٹ جیتنے کیلئے ڈکیتی غارتگری کے علاوہ بڑی پیمانے تک قتل کرنا بھی نہیں چھوڑتاہے لیکن شہیداسلام ضمیر اور نظریے کے سوداگر نہیں تھے وہ اسلامی عقیدے اور اسلامی سوچ وفکر کے چٹان کی طرح مضبوط پہاڑ تھے۔قبائلی سطح پر ہزاروں کی تعداد میں قومی تنازعات دور کئے ہیں ہر وقت صلح و امن کے اقدامت میں مصراف عمل تھے۔ایک دن شہیداسلام نے اپنے ایک خطاب میں عظیم الشان جلسے کوفرمارہے تھے کہ میرا اس پورے علاقے کے لوگوں کو چیلنج ہے کہ کوئی فرد مجھ پر ثبوت کریں کہ آج تک میں نے کسی قوم یاکسی قبیلے یاشاخ و فرد کاکام پیسوں کی عوض میں کیا ہے لیکن لوگ کھلم کھلا اس طرح نام نہاد سیاست اور عوامی خدمت پر پیسہ بٹورتے ہی پیٹ پالتے ہیں۔ہم ان میں سے نہیں ہیں جو مظلوموں کی خون ہر سیاست چمکاتے یا امریکہ انڈیاءاور اسرائیل کے ناراضگی کی وجہ سے ختم نبوت کی دفاع اور گستاخ رسول کیلئے سزا کی حمایت نہیں کرسکتے ہیں۔ہم الحمداللہ دین وطن کی دفاع اور مظلوم امت کی دفاع ہر محاذ پہ سر کی سودا سے کرتے ہیں اور کرینگے۔ا سکے علاوہ شہیداسلام نے اپنی سیاسی بصیرت کی روشنی میں جب تاحیات تھیں جوجو پیش گوئیاں کئے ہیں روزبروز وہ حالات اور مناظر ہمارے آنکھوں کے سامنے گزر رہے ہیں۔شہیداسلام مولانا محمدحنیف پیدائشی جمعیت سے وابسطہ تھے۔طالب علمی کی زمانے سے جام شہادت تک جمعیت کے ایک ذمہ دار کی حثیت سے عہدیدار رہا۔شہیداسلام کا مختصراًحالات زندگی قارئین کرام کیلئے پیش نظر ہے کہ شہیدحضرت مولانا محمدحنیف ا تعلق ضلع قلع عبداللہ تحصیل چمن آبائی گاو¿ن ملت آباد سے تھا۔جو کوئٹہ چمن روڈ پر واقع ہے اسی روڈ کے مغربی کنارےپر ایک عظیم علمی درسگاہ بھی شہید کا ایک دین دوستی کا ثبوت ہے جس میں علاقے کے سینکڑوں کی تعداد میں طلباءعلمی درسوں سےفیضیاب ہوتے جارہے ہیں۔شہیداسلام نے ابتدائی علوم اپنے والدماجدحضرت مولوی نصرالدین اور چمن شہر کے جید علماءکرام سے حاصل کرنے کے بعد صوبہ پنجاب خیبرپختون خواہ اور بلوچستان کے مختلف مدارس میں زیر تعلیم رہے۔انکے اساتذہ کرام میں حضرت مولانا عبدالغفور ۔حضرت مولانا محمدآمین ۔حضرت مولانا شیخ حسن جان شہید۔اور حجرت مولانا شیخ قاضی حمیداللہ جان شامل تھیں۔دوران علوم صوبہ خیبرپختونخوا میں بین المدارس انجمن کے صدر اور جمعیت علماءاسلام کی ایک ت±ند ورکر کی حثیت سے تنظیمی خدمات میں پیش پیش تھے۔جب مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود و دیگر اسلاف نے جمعیت طلباء اسلام کی فعالیت کا حکم دیا۔تو نوجوان تیز وتند شہیدمولانا محمدحنیف نے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ضلع قلع عبداللہ( پشین جو اس وقت ضلع تھا) میں جے ٹی آئی کی داغ بیل ڈالی۔

1977ءکوذولفقا رعلی بھٹو کیخلاف چلانے والی تحریک (نظام مصطفیٰ) میں جیل جانے والے کارکنوں میں سب سے کم عمر قیدی ٹھرے۔یوانکی جدوجہد میں مزیدنکھار پیدا ہوا۔اسکے علاوہ روس کیخلاف جہاد کے دوران اکابر پاکستان اور مجاہدین افغانستان کے درمیان پیغام رسانی کا ایک اہم ذریعہ تھے۔اسی طرح جمعیت علماءاسلام کے مختلف عہدوں پر نائب امیر۔جوائنٹ سکیرٹری۔جنرل سکیرٹری وغیرہ اور شہادت سے پہلے جمعیت کے مرکزی ڈپٹی سکیرٹری کے عہدے پر اپنے سیاسی اسلامی قبائلی خدمات سرانجام دیتے تھے۔1984ءمیں اپنے استاد محترم حضرت مولانا شیخ حسن جان سے فراغت کا سند حاصل کرکے آغاز ہی سے شہیداسلام میں علمی جہادی اور قبائلی خدمات کی جزبہ وجود رکھتی تھی۔فراغت کے فوراً بعد چمن شہر کے ایک مشہور جامع سے دینی خدمات کا آغاز کیا۔تین سال کے بعد پھر اپنے آبائی گاو¿ں ملت آباد کے نزدیک بڑے شاہراہ پر سن1993ء میں جامعہ دارالعلوم اسلامیہ کی بنیاد ڈالا۔جسکے مہتمم بھی از خود تھے۔سینکڑوں طلباءبیک وقت دینی علوم سے آراستہ کرتے تھے۔کئی عرصہ تک درس وتدریس کا سلسلہ دہراتا تھا۔حالات کی تقاضا کی وجہ سے اور سیاسی بصیرت رکھنے کی خاطر جمعیت علماءاسلام کی دینی فلیٹ فارم سے سیاست کی میدان میں ایک بے لوث عوامی خدمت گار بے داغ ماضی کے مالک ہونے سے روشن ستارے کی طرح چمکنے لگے۔یہی 1993سال ہی سے مختلف قوتوں اور عناصر نے شہیداسلام کو دیوار لگانے کی کوشش میں مصروف عمل تھے۔طرح طرح رکاوٹیں کھڑے کردیتے اور شہیداسلام کو آگے بڑھنے سے مختلف پروپیکنڈوں کے ذریعے سے روکنے کی ناکام کوشش کرتے تھے۔لیکن اللہ کی فضل سے شہید اسلام قبائلی سطح ہر ایک عظیم خدمت گار کی طرح ابھرے جسکے قبائلی خدمات سے مخالف اور دشمن عناصر بھی قائل تھیں۔کیونکہ شہیداسلام مشکل ترین دور کا جوان مردی سے مقابلہ رنا انکے شان تھا۔بجاطور وہ ایک ایسے لیڈر تھے جو مایوس انسانوں کو حوصلہ دیتے اور انہیں مایوسی کی گرداب سے نکالتے تھے۔شہیداسلام مولانا محمدحنیف کے صبر و زغم کے داستانیں تو بہت ہیں مگر کچھ زیر بحث لاو¿نگا۔کہ آج کے سیاسی افراد پانچ سالہ اقتیدار کیلئے نظریہ عقیدہ سوچ اور فکر معمولی سی اشارے سے تبدیل کردیتے ہیں۔لیکن اس مظلوم شہیدنے2002میں 2008میں 2013اور2018 میں جنرل الیکشن کے جیتے ہوئے سیٹ کو ہر دفعہ علاقائی اور قبائلی امن وامان کی خاطر مخالفین کو دیتے کہ کوئی قومی تصادم پیش نہ آجائے۔اسکے علاوہ قوم پرستوں اور مقتدر قوتوں کی طرف سے کئی بار شہیداسلام کو تکالیف پہنچ چکے ہوتے مگر یہ فرشتہ درویش صفت انسان نہ خوف اور نہ ڈر محسوس کرتے بلکہ مزید بھی عوامی مقبولیت حاصل کرتا رہا۔ان تمام تکالیف اور مشکلات کے باوجود مظلوم کا ساتھ جمعیت کے دستورومنشوراور قبائلی خدمات سے ایک انچ پیچے نہ ہٹا۔آخر کار اس مثالی زندگی کے مالک اور عوامی ترجمان مظلوم امت کے لیڈر کو ستمبر کے ایک ستمگر شام کو بھرے بازار کے وسط میں اپنے دفتر کے مین دروازے ہی میں ایک خوفناک بم دھماکے میں ٹارگٹ بنا کر شہید کیا گیا جسکے وہ طلب گار تھے وہی مقصود منزل تک جا پہنچا۔اللہ غرق رحمت فرمائیں اب ہم اگر گیلہ کرتے ہیں اگر شکایت کرتے ہیں تو اسی بناء پہ کرتے ہیں کہ شہید اسلام کیساتھ تو زندگی میں بہت کچھ ہوا اپنوں کی شکل میں بھی اور غیروں کی شکل میں بھی لیکن وہ دور تو گزرگیا اب بھی ایک مخصوص ٹولے کی شکل میں لوگ کوشش کرتے ہیں کہ شہیداسلام کی تشہیر شہیداسلام کی خدمات بیان کرنے سے عوامی افراد اور جمعیت کے تیز ورکرز کو روکے۔اور شہیداسلام کے خاندان کو نظرانداز کریں۔تعجیب کی سیاست ہے کہ دوسرے پارٹییز میں جسکو ہم قوم پرست کہتے ہی وہ اپنے شہدا کے گھرانوں کیساتھ شابشانہ کھڑے وتے ہیں اور پارٹی کی طرف سے انکے سالانہ یوم شہادت کے پروگرام یا برسی جوش وخروش سے مناتے ہیں بدقسمتی سے شہیداسلام حضرت مولانا محمدحنیف کے خون شہادت اور خاندان سے وہی رواں ہیں جو شہیداسلام کیساتھ زندگی میں ہورہے تھے۔حتیٰ کہ جس جماعت کی بقاءاور اسلامی نظام کی نافذگی کی خاطر شہید. ہونے والے کے عظیم دن یوم شہادت کے اعلان کرنے میں بے س نظر آتے ہیں افسوس ہے کہ شہیداسلام کیساتھ اتنی بڑی واقعے کی پیش ہونے کے باوجودتفتیش میں وقت کے صوبائی جماعت صوبائی و قومی اسمبلی کے ممبرزجو ضلع قلع عبداللہ ہی سے تعلق رکھنے والے ہیں اور ضلعے کی انتظامیہ خواب غفلت کے نیند میں سو رہے ہیں۔اب تک ٹھوس معلومات کسی بھی ادارے کی طرف سے عوام کو نہیں ملا ہے۔لیکن ہم پ±رامید ہیں کہ جسطرح عوامی طاقت شہیداسلام کے ساتھ تھا وہی طاقت جانشین اسلام نوجوان مفتی محمدقاسم کے ساتھ رہیگا اور ان شاءاللہ ہمارے اس مظلوم شہید کی خون راہیگا نہیں جائے گا ایک دن ضرور رنگ لائے گا۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.