بلوچستان رائٹرز گلڈ(برگ) کی تقریبِ خاص

0 50

بلوچستان رائٹرز گلڈ(برگ) کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* تقریبِ خاص *
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوچستان کا ادبِ اطفال اور سمندر گنگناتا ہے کی رونمائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد کے مہمان شاعر محمد ضغیم مْغیرہ اور ڈاکٹر افتخار کھوکھر کی کوئٹہ آمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوہِ چلتن ، مہرر ، تکتو اور زرغونہ کے سرمْئی پہاڑوں کے گھری وادیء کوئٹہ میں جہاں سر رُتوں کی آمد سے خنک ہواؤں نے اپنی ٹھنڈآمیز بانہیں پھیلا لی ہیں وہاں ادبی محافل کی گرما گرم رونقیں بھی دو چند دکھائی دے رہی ہیں اور سرد گرم ماحول کا لطف دو آتشہ ہو گیا ہے ، کوئٹہ کےایسے سہانے موسم میں صوبے کی سب سے فعال ، متحرک اور سرگرم ادبی تنظیم نے بچوں کے عالمی دن کی مناسبت سے ایک رنگارنگ تقریب بلوچی اکیڈمی کے خوبصورت آڈیٹوریم منعقد کی۔
مذکورہ تقریب دو حوالوں سے بڑی منفرد اور بامقصد تھی ایک یہ تقریب مبں اسلام آباد سے آئےہوئے بچوں کے ادب سے وابسطہ ادبی شخصیت ڈاکٹر افتخار کھوکھر اور ممتاز شاعر ضغیم مغیرہ کی تشریف آوری تھی اور دوسرا یہ کہ تقریب میں ادبِ اطفال پر سیر حاصل ، جامع ، مدلل اور پْر مغز پیپر پڑھے گئے ۔۔
بچے بھلی رْتوں کی آس ہیں ، ہماری اْمنگیں اِن سے وابستہ ہیں۔۔۔۔۔۔
بچوں کے عالمی دن کے حوالے سے بلوچستان رائٹرز گلڈ(برگ) نے خصوصی تقریب کا انعقاد کیا ۔اِس موقع پر ادبِ اطفال کے موضوع پر مباحثہ ہوا ، اور سمندر گنگناتا ہے کی رونمائی بھی ہوئی ۔
تفریب میں ڈاکٹر افتخار کھوکھر ، ضغیم مْغیرہ ، آغا گل ، صدیق کھیتران ، پروفیسر صابر بولانوی ، الحاج شیخ عبدالغنی چشتی ، عظیم انجم ، کامران قمر ، پروفیسر اکبرساسولی ، ڈاکٹر راحت جبیں ، پروفیسر مظہر سیماب ، ڈاکٹررشیدآزاد ، فہمیدہ گل ، صدف غوری ، حمیرا علیم ، عجب سائل ، سجاد حیدر ، منظور خلقی ، امداد مینگل ، کامران احمد ، میر حسن , اور شاہین بارانزئی ، محمد آصف اور شیخ فائق کے علاوہ محمود خان ابڑو نے شرکت کی ..
تقریب میں مقررین نے اپنے خطاب میں کہا۔کہ دنیائے ادب میں ادبِ اطفال کا آغاز اٹھارہویں صدی اواخر میں مغرب میں ہوا، اس کے بعد ادب اطفال کی یہ روایت مضبوط و مستحکم ہوتی چلی آئی۔مغربی ادب اطفال کی دلچسپ بات یہ ہے کہ وہاں کے ادیبوں نے وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ بچوں کی ذہنی قوت اور نفسیات کے عین مطابق ادب تخلیق کیا مثلاً وہاں جب ادب اطفال کا آغاز ہوا تو اس کا مقصد محض بچوں کو تفریح و تفنن فراہم کرنے تک ہی محدود تھا۔لیکن انیسویں اور بیسویں صدی میں جب ذہنی عمرسے مطابقت و مشابہت رکھنے والے ادب اطفال کی کمی کا احساس ہوا تو ان ادیبوں نے تفریح کے ساتھ ساتھ جدید علوم و فنون اور معلوماتی موضوعات کو بھی بچوں کے ادب کا حصہ بنایاجس کی وضاحت تھامس بور مین کی کتاب سے ہوتی ہے جس میں علم سیکھنے کا ایک فطری عمل کار فرما ہے۔ مغربی ادب اطفال کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں بچوں کی ذہنی عمریعنی(chronological age )کا خاص خیال رکھا گیا ہے بلوچی اکیڈمی میں بلوچستان رائٹرز گلڈ برگ کے زیر اہتمام تقریب میں راقم الحروف شیخ فرید کی بچوں کے لیے کہانیوں کی مرتب کردہ کتاب ” سمندر گنگناتا ہے” کی رونمائی بھی کی گئی۔ پروفیشر صابر بولانوی کا کہنا تھا کہ شیخ فرید کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔وہ ان چند شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے بلوچستان میں بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے کام کیا اور اس کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔
وہ بیک وقت افسانہ نگار، صحافی، شاعر، مضمون نگار اور ادبِ اطفال میں ممتاز حیثیت کے حامل ہیں.شیخ فرید اعلٰی اور کہنہ مشق قلم کار ہیں. یہی وجہ ہے کہ وہ کالم نگاری کے میدان میں بھی اپنا آپ منوا چکے ہیں. ان کے کالموں کی ایک نمایاں خوبی عنوانات سے واضح ہوتی ہے جو قاری کی دلچسپی حاصل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
سمندر گنگناتا ہے میں بلوچستان کے مایہ ناز،مصنفین ڈاکٹر عبدالرشید آزاد، ڈاکٹر عنبرین مینگل، ببرک کارگل جمالی، غزالہ بٹ، ڈاکٹر راحت جبین، زیب النساء غرشین، محمد اکبر خان،امداد علی مینگل، اکبر علی ساسولی، شیخ فرید، تسنیم صنم، پروفیسر مظہر سیماب،ڈاکٹر فردوس انور قاضی اور سینئر رائٹر آغا گل صاحب کی کہانیاں شامل ہیں۔ سبق آموز اور اخلاقی کہانیوں پرمبنی کتاب بچوں کو ضرور پڑھنی چاہیے۔اور اسے اسکول کی لائبریریز میں بھی رکھنا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ بچے اس سے مستفید ہو سکیں۔
تقریب کے مہمان خصوصی دعوی اکیڈمی کے صدر ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر صاحب اور محمد ضیغم مغیرہ صاحب تھے جب کہ صدیق کھیتران نے صدارت فرمائی ، کمپیئر محترمہ فہمیدہ گل کی ۔ آغا گل ، اکبر علی ساسولی، ڈاکٹر عبد الرشید، ڈاکٹر راحت جبین، صابر بولانوی صاحب بے بلوچستان میں بچوں کے ادب کی تاریخ اور ادباء کے کردار پر روشنی ڈالی۔ڈاکٹر افتخار کھوکھر نے اپنے خطاب کے دوران نہ صرف بلوچستان کے ادباء کو سراہا بلکہ یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ وہ نیشنل بک فاؤنڈیشن اور دعوی اکیڈمی کے تعاون کے ساتھ بلوچستان سے شائع ہونے والے رسالے ” شہباز” کے دوبارہ اجراء کو بھی یقینی بنائیں گے۔اور ادب اطفال کے فروغ کے لئے ہر ممکن تعاون کریں گے۔ مقررین نے ادبِ اطفال کی۔اہمیت کو اْجاگر کرتے ہوئے کہ عالمی سطح پر بچوں کی تعلیم‘ صحت‘ تفریح اور ذہنی تربیت کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے تاکہ یہ بچے مستقبل میں معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔ اس سال عالمی یومِ اطفال کا موضوع ’’ہر بچے کی شمولیت‘‘ ہے جس کا مقصد اس بات پر زور دینا ہے کہ ہر بچہ‘ چاہے وہ کسی بھی معاشرے‘ برادری یا قومیت سے تعلق رکھتا ہو‘ مساوی حقوق کا حقدار ہے۔ وطن عزیز میں اس دن کی مناسبت سے سرکاری اور نجی سطح پر بڑی بڑی تقریبات تو منعقد کی جاتی ہیں لیکن افسوس کہ یہاں نہ تو بچوں کی جسمانی صحت قابلِ فخر ہے اور نہ ہی ان کے حقوق سے متعلق سماجی آگہی فراہم کی جاتی ہے۔ ملک میں چائلڈ لیبر ایکٹ تو موجود ہے لیکن پھر بھی ہوٹلوں‘ کارخانوں‘ اینٹوں کے بھٹوں اور ورکشاپوں پر بچوں سے مشقت کرائی جاتی ہے جو کہ ان ننھی کلیوں کے ساتھ سرا سر ظلم ہے۔ حکومت کو چائلڈ لیبر ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات اٹھانا ہوں گے اور جو والدین کسی مجبوری کے باعث بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتے یا معاشی مسائل کے سبب بچوں سے مشقت کروانے پر مجبور ہیں‘ حکومت کو ان بچوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ ملک و قوم کی ترقی میں اپنا بھرپور حصہ ڈال سکیں۔
تقریب کے اختتام۔پر۔مہمانانِ گرامی کو برگ کی یادگار اعزازی شیلڈڈ پیش کی گئیں اور شرکاء میں سند امتیاز تقسیم کی گئیں ۔۔۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.