پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد: ایک چُھپا ہوا المیہ
بچوں کو جنسی تشدد ایک ایسا جرم ہے جو صرف متاثرہ فرد کی زندگی کو تباہ نہیں کرتا بلکہ پورے معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا دیتا ہے
پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد ایک حساس اور سنگین مسئلہ ہے جو معاشرتی، ثقافتی اور قانونی خامیوں کے باعث ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کر رہا ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف متاثرہ بچوں کی معصومیت کو پامال کرتا ہے بلکہ ان کی جسمانی، ذہنی اور جذباتی زندگی پر گہرے اور دیرپا اثرات چھوڑتا ہے۔ بدقسمتی سے، اس اہم مسئلے پر گفتگو کو اکثر معاشرتی بدنامی کے خوف سے دبایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے متاثرہ بچوں کو انصاف اور مدد حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جنسی تشدد کے حوالے سے دستیاب اعداد و شمار اس مسئلے کی سنگینی کو مزید واضح کرتے ہیں۔ ساحل کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 4,253 بچوں کے جنسی استحصال کے کیسز رپورٹ ہوئے، جو یومیہ تقریباً 12 بچوں کے متاثر ہونے کے برابر ہیں۔ ان کیسز میں لڑکیاں اور لڑکے دونوں شامل ہیں، اور 70 فیصد سے زائد واقعات میں مجرم متاثرہ بچے کے قریبی یا جاننے والے افراد ہوتے ہیں، جیسے رشتہ دار، دوست، استاد، مذہبی رہنما یا اجنبی افراد ہوتے ہیں، جو بچوں کی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر انہیں ہراساں کرتے ہیں۔ جنسی تشدد کا زیادہ شکار وہ بچے بنتے ہیں جو کم عمر، جسمانی یا ذہنی معذوری کا شکار، یتیم یا غریب ہوتے ہیں، یا جو گھریلو تشویش یا تنہائی کا شکار ہوں۔ تشدد کرنے والے افراد بچوں کو دھمکیاں دے کر، لالچ دے کر یا جسمانی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انہیں ہراساں کرتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق، دنیا بھر میں 120 ملین لڑکیاں اور ایک بڑی تعداد میں لڑکے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں، لیکن زیادہ تر کیسز سماجی دباؤ کی وجہ سے رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔
پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کی مختلف وجوہات ہیں جو اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بناتی ہیں۔ سب سے اہم وجہ سماجی خاموشی اور عزت کے خوف کا رویہ ہے، جس کی وجہ سے اکثر خاندان ایسے واقعات کو رپورٹ نہیں کرتے۔ والدین اور متاثرین کے لیے انصاف کی راہ میں قانونی نظام کی پیچیدگی، پولیس کی نااہلی، اور عدالتی تاخیر بھی بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس کے علاوہ، تعلیمی کمی اور بچوں کے تحفظ کے بارے میں آگاہی کا فقدان بھی اس مسئلے کی جڑ میں شامل ہے۔ ڈیجیٹل دنیا اور انٹرنیٹ کا غیر محفوظ استعمال بھی بچوں کو آن لائن استحصال کا شکار بناتا ہے، جبکہ غربت اور بے سہارا بچوں کے لیے استحصال کے مواقع پیدا کرتی ہے۔
جنسی تشدد کے اثرات متاثرہ بچوں کی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کرتے ہیں۔ ذہنی طور پر، یہ بچے ڈپریشن، عدم اعتمادی، اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) کا شکار ہو سکتے ہیں، جو ان کی شخصیت کو بُری طرح متاثر کرتا ہے۔ جسمانی طور پر، جنسی استحصال بچوں کی صحت پر تباہ کن اثرات مرتب کرتا ہے، جبکہ جذباتی سطح پر یہ بچے اکثر شرمندگی اور خوف کی کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ تعلیمی میدان میں یہ بچے اکثر اسکول چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا تعلیمی کارکردگی میں کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے بچے جن کے ساتھ جنسی تشدد کا امکان زیادہ ہوتا ہے، انہیں خود کو محفوظ رکھنے کے لیے خاص احتیاط کرنی چاہیے۔ انہیں ایسے افراد سے دور رہنا چاہیے جو بہت زیادہ قریب یا غیر ضروری طور پر ان سے تعلقات بنانے کی کوشش کرتے ہیں، یا جو ان کے ساتھ غیر مناسب طریقے سے بات کرتے ہیں۔ والدین اور اساتذہ کو اپنے بچوں کو اس بات کی تعلیم دینی چاہیے کہ اگر کوئی شخص ان کے ساتھ غیر مناسب سلوک کرے تو فوراً اس کے بارے میں کسی قابل اعتماد فرد کو بتائیں۔ بچوں کو ہر صورت میں اپنے جسم کی حفاظت کرنے کی تربیت دینی چاہیے اور انہیں یہ باور کرانا چاہیے کہ وہ کسی بھی قسم کے تشدد یا ہراسانی کے خلاف آواز اٹھا سکتے ہیں
پاکستان میں اس مسئلے کے حل کے لیے قوانین موجود ہیں، جیسے زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری ایکٹ (2020)، اور کرمنل لا (ترمیمی) ایکٹ (2016)، لیکن ان قوانین کا اطلاق غیر مؤثر رہا ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو جیسے ادارے بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں، لیکن ان کی کارکردگی وسائل کی کمی اور صلاحیتوں کی محدودیت کی وجہ سے متاثر ہوتی ہے۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے جامع اقدامات کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط کیا جائے تاکہ وہ جنسی تشدد کے کیسز کو مؤثر طریقے سے سنبھال سکیں۔ تعلیمی نظام میں بچوں کے تحفظ کے اصولوں کو شامل کیا جائے اور والدین اور اساتذہ کو بچوں کے تحفظ کے بارے میں تربیت دی جائے۔ میڈیا کے ذریعے عوامی آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ سماجی خاموشی کے رویے کو ختم کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سخت سائبر قوانین کا نفاذ ضروری ہے۔
پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کا مسئلہ ایک قومی المیہ ہے جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ نہ صرف متاثرہ بچوں کی زندگیوں کو تباہ کرتا ہے بلکہ ہمارے معاشرے کے اخلاقی اور سماجی ڈھانچے کو بھی کمزور کرتا ہے۔ اگر ہم نے اس مسئلے کو نظر انداز کیا تو ہماری آئندہ نسلوں کا مستقبل خطرے میں ہوگا۔ ہمیں اس مسئلے کو قومی ایمرجنسی کے طور پر دیکھنا ہوگا اور متحد ہو کر اس کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ ہمارے بچے محفوظ، خوشحال، اور بااختیار زندگی گزار سکیں۔