ایم ایف کے شرائط عوام کیلئے کینسر ہے
عالمی مالیاتیاداروں کی جان سے قرضوں میں ایک سال تک توسیع پر رضآ مندی کردی ہے، آئی ایم ایفکی طرف سے مطالبا کیا گیا ہے جو سبسڈی دی جا رہی ہے وہ جلد ہی واپس لی جائے۔ ذرعئن اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ عوام کو دی گئی سبسڈی ختم کی جائے۔ اور کھلے الفاظ میں کہا گیا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات سمیت بجلی کی قیمتوں میں نہ صرف سبسڈی ختم کی جائے بلکہ پیٹرولیمصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے۔ جس کے بعد ہی پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے قرضہ دیا جائے۔ یاد رہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا اجلاس امریکی شہر واشنگٹن میں ہو رہی ہے۔ جس میں وزیر خزانہ ملکی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ملک کے اندر طویل لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ ماہ رمضآن کے دوران بھی سحڑی اور افطاری کے دران لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں سے جب بھی قرض لینے جاتے ہیں تو اس ملک کے افراد احتجاج کرکے اپنے ملک کے نمائندوں کو مجبور کردیتے ہیں کہ آئی ای ایف اور ورلڈ بینک سے قرض نہ لیں۔ کیوں کہ یہ مالیاتی ادارے جب بھی قرض دیتے ہیں تو ایسے ہی شرائط رکھتے ہیں کہ جس کے اثرات سیدھے عوام پر پڑتے ہیں۔ اور ان شرائط کے باعث عوام مزید بھگتے ہوئے نظر آتی ہے۔ ہمارے حکمران بھی ان شرائط سے بخو¿بی واقف ہیں کہ آئی ایم ایف سے وقتی طور پر قرضہ لینا فائدہ مند ہوتا ہے۔ پھر جب یہ ادارے شرائط لاگو کرتے ہیں ان کو پورا کرنے کیلئے ایسے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، جس سے اس حکومت کی عوام کی مورال گرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
ہمارے ملک کے سیاستدان جب اقتدار کا حصہ نہیں ہوتے ہیں، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں سے قرضہ لینے والے عمل کو ملک اور عوام دشمن سمجھتے ہیں۔ جب وہ بذات خو¿د اقتدار میں آتے ہیں تو وہ ایسا عمل دہرانے میں دیری نہیں کرتے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال موجودہ وفاقی حکومت کی نظر آرہی ہے۔ اب جب نئی حکومت ان مالیاتی اداروں سے قرضہ کی قسط لے گی تو ان اداروں کی سخت ترین شرائط کو بھی تسلیم کرلے گی، جس میں پیٹرولیم مصنوعات پر دی گئی سبسڈی ختم کی جائے گی، جس سے پیٹرولیم اور بجلی کی قیمتیں بڑہ جائیں گی، اور صنعتی ادارے خسارے کا سمانا کریں گی۔ ملک کے اندر بجلی پیٹرولیم مصنوعات اور دیگر اشیائے سے تیار کی جاتی ہے، اگر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائی گئیں تو بجلی کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی۔ صنعتی سیکریٹریٹ کو بھی بجلی مہنگے داموں میں فراہم کی جائے گی۔ نتیجے میں سنعتوں کے ندر تیار ہونے والے سامان کی قیمت میں اضآفہ ہوجائے گا جس کابوجھ صرف اور صرف عوام پر ہی پڑے گا۔ لوگ پہلے سے ہی سابقہ حکومت کی طرف سے کی گئی مہنگائی کا سامنہ کر رہے ہیں۔ اگر پیٹرولیم مصنوعات کے ساتھ ساتھ بجلی کی قیمتوں میں اضآفہ کیا گیا تو لوگ کہاں کھڑے ہوں گے؟
ملک کے تمام شہروں اوردیہات میں طویل لوڈ شیڈنگ ہے، رورل ایریاز تو
گنتتی میں بھی نہیں آتے ہیں۔ جہاں لوڈشیڈنگ تو دور کی بات ہے، وہاں دن تو اور ہفتہکے ہفتہ بجلی غائب رہتی ہے۔ چند دن پہلے ملک کے نومنتخب وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے حلف اٹھاتے ہی پاور پلانٹس کی رپورٹ طلب کی اور چیئرمین واپڈا کی جانب سے انہیں تفصلی بریفنگ بھی دی گئی تھی، اسے معلوم ہوا کہ معمولی خرابی اور اوزاروں کیکمی کے باعث وہ پاور پلانٹس کافی عرصہ سے بند پڑے ہیں۔ جس پر اظہار تشویش کرتے ہوئے وزیر اعظم نے جلد سے جلد بند پڑے بجلی گھر کی خآمیوں کو دور کرکے پلانٹس جاری کیے جائیں اور بجلی بحال کی جائے۔ وزیرا عظم ک ان اعلانات کے باوجود نہ تو پاور پلانٹس کو درست کیا گیا ہے اور نہ ہی بلی کی لوڈشیڈنگ ختم کی گئی ہے۔ اس کے کیا اسباب ہیں جو بتائے نہیں جا رہے ہیں۔ ایک تو بجلی کی تقسیم کا نظام کئیدہائیاں پرانا اور قدیم ہے، جس کو جدید بنانا تو دور کی بات ہے لیکن ان کی مینٹیننس بھی نام کی کی جارہی ہے۔ کئی علاقوں میں تو ٹرانسفارمرز بھی مہیا نہیں ہوتے ہیں۔ جو مزید لوڈ کے باعث خراب ہوجاتے ہیں۔ اور کئی دنوں تک ان علاقوں میں بجلی موجود نہیں ہوتی ہے۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت وہ ٹرانسفارمرز درست کراتے ہیں، اس کے باوجود لوڈ مزید ہونے کے باعث وہ درست کرائے گئے ٹرانسفارمرز آئی دن خراب ہوجاتے ہیں۔ وفاقی ححکومت کو چاہیے کہ وہ پیٹرولیم مصنوعات پر دی گئی سبسڈی ختم نہ کرے اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر کنٹرول کرے۔