بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں کونسی قرار داد منظورہوگئی
بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں کونسی قرار داد منظورہوگئی
کوئٹہ(ویب ڈیسک)بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں ٹرانسجینڈر پرسن پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ 2018کے نفاذ کے خلاف قرار داد منظور جبکہ محکمہ جیل خانہ جات کے ملازمین کی اپ گریڈیشن اور الاﺅنس کے حوالے سے رپورٹ طلب کرلی گئی ۔ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس دو گھنٹے کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر سردار بابر موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا ۔اجلاس میں اسمبلی کی گزشتہ نشست میں ٹرانسجینڈر ایکٹ پر پیش کردہ قرار داد پرباقی ماندہ بحث کا آغاز کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف ملک سکندر خان ایڈوکیٹ نے کہا کہ قومی اسمبلی سے منظور کئے گئے ٹ
رانسجینڈر ایکٹ میں اسلامی اقدار کے منافی اور انتشار پھیلانے والی شقیں شامل ہیں ،ایکٹ کی دفعہ 4سے آگے خواجہ سراﺅں کے حقوق بتائے گئے ،یہ حقوق آئین میں پہلے ہی واضح کئے گئے کہ خواجہ سرابھی پاکستانی شہری ہیں اور انہیں و ہ تمام حقوق حاصل ہیں جو ایک شہری کو آئین کے تحت دئیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسلام میں انسانوں اور حیوانوں کے حقوق واضح کئے گئے ہیں ،ٹرانسجینڈر افراد کو نہ صرف بنیادی انسانی حقوق بلکہ انہیں جائیداد میں بھی حق حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کوئی بھی قانون جو اسلامی اقدار سے متعلق ہو کو منظور کرنے سے قبل اسلامی نظریاتی کونسل میں بھجوایا جاتا ہے لیکن اس قانون کو دھوکہ دہی کے ذریعے اسلامی نظریاتی کونسل میں بھی نہیں بھیجا گیا ،اس قانون سے قوم کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور یہ قانون خلاف اسلا م بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں جب پنجاب میں خواتین سے متعلق بل آیا اس پر بھی قوم نے شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا ،اب اس قانون پر بھی شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے ۔انہوں نے ایوان کو بتایا کہ ٹرانسجینڈر کے تین اقسام میں تقسیم بھی کیاگیا ہے اور اسی حوالے سے انکے حقوق جائیداد میں حق کا تعین بھی موجود ہے ،
یہ قانون ظلم اور اسلام پر حملہ ہے ،اس قانون سے ہم جنس پرستی کا راستہ کھلے گا، مرد اپنے آپ کو عورت جبکہ عورتیں اپنے آپ کو مرد ظاہر کرسکیں گی ،یہ قانو ن لادین قوتوں کا ملک پر ایک اور وار ہے جسے روکنے کی ضرورت ہے ،ہم کسی بھی صورت اسلام مخالف قانو قبول نہیں کریں گے ،75سالوں سے ہم نے اسلامی اقتدار پر حملوں کو ناکام بنایا ہے اور آئندہ بھی بنائیں گے ،بعدازاں قرار داد کو منظور کرلیا گیا۔ اجلاس میں پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون وپارلیمانی امور ڈاکٹر ربابہ بلیدی نے پوائنٹ آف آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے صوبے جیل منول میں قیدیوں کے حوالے سے تو کافی حدتک پیش رفت کی گئی ہے اور انہیں معاشرے کا کارآمد حصہ بنانے پر بھی توجہ دی گئی ہے مگر بدقسمتی سے جیل میں فرائض سرانجام دینے والے عملہ کو نظر انداز کیا گیا ہے ،انہیں بہتر مرعات اور سہولیات کی فراہمی اور ذہنی طور پر مطمئن کئے بغیر اپنے فرائض بہتر طور پر انجام نہیں دسکتے ،جیل خانہ جات صوبائی معاملہ ہے صوبے پولیس اور لیویز کے برابر جیل کی عملے کو مراعات و سہولیات نہیں دی گئیں ہیں جبکہ دیگر صوبوں میں جیل عملہ کو اچھی تنخواہیں اور بہتر مراعات حاصل ہیں ،ہمارا جیل کا عملہ مشکل حالات اور کم مراعات کے باوجود دوسرے صوبوں کے جیل عملہ کے برابر خدمات انجام دے رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جیل کے عملے کیلئے ڈیلی فکس الاﺅنس کی منظوری ہوچکی ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا ہے ،حالانکہ جیل عملہ اٹھارہ سو اہلکاروں پر مشتمل ہے جبکہ پولیس 45 ہزار اور لیویز 25 ہزار اہلکاروں پر مشتمل ہونے کے باوجود انہیں یہ الاﺅنس مل رہا ہے ،جیل عملہ کی تنخواہیں کم ہونے کے باوجود انہیں یہ الاﺅنس نہیں مل رہا دوسری جانب جیل عملہ کی اپ گریڈیشن کا مسئلہ ہے 2010ء کے بعد نچلے درجے کے عملے کی اپ گریڈیشن کی گئی مگر افسران کی اپ گریڈیشن پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے ۔صوبائی وزیر سردار عبدالرحمن کھیتران نے ڈاکٹر ربابہ بلیدی کی جانب سے اٹھائے گئے نکات کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ موجودہ حکومت نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینئر ترین افیسر کو آئی جی جیل خانہ جات مقرر کیا ہے ،رواں سال کے بجٹ میں پولیس لیویز کے اہلکاروں کے الاﺅنس میں اضافہ کیا گیا ہے ،بدقسمتی سے بجٹ کے بعد صوبے میں سیلاب آیا جس سے بہت سی چیزیں متاثر ہوئی ہیں ۔انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ جلد جیل خانہ جات کے اہلکاروں کے الاونسز میں اضافہ اور اپ گریڈیشن کے سلسلے میں پیشرفت کی جائیگی۔اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل نے چیف سیکرٹری، سیکرٹری فنانس اور ایڈیشن چیف سیکرٹری ہوم سے جیل خانہ جات کے ملازمین کے الاونس اور اپ گریڈیشن کے حوالے سے تفصیلات طلب کرنے کی رولنگ دی۔