کیابرکس ممالک پر مغرب کی اجارہ دری کاخاتمہ ممکن ہے؟
سب سے زیادہ صدارت کے عہدے پرفائزہونے والا روس کے صدرولادیمیرپوٹن نے گزشتہ روزروس کے جمہوریہ تاتارستان کے خوبصورت شہرقازان میں پہلی دفعہ ابھرتی ہوئی معشیتوں کے 20 سربراہان مملکت کاتین روزہ اجلاس برکس کے چھتری تلے منعقدکیاگیا کریملن نے اس سربراہی اجلاس کوروس میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے منعقدہونے والے اب تک کے سب سے بڑے اہم ایونٹس قراردینے سے انہیں پہلے ہی کثیرالطرفی ازم کوآگے بڑھانے اورابھرتی ہوئی معشیتوں کے لئے ایک متبادل راستہ نکالنے کے حوالے سے ایک کامیاب کہانی کے طورپردیکھتے رہیے ہیں چونکہ برکس یایہ اتحادمغرب کے ساتھ محازآرائی کرنے کے لئے کھڑاکیاگیا ہیے جس کے تسلط پسندانہ ڈیزائنوں کے طورپراب کھلے عام سوال اٹھائے جارہیے ہیں خاص طور پرجنگوں وبائی امراض اورغیرمنصفانہ مالیاتی نظام کے تناظرمیں مگراس وقت برکس تنظیم اورولادیمیرپوٹن کی۔جانب سے روس میں منعقدہونے والے سربراہی اجلاس کے بارے میں اہم۔سوال یہ ہے کہ برکس تنظیم یاخود روس کے طاقتورصدر پوٹین برکس تنظیم ممالک میں مغرب کی کئی سالوں سے جاری رہنے والے اجارہ داری کا خاتمہ۔ممکن بنائے گے ؟ کیا برکس کے۔رکن ممالک میں جاری ڈالر کے بجائے اپنے کرنسی کو رائج کریں گے؟ اورتجارت کاروبارکو اپنے ہی ملکی کرنسیوں میں جاری رکھے گے ؟اوراپنےخطے سے ہمیشہ کیلئے ڈالر کا خاتمہ کریں گے؟ روس کی معشیت کوجن مسائل کاسامنا ہیے ان سے بہت سے سرحدپارتجارت پرزیادہ ترامریکی ڈالرمیں کی جانے والی روایتی ادائیگی سے منسلک ہیں امریکی ٹریژری کا عالمی تجارت پربہت زیادہ اثرورسوخ صرف اس وجہ سے ہیے کہ امریکی ڈالردنیا بھرمیں ادائیگوں کے لئے اہم کرنسی ہیے روس کی بنیادی دلچسپی امریکی ڈالرکی تسلط کوتوڑنا ہیے وہ چاہتاہیے کہ برکس ممالک ایک متبادل تجارتی میکانزم بنائیں اورکراس باڈرسسٹم تیارکریں جس میں ڈالریورویاجی سیون کی کرنسیوں میں سے کوئی شامل نہ ہوتاکہ پابندیوں سے کوئی زیادہ فرق نہ پڑے چین اورانڈیا کھبی بھی کسی چیزپرمتفق نہیں ہوسکتے اوراگردونوں واقعی سنجیدہ ہوتے توبرکس کااثربہت زیادہ بڑھ گیا ہوتا جبکہ مغرب کی اجارہ داری ختم کرنے کی۔خواہش توروس ضرور رکھتاہیے لیکن مغرب کے مقابلے کے وسائل نہیں رکھتا ایک مناسب ہی معشیت اورگھسے پٹے کمونسٹ سسٹم کے ساتھ روس مغرب کامقابلہ۔نہیں کرسکتا روس کمونسٹ ملک چین کی معاشی پالیسوں سے استعفادہ کرناہوگا پیوٹین ایک عظیم قابل اورشاطرآدمی ہیے اس میں کوئی۔شک نہیں دیکھے اسی برکس کے اجلاس میں شرکت کے لئے پوٹین نے چین کے صدرژی جن پنگ بھارت کے نریندرمودی ترکی کے صدرطیب اردگان ایران کے صدرمسعودپیزشیکان اورسیرل راموفوسا کوجیسے رہنماوں کواپنے ساتھ ملاکر ماسکومیں اقوام متحدہ کے جنرل۔سیکرٹری انتونیوگوترش کاپرتپاک استقبال کرکے لامحالہ مغرب کے نظام کوچیلنج کردیا اوریہ چیلنج اور بھی برقرار رہیے گے حالانکہ اقوام متحدہ کے جنرل۔سکرٹری کے قازان اجلاس میں شرکت کرنے پر یوکرائن کے صدرنے سخت مخالفت کی ہے اسی طرح جب 9جولائی 2024میں بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی روس کے دورے پرگئے اس وقت مغرب کوایک تشویش لاحق ہوئی تھی اورکہاتھا کہ دیکھے سب سے بڑے جمہوریت کاسربراہ دنیا کے سب سے خونی مجرم کوگلے لگارہا ہیے مگر برکس ممالک سے مغرب کی۔اجارہ داری کی۔خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہیے کہ برکس کے دواہم۔اورجوہری ممالک چین اوربھارت کے درمیان سرحد پراختلافات پائے جاتے ہیں انڈیااورچین کے درمیان مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں 15اور16جون 2020کودونوں ملکوں کے فوجیوں میں درمیان خونریزٹکراوہواتھا اس چھڑپ میں انڈیا کے 20فوجی مارے گئے تھے جبکہ چارچینی فوجی بھی ہلاک ہوئے تھے اس تصادم کے بعدچینی فوجیوں نے مشرقی لداخ میں پنگانگ سوجھیل سے لے کرہاٹ سپرنگ ڈپپسانگ اورڈیمچوک تک کے کم ازکم سات سرحدی علاقوں میں ایکچول کنٹرول لائن سے آگے بڑھ کر ان زمینوں پرقبضہ کرلیاتھا جن پرانڈیا طویل عرصے سے دعوی کرتا آرہاتھا اس واقعے کے بعدچین انڈیا نے لداخ کے ان متنازعہ علاقوں میں ہزاروں فوجی اورتمام ترجنگی سازومان کے ساتھ تعینات کردئیے تھے جواب تک تعنیات ہیں لیکن قازان کے اجلاس کے موقع پر انڈیااورچین کے صدرنے ملاقات کی۔ہیے اورباضابطہ تبادلہ خیال کیا مئی 2020میں دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان مشرقی لداخ میں واقع وادی گلوان میں پنگانگ جھیل کے ساحل پرہونے والے جھڑپ کی وجہ سے باہمی تعلقات میں کشیدگی آنے کے بعدمودی اورشی جن پنگ کی یہ پہلی ملاقات ہیے اس سے قبل دونوں رہنماؤں کی اکتوبر2019میں کیرالہ کے علاقے ملاپورم میں باضابطہ ملاقات ہوئی تھی دونوں ممالک کے رہنماوں کی ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہیے کہ برکس کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لئے جب انڈیا کے وزیراعظم روانہ ہونے سے ایک روزقبل انڈیاکی۔جانب سے اعلان کیاگیا کہ مشرقی لداخ میں ایکچول کنٹرول لائن پرفوجیں پیچھے ہٹانے کے حوالے سے چین اورانڈیا کے درمیان معاہدے پراتفاق ہوگیاہیے چین نے بھی اس معاہدے کی تصدیق کرکے کہا کہ انڈیااورچین کے درمیان سفارتی اورعسکری سطح پر سرحدسے متعلقہ معاملات پرمذیدگفتگوہورہی ہیے جنوبی ایشیا کے دواہم ممالک کے درمیان باضابطہ ملاقات اورمذاکرات کرنے کا کریڈٹ لامحالہ روسی صدرپوٹین کوجاتا ہیے کہ انہوں نے برکس کے دو اہم ارکان کوآپس میں ملاقات کروایاگیا اورجس وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ۔چارسال سرحدپر لڑائی کی وجہ سے تلعقات خراب ہوئے تھے اب دونوں کی۔ملاقات ہونے سے تعلقات درست سمیت پرگامزن ہوں گے اسی طرح برکس کے دونئے ارکان مصراورایتھوپیا کے درمیان کشیدگی پائی۔جاتی ہیے اورکشیدگی کم کرنے کے باوجود ایران اورسعودی عرب طویل عرصے سے علاقائی حریف رہیے ہیں لیکن مشرق وسطی کے ان دواہم۔ممالک کے مابین صلح چین نے بڑی کامیابی سے کردی ہیں لیکن قازان میں ولادیمیرپوٹین کاکام برکس کے۔رکن ممالک کے درمیان اختلافات کوختم کرنا اوراتحادیوں کی تصویرکشی کرنا ہیے جس سے روسی عوام اوربین الااقوامی برادری کویہ باورکرایاجاسکے کہ ان کا ملک تنہا کئے جانے سے بہت دورہیے جہاں تک روس مغرب مخالفت کے جذبات کی وجہ سے ایک نیاورلڈآرڈرکی بات کررہاہیے توانڈیا جیسے دوسرے برکس ممبران مغرب کے ساتھ اچھے سیاسی اوراقتصادی تعلقات برقراررکھنے کے خواہشمند ہیں خود برکس تنظیم کی رکن ممالک کے آدھے ارکان کی امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں ان کے ساتھ بہت معاملات کررہیے ہیں یہ اس لئے کہ۔دنیا کے۔192ممالک میں سے 170ممالک میں امریکا کے فوجی اڈے قائم کئے ہوئے ہیں پوٹن کا یہ خیال کہ۔مغربی ممالک کااجارہ داری آنے والے۔وقت میں ختم کریں گے اس میں ٹائم۔لگ سکتا ہیے ان کا یہ خیال اچھی ہیے یہ بات بھی درست ہیے کہ برکس کے ابھرتی ہوئی معشیتوں کے ایک طاقتوربلاک بن کرابھرنے کا امکان بڑھ گیا ہیے جس میں تقریباً نصف دنیا کی نمائندگی موجودہیے فورم میں شامل ہونے والے نئے ممالک دنیا کی تیل کی نصف ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں برکس اسی رفتار سے آگے بڑھتی رہی تووسعیت پزیریہ تنظیم جلدہی کینڈا فرانس جرمنی اٹلی جاپان برطانیہ اورامریکا پرمشتمل ترقی یافتہ ملکوں کے ہمرازفورم G7کے پرکاٹ سکتی ہیے برکس کی نئی۔توسیع کے بعداس فورم میں روس چین اوربھارت جیسے تین جوہری طاقت کے حامل ملک جبکہ مشرق وسطی میں تیل پیداکرنے والے تین ممالک سعودی عرب ایران اورمتحدہ عرب امارات اوراہم سٹرٹیجک مقامات پرواقع افریقی عرب ممالک جس میں مصرایتھوپیاشامل ہوجائیں گے نیزلاطنی امریکہ میں واقع ارجنٹائن کی شمولیت سونے پہ۔سہاگہ کاکام کررہی ہیے اگلے برس کے آغاز سے روبہ عمل لائی جانے والی وسعیت کے بعدجی 11کے بغیرمغربی ملکوں شمولیت کے جی 20سے مشابہ فورم بن جائے گا اندرونی حالات اورعالمی سیاست کی حرکیات پرنظررکھنے والے تجربہ کارسمجھتے ہیں کہ گلوبل ویسٹ اوردنیا کے باقی حصوں سے تامیل کے لئے مشہورجی 20 فورم امکانی طورپراپنی قدرت منزلت کھوسکتا ہیے برکس تعاون کامیکانزم ترقی پزیرممالک کی مشترکہ ترقی کے حصول کی امنگوں کوتواجاگرکرتاہیے برکس ممالک نے ہمیشہ کثیرالجہتی تجارتی نظام کی پاسداری کی ہیے اورعالمی صنعتی اورسپلائی میں استحکام اورہمواریت کوموثرطریقے سے برقراررکھا ہیے گزشتہ جنوری میں سعودی عرب مصرمتحدہ عرب امارات ایران اورایتھوپیاکی باضابطہ شمولیت کے بعدبرکس ممالک کی آبادی کا عالمی آبادی میں تناسب تقریباً پچاس فیصدپہنچ گیا ہیے عالمی اقتصادی ترقی میں ان کاشئر50فیصدسے زیادہ ہوچکا ہیے اورمجموعی معاشی حجم قوت خریدکے لحاظ سے G7ممالک سے تجاوزکرگیا ہیے مستقبل میں جیسے جیسے زیادہ ممالک اس میں شامل ہوں گے کثیرالجہتی کے تحفظ کے لئے دنیا کی قوتوں میں مذیداضافہ ہوتا رہیے گا مغربی۔دنیا سمجھتی ہیے کہ برکس امریکی قیادت میں چلنے والے بلاشرکت غیرے ورلڈآرڈرکے ضوابط کے مقابلے میں کثیرالجہتی اورغیرمتیعن اہداف حاصل کرنے کی ایک ناتجربہ کاراوراناڑی کوشش ہیے برکس سے متعلق مغربی دنیا کے خیالات دیکھ کراندازہ لگایاجاسکتا ہیے کہ وہ ابھرتی معشیتوں کے وسعت پزیرفورم سے کتنے خائف ہیں برکس کے صفوں میں شامل حالیہ ارکان اورپیش آمدہ ممالک یقیناً اگلے مرحلے پراپنی معیشتوں پرڈالرکی۔اجارہ داری کوختم کرانے کے لئے میسرامکانات پرغورکرسکتے ہیں یہ بات بھی امریکا کے لئے سوہان روح بنی ہوئی ہیے کہ سویت یونین کی تحلیل اورسردجنگ کے خاتمے پرملنے والی غیرمعمولی کامیابی کوامریکہ اوراس کے اتحادیوں نے ٹھنڈاکرکے کھایاہوتا توبرکس کاظہوربھی ممکن نہ ہوتا تین دہائیوں سے گلوبل ویسٹ نے انسانیت کو کئی طویل جنگوں میں جھونک رکھا ہیے جس کے باعث بین الاقوامی قانوب کالبادہ تارتارہیے ترقی کے زعم میں گلوبل ویسٹ کی یک طرفہ پابندیاں ڈالرکوبطورہتھیاراورمنافقانہ میکرواکنامک ایڈجسمنٹ منصوبے اورحدسے زیادہ پرجوش گرین ٹرانزیشن رولزکونمایاں دہرے معیارکے ساتھ نافذکرنے کی کوششوں نے دنیا کوسوچنے پرمجبورکردیا جی سیون میں شامل رکن ملکوں نے جاپان نوکوشماجوہری پلانٹ سے نکلنے والے تابکاری مواد کے حامل 1.3ملین میٹرک ٹن زرات ملے پانی کوبحروقیانوس میں گرانے پرچپ سادھ رکھی ہیے وہ ان دہرے معیارکا منہ بولتاثبوت ہیے اس پیش رفت کوواشنگٹن کے ایک قطبی دوراوراستعمارکی دیرنیہ پالیسوں کے خلاف وقتی ابال سمجھنے والے احمقوں کی جنت میں بستے ہیں خودقریبی میں مبتلامغرب باقی دنیا کویہ باورکرانے کوشش کررہا ہیے کہ عالمی نظام اس وقت جمہوری اورمطلق العنان طرزحکومتوں کے درمیان محازآرائی کے نکتہ عروج پرپہنچ چکا ہیے