کفایت شعاری کی قومی تحریک
باوقار اقوام کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے وطن ، قوم و ملک اور ا±س کی بقائ و سالمیت کیلیے کسی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتیں ، ہمارے وطنِ عزیز پر بھی جب کبھی مشکل ان پڑی پوری قوم میدانِ عمل میں کود پڑی “قرض اتارو ، ملک سنوارو “کا نعرہ ہو یا کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلیے چندہ ، قوم نے بھر پور ساتھ دیا یہ الگ بات کہ نہ ملک سے قرض ا±ترا ، نہ ڈیم بنا۔ اب ایک بار پھر ملک و قوم کی خاطر کفایت شعاری کا راگ الاپا جا رہا ہے۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق قومی کفایت شعاری کمیٹی (این اے سی) مختلف تجاویز پر غور کر رہی ہے جن میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد کمی، وزارتوں/ ڈویڑنوں کے اخراجات میں 15 فیصد کمی، وفاقی وزرائ ، وزیر مملکت، مشیروں کی تعداد 78 سے کم کرکے صرف 30 کرنا شامل
ہیں جبکہ باقی بلامعاوضہ کام کریں گے۔ این اے سی اپنی سفارشات کو حتمی شکل دینے جا رہی ہے اور اس پر عملدرامد کا فیصلہ کرنے کے لیے اپنی رپورٹ وزیر اعظم شہباز شریف کو بھجوائے گی۔ اعلیٰ سرکاری ذرائع نے دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ این اے سی نے ایک سفارش کو حتمی شکل دی ہے کہ وزرائ ، وزیر مملکت، مشیروں اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی کی تعداد کو کم کر کے صرف 30 کر دیا جائے جب کہ بقیہ ضرورت
پڑنے پر قومی خزانے سے کسی قسم کے وسائل سے مستفید نہ ہوں۔ انہیں بلامعاوضہ کام کرنا چاہئے۔ حکومت کفایت شعاری سے متعلق سفارشات کو حتمی شکل دے رہی ہے جب ملک ائی ایم ایف پروگرام کے تحت ہے جو بنیادی طور پر مالی استحکام کا مطالبہ کرتا ہے لیکن حکومت فنڈ پروگرام پر عمل درامد سے گریزاں ہے۔ اس نے پچھلے ڈھائی ماہ کی مدت سے تعطل پیدا کیا۔ این اے سی نے صوبائی نوعیت کے منصوبوں پر فنڈز کا استعمال روکنے، سرکاری ضمانتوں کے ذریعے قرضے حاصل کرنے کے لیے پبلک سیکٹر انٹرپرائزز پر پابندی عائد کرنے اور کئی دیگر کی بھی سفارش کی۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے تشکیل دی گئی کفایت شعاری کمیٹی نے فنانس ڈویڑن میں مسلسل دوسرے روز بھی غور و خوض جاری رکھا۔ یہ
بڑی عجیب بات ہے کہ حکومت ایک جانب کفایت شعاری کے نام پر سفارشات کو حتمی شکل دینے کا کام کر رہی ہے جبکہ حکومت نے پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے پروگرام میں 3 ارب روپے کا اضافہ کیا اور صوابدیدی فنڈنگ کو 86 ارب روپے سے بڑھا کر 89 ارب روپے کر دیا جو پارلیمنٹیرینز کے ذریعے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ این اے سی بڑے پبلک سیکٹر
اداروں کے نقصانات سے کیسے نمٹے گا کیونکہ اس سال پی ائی اے کا خسارہ 67 ارب روپے تک پہنچ گیا، پاکستان اسٹیل ملز، پاسکو، پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اور دیگر بڑے پیمانے پر نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔ گزشتہ مالی سال میں صرف پاور سیکٹر کو 1600 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ این اے سی نے ائی ایس ائی اور ائی بی سمیت انٹیلی جنس ایجنسیوں کے صوابدیدی فنڈز منجمد کرنے کی تجویز پر بھی غور کیا۔ کمیٹی نے دفاعی اخراجات میں کمی کی تجویز پر غور کیا تاہم سیکرٹری دفاع نے جواب دیا کہ مہنگائی اور شرح مبادلہ میں کمی کے پیش نظر یہ ممکن نہیں ہو سکتا۔ تاہم کمیٹی کفایت شعاری کے اس وقت غیر جنگی اخراجات کو معقول بنانے پر غور کر سکتی ہے۔ کمیٹی نے گاڑیوں کی خریداری پر پابندی، مقامی اور بیرون ملک تمام مراعات منجمد کرنے اور مختلف وزارتوں اور ڈویڑنوں میں غیر ضروری اسامیوں کی تعداد کو کم کرنے پر غور کیا۔ ٍاعلیٰ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ این اے سی نے اپنی داخلی میٹنگ میں فیصلہ کیا کہ پانچ دنوں میں اپنی سفارشات کو حتمی شکل دی جائے تاکہ وہ فنانس ڈویڑن کے جاری کردہ سرکاری نوٹیفکیشن میں 15 دن کی دی گئی اخری تاریخ سے بہت پہلے اپنی حتمی سفارشات پیش کر سکیں۔ وزارت خزانہ کے ایک افسر نے تبصرہ کیا کہ این اے سی بڑی سفارشات کر رہی ہے لیکن موجودہ حکومت کے لیے ایسی کسی بھی تجویز پر عمل درامد کرنا مشکل ہو گا۔ یہ صرف ایک ڈیبیٹنگ کلب رہے گا اور حکومت اپنےدور اقتدار کے اختتام کے وقت کوئی بڑا فیصلہ لینے کی جانب بڑھنے کے بجائے صرف اچھا تاثر دینے والے کام پر عملدرامد کرے گی جب سیاسی درجہ حرارت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں بینک سے ایک دن میں 50 ہزار روپے کی ٹرانزیکشن پر ٹیکس لگنے کا امکان ظاہر کردیا گیا ہے ایک خبر کے مطابق آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لئے وزارت خزانہ میں ٹیکس تجاویز پر کام کیا جارہا ہے ، اس ضمن میں نان فائلرز کی بینکنگ ٹرانزیکشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز پر غور جاری ہے، اس تجویز کے تحت یومیہ 50 ہزار روپے سے زیادہ کی بینک ٹرانزیکشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس عائد ہو سکتا ہے۔معلوم ہوا ہے کہ ایکٹیو ٹیکس پیئرز لسٹ میں شامل افراد پر مجوزہ ٹیکس لاگو نہیں ہوگا جب کہ ایف بی آر حکام کی جانب سے نان فائلرز پر ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے سے 45 سے 50 ارب روپے آمدن کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ٹیکسوں میں اضافے سے متعلق مجوزہ صدارتی آرڈی ننس کے لیے بعض دیگر تجاویز پر بھی کام جاری ہے۔ جب کہ قرض پروگرام کے حوالے سے آئی
ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے ٹیکس تجاویز پر بھی کام ہورہا ہے۔ میری رائے میں اِس وقت ضروری ہے کہ قوم متحد ہو فیصلہ کرے کہ اگرہم اس ملک میں تبدیلی چاہتے تو پھر یہ جنگ مل کر لڑنی ہو گی پاکستان میں ہر شہری کو آواز بلند کرنی ہو گی۔2020 کی اصلاحات ایکٹ پارلیمنٹ کے ارکان کو پنشن نہیں ملنا چاہئے کیوں کہ یہ نوکری نہیں ہے بلکہ یہ لوگوں کی خدمت کے جذبے کے تحت ایک انتخاب ہے اور اس کے لئے ریٹائرمنٹ نہیں ہوتی ہے مزید یہ کہ سیاستدان دوبارہ سے سیلیکٹ ہو کے اس پوزیشن پر آسکتے ہیں. مرکزی تنخواہ کمیشن کے تحت پارلیمنٹ کے افراد کی تنخواہ میں ترمیم کرنا چاہئے
. ان کی تنخواہ ایک عام مزدور کے برابر ہونی چاہیئے (فی الحال، وہ اپنی تنخواہ کے لئے خود ہی ووٹ ڈالتے ہیں اور اپنی مرضی سے من چاہا اضافہ کر لیتے ہیں ممبران پارلمنٹ کو اپنی صحت کی دیکھ بھال کے لیے سرکاری ہسپتال میں ہی علاج کی سہولت لینا لازم ہو جہاں عام پاکستانی شہریوں کا علاج ہوتا ہے۔ تمام رعایتیں جیسے مفت سفر، راشن، بجلی، پانی، فون بل ختم کیا جائے یا یہ ہی تمام رعایتیں پاکستان کے ہر شہری کو بھی لازمی دی جائیں (وہ نہ صرف یہ رعایت حاصل کرتے ہیں بلکہ ان کا پورا خاندان ان کو انجوائے کرتا ہے اور وہ باقاعدہ طور پر اس میں اضافہ کرتے ہیں – جوکہ سراسر بدمعاشی اور بے شرمی بےغیرتی کی انتہا ہے.) ایسے ممبران پارلیمنٹ جن کا ریکارڈ مجرمانہ ہو یا جن کا ریکارڈ خراب ہو حال یا ماضی میں سزا یافتہ ہوں موجودہ پارلیمنٹ سے فارغ کیا جائے اور ان پر ہر لحاظ سے انتخابی عمل میں حصہ لینے پر پابندی عائد ہو اور ایسے ممبران پارلیمنٹ کی وجہ سے ہونے والے ملکی مالی نقصان کو ان کے خاندانوں کی جائیدادوں کو بیچ کر پورا کیا جائے۔ پارلیمنٹ ممبران کو عام پبلک پر لاگو ہونے والے تمام قوانین کی پابندیوں پر عمل لازمی ہونا چاہئے. اگر لوگوں کو گیس بجلی پانی پر سبسڈی نہیں ملتی تو پارلیمنٹ کینٹین میں سبسایڈڈ فوڈ کسی ممبران پارلیمان کو نہیں ملنی چائیے.ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال سیاستدانوں کے لئے بھی ہونا چاہئے. اور میڈیکل ٹیسٹ پاس کرنا لازمی ہونا چاہئے اگر میڈیکلی ان فٹ ہو تو بھی انتخاب میں حصہ لینے کا اہل نہیں ہے۔ پارلیمان میں خدمت کرنا ایک اعزاز ہے، لوٹ مار کے لئے منافع بخش کیریئر نہیں ،ان کی تعلیم کم از کم ماسٹرز ہونی چاہئے اور دینی تعلیم بھی اعلیٰ ہونی چاہیئے اور پروفیشنل ڈگری اور مہارت بھی حاصل ہواور NTS ٹیسٹ پاس کرنا لازمی ہو..ان کے بچے بھی لازمی سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کریں سیکورٹی کے لیے کوئی گارڈز رکھنے کی اجازت نہ ہو کفایت شعاری کی مہم کو قومی تحریک کے طور پر چلایا جائے اور کفایت شعاری کا عملی نمونہ خود اشرافیہ ، ا±مرائ ، وزیرِ اعظم ، صدر مملیکت تمام وزرائ ، مشیر سینٹ کے اراکین اور ایم ، این ایز اور ایم پی ایز دیں۔کاش تیرے دل میں ا±تر جائے میری بات