معاشرے میں دینی مدارس کا کردار

0 73

یقیناً اس بات سے کوئی بھی انسان انکار نہیں کر سکتا کہ اسلامی تاریخ میں دینی مدارس کا کردار معاشرتی بحالی اور ترقی میں نہایت اہم رہا ہے۔ دینی مدارس کی بنیاد آج سے چودہ سو سال قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں رکھی گئی تھی. جب مختلف بزرگانِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین دین اسلام اور وحی کے نور کو اپنے سینوں میں محفوظ کرنے کے لیے آپ کی مجلس میں حاضر ہوتے تھے۔ اسی طرح وہ دور دراز علاقوں میں اسلام کی روشنی پھیلانے کے لیے اسفار کرتے تھے۔
برصغیر کی سر زمین پر 1866ء میں کبار علماء کی جہد مسلسل سے ایک ایسی عظیم مدرسے کی بنیاد رکھی گئی ۔ جو کفر کے ایوانوں میں ایک گرجدار آواز کی طرح گرج اٹھی۔ جس کو کفار روز اول سے آج تک اپنے خاتمے کا سامان تصور کرتے ہیں۔ اور اسے “دارالعلوم دیو بند” کہا جاتا ہے ۔ کیوں کہ ان کی بنیاد حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے چبوترے “الصفہ نامی”ہی کی بنیاد پر رکھی گئی .
دارالعلوم دیو بند کے قیام سے پہلے برصغیر کی سر زمین پر کفار کی حکومت تھی ۔جنہوں نے لوگوں کو دینی نقصانات کے ساتھ ساتھ دنیاوی نقصانات سے بھی دوچار کیا. جیسے : مختلف اوقات میں لوگوں سے بے جا قسم کے ٹیکس لینا اور ان کی تعلیمی نصابوں میں اپنی مرضی سے ردوبدل کرنا لیکن درالعلوم دیوبند کے قیام کے بعد برصغیر کی سر زمین پر لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم ہوئے اور اس کے ساتھ ساتھ دینی اور دنیاوی آزادی مل گئی ۔ ہر کوئی چین ،راحت اور سکون کی زندگی گزارنے لگا۔
وطنِ عزیز ملک پاکستان میں دینی مدارس کی خدمات اور کردارسےکوئی بھی ذی شعور انسان ناواقف نہیں ہے ۔ کیوں کہ ملک پاکستان کے قیام سے قبل لوگ علوم وحی کے حصول کے لیے کبھی تو کوفہ،بصرہ، شام اور عراق کی طرف رُخ کرتے تھے ۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد دینی مدارس کی خدمات کا اَثر وَ رسوخ صرف وطن عزیز تک محدود نہ رہا۔ بلکہ یورپ ،ایشیاء اور دنیا جہاں کے مختلف ممالک سے علوم نبویہ کے حصول اور اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے یہاں تشریف لاتے ہیں ۔
مدارسِ دینیہ نے مختلف اوقات میں معاشرے کو ایسے رجال کار عطا کیے ہیں جو معاشرے کے ہر مشکل کو حل کرنے اور مختلف قسم کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں ۔ ان ہی میں سے کوئی شیخ الحدیث کی صورت میں عوام کو علوم دینیہ سے باخبر کرنے میں مصروفِ عمل ہے . اور کوئی سیاست کے میدان ، کوئی معاشرے کی تعمیر وترقی میں مصروف ہے ۔
اگر اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگی کہ کسی بھی ملک اور ملت کی بقاء اور استحکام اس وقت تک ممکن ہے ۔ جب اس کا آئین و دستور قرآن اور حدیث مبارکہ کے مطابق ہو۔
اور ایسے رجال کار کے لیے امت ” مائی بے آب کی طرح پیاسی ہے”. اور یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ایسے افراد ” جو ملک اور ملت کے بنیادی مسائل سے خوب واقف ہو” یہی مدارسِ دینیہ پیدا کرتی ہیں ۔ اور ایسےمفتیاںِ کرام جوعوام کے “دینی اور دنیاوی ” مسائل کو حل کریں ، ایسے علماءِ کرام جو مسلمانوں کے بنیادی عقائد کو درست کریں . یہ انہی مدارس کی عطا ہیں ۔
اس کے علاؤہ مدارس دینیہ نے معاشرے کو ایسے افراد دیے ہیں جو دکھی انسانوں کے دکھ کواپنا دکھ اور ان کی پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھتے ہیں۔ ایسے واعظین جو عوام کی دینی اصلاح اورفلاحی رہنمائی کریں .
لیکن بہت ہی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ آج کل یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ایک اسلامی اور دینی معاشرے میں دینی مدارس کا کیا کردار ہے؟ اور آج تک مدارس دینیہ سے کوئی “ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان یا پائلٹ” کیوں نہیں نکلا ؟ تو اس کا سیدھا اور سادہ جواب یہ ہے کہ دینی مدارس کا قیام صرف اور صرف قرآنی علوم کی ترویج اور نشر و اشاعت کے لیے ہے۔ لہذا ان مدارس سے وہی علماء کرام پیدا ہوں گے جو وقت کے تقاضوں اور چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں گے، جو عوامی مسائل کو حل کرنے والے مفتیانِ کرام ہوں گے اور جو بھٹکی ہوئی امت کو سیدھے راستے پر لانے والے واعظین ہوں گے۔

اور جناب! ہمارا بھی یہ حق بنتا ہے کہ ہم آپ سے یہ سوال کریں کہ آپ کے تعلیمی ادارے یعنی اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز سے آج تک کوئی ‘حافظ قرآن، عالم دین، مفتی، مفسر، محدث یا مفکر’ پیدا ہوا ہے؟

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.