مردہ بدست زندہ 

2 931
زمانے نے خلوص دلوں سے مٹا دیا ہے۔ سچی محبت کی جگہ ظاہری محبت نے لےلی ہے۔ اب نہ کوئی جینے میں سچے دل سے کسی کا ساتھ دے گا۔ اور نہ ہی مرنے کے بعد وفاداری نبھائے گا۔ غرض دنیاداری ہی دنیاداری رہ گئی۔ پہلے کوئی ہمسایہ بھی مرجاتا تو سب ایسے رنج وغم میں مبتلاءہوتے ، پورہ محلہ سوگوار ہوتا گویا بہت قریبی رشتہ دار مرگیا ہے۔ آج کل اپنوں پر بھی کوئی اتنا نہ روئیگا جتنا پہلے غیروں پر رویا کرتے تھے۔ جنازہ کے ساتھ جانا اب صرف رسم کی حد تک ہے۔ تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ واہ جیتے جی دوستی ومحبت کا دم بھرا جاتا تھا۔ مرنے کے بعد پھر کبھی نہیں دیکھا کہ کون مرگیا۔
اب رہی دل کی حالت ، اس کا بس خدا ہی مالک ہے۔ آئیے ! میرے ساتھ آئیے ! آج کل کے میتوں کا رنگ بھی دکھا دوں۔
یہ لیجے ، سامنے ہی مکان میں کسی صاحب کا انتقال ہوگیا۔ کوئی بڑا شخص ہے۔ سینکڑوں لوگ جمع ہیں۔ گاڑیاں ہیں۔ امیر وغریب سب جمع ہیں ، بیچارے غریب تو اندر جا بیٹھے ہیں۔ کچھ پڑھتے بھی رہے ہیں۔ جتنے امیر ہیں وہ یا تو اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر سگریٹ کے کش لگانے میں مصروف عمل ہیں۔ جو غریب آتا ہے وہ سلام کرتا ہوا ، اندر چلا جاتا ہے ، جو امیر ہے وہ باہر والوں سے مل کر کھڑا ہو جاتا ہے ، پہلا سوال یہ ہوتا ہے ، کہ بھائی کون مرگیاہے؟ بھائی وہ تو ہمارے بڑے اچھے دوست تھے۔ بس اتنا کہا اور اپنی جیب سے سگریٹ یا نسوار یا پان کی ڈبی نکالی۔ یہ لیجئے ! تعزیت ختم ہوئی اور رنج کا اظہار ہوچکا۔ اب دنیا بھر کے قصے چڑھے ، ایک دوسرے سے نہ ملنے کی شکایت ، دفتر کی کاروائیاں دریافت کی گئیں، ملک بھر کے خبروں کی رائے زنی ہوئی۔ غرض بات چیت کا سلسلہ اس وقت تک پہنچا کہ مکان سے جنازہ نکل آیا۔ یہ دیکھتے ہی دروازے کے لوگ کچھ ادھر ہوگئے کچھ ا ±دھر ہوگئے ، آگے آگے جنازہ ہے ، اس کے پیچھے پیچھے یہ سارے لوگ ہیں۔چند قدم آگے پیچھے آنے والوں کی تقسیم ہونی شروع ہوئی۔ اس طرح ہوئی کہ چھپ چھاپ کسی کو معلوم بھی نہ ہوا کہ کب ہوئی اور کیوں کر ہوئی ؟ جن کو پیچھے رہنا تھا۔ انہوں نے رفتا آہستہ کردی۔ جنھیں ساتھ جانا تھا وہ ذرا تیز چلے۔ اب یہ ساتھ والے تین حصوں میں تقسیم ہوگئے۔ آگے وہ رہے جو مرنے والے کے عزیز و رشتہ دارہے۔ اور پیچھے وہ لوگ رہ گئے جن کے پاس یا تو سواری نہ تھی ، یا شرم محسوس کرنے سے پیدل جانا مناسب سمجھتے تھے۔ اور آخر میں وہ طبقہ جو آہستہ آہستہ پیچھے ہٹھتا ہٹھتا اپنے سواریوں تک پہنچ گیا اور ان میں سوار ہوگیا۔ اگر پیدل چلنے والوں میں کوئی عہدے دار ہیں۔ تو غرض مندوں سے یہاں بھی چھٹکارہ نہیں۔ ایک آیا ، جھک کر سلام کیا ، اور گھر بھر کی مزاج پرسی کی ، مرنے والے کے کچھ واقعات بیان کیے ، اگر ڈاکٹر کی علاج سے مرا ہے تو ڈاکٹر کی برائیاں بیان کیں ،اگر حکیم کی علاج سے مرا ہے تو طبابت کے نقصان گننے شروع کی ، اور اسی سلسلے میں اپنے واقعات بھی بیان کر گئے ، اس سے چھٹکارہ حاصل نہیں ہو تا کہ دوسرے صاحب آگئے انہوں نے بھی دنیا بھر کے قصے شروع کیے۔ غرض اسطرح جوڑی بدلتے بدلتے کہ جنازہ مسجد تک پہنچ گیا۔ یہاں ہمراہیوں کی پھر تقسیم ہوئی۔ ایک تو وہ ہیں۔ جو ہمیشہ نماز پڑھتے ہے اور اب بھی پڑھیں گے اور دوسرے وہ ہیں جو نہا کرخاص کپڑے اسی جنازہ کےلیے پہنے ہیں۔ اور تیسرے وہ ہے کہ نماز نہ کبھی پڑھا ہے اور نہ اب پڑھیں گے۔ دور سے مسجد کو دیکھا اور انہوں پیچھے ہٹنا شروع کیا۔ جنازہ مسجد تک پہنچا بھی نہ تھا۔ کہ ان کو کسی دیوار یا کسی گاڑی کی آڑ مل گئی ، یہ وہی کھڑے ہوکر سگریٹ پی کر یا پان کھا کر وقت گزار دیا۔ ہاں اس بات کی انتظار میں تھا۔ کہ نماز ختم ہونے کی خبر فوراً مل جائے۔ ادھر نماز ختم ہوئی یہ لوگ مسجد کے دروازے کی طرف بڑھے۔ ادھر جنازہ نکلا ادھر یہ پہنچے۔ بس یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بھی نماز پڑھ کر مسجد ہی سے نکل رہے ہیں۔
یہ تو ساتھ والوں کا حال ہوا اب راستے والوں کا حال بھی سنیئے ! اگر میت کے ساتھ دو چار آدمی ہیں۔ تو کوئی نہیں پوچھتا کہ کون جیا کون مرا ؟ اگر جنازے کے ساتھ بڑے بڑے لوگ ہوئے تو دوکان والا بھی ننگے پاو ¿ں باہر نکلتا ہے۔ میت کے نام اور مرض دریافت کرتا ہوا ” اللہ مغفرت فرمائے کا ورد کرتے ہوئے ” واپس ہوتے ہیں۔ گویا میونسپل کمیٹی نے حیات وممات ان ہی کو تفویض کر دیا ہے۔ اور یہ صرف اس لیے نام دریافت کرتے ہے۔ کہ مرنے والے کا نام رجسٹرسے خارج کردے۔ خیر کسی نہ کسی طرح سے جنازہ قبرستان تک پہنچ گیا۔
اب جنازہ لاکر لب گور رکھ دیا گیا۔ ایک آتا ہے قبر کو جھانک جاتا ہے ،دوسرا آتا ہے جھانک آتا ہے۔ ہر شخص کو زمین سخت ہونے کی شکایت ہے۔ کوئی مزدوروں کو سست کہتا ہے۔ کوئی پٹاو ¿ کا نقص بتاتا ہے۔ کوئی قبرستان والے کو ب ±را کہتا ہے۔ جب اس ریوریو سے فراغت پائی تو دو دو تین تین آدمی ایک ایک قبر پر جابیٹھے ، چبوترے کو تخت بنایا اور لگے سگریٹ اور بیڑی کا دم لگانا شروع کیا۔ حقے مزے لےلے کر پیئے جارہے ہیں۔ ایک دوسرے کی تواضع کی جارہی ہے۔ اور یہ وقت کسی نہ کسی طرح کاٹا جاتا ہے۔ یہ توفیق نہیں ہوتی کہ کچھ خدا کی یاد کریں یا ان خفتگان خاک کی حالت کو دیکھ کر عبرت ہی حاصل کریں۔
ایک صاحب ہیں کہ قبروں کے کتبے ہی پڑھتے پھر رہے ہیں۔ کچھ نوٹ بھی کرتے جاتے ہیں۔ کوئی اچھا کتبہ مل گیا تو اپنے دوستوں کو بھی آواز دے کر بلا لیا اور بجائے فاتحہ کے ،داد سخن دی گئی۔ کچھ اپنا کلام سنایا گیا ، کچھ ان کا سنا ، غرض کوئی نہ کوئی مشغلہ وقت گزارنے کو نکال لیا۔
جو لوگ چبوتروں پر متمکن ہیں ،ان کی کچھ نہ پوچھو۔ ہر چبوترہ ایک پارلیمنٹ ہے اور ہر قبر ایک اجلاس۔ دنیا بھر کی خبروں پر تنقید ہورہی ہے۔ دفتر کی کارروائیوں پر بحث ہورہی ہے۔ افواہوں کے ذرائع اور ان کی تصدیق و تردید کی جارہی ہے۔ سفارشیں ہورہی ہیں ، وعدے لیے جارہے ہیں ، غرض سب کچھ ہورہا ہے۔ نہیں ہورہا ہے تو وہ جو ہونا چاہئے اور جس غرض کے ساتھ آئے ہیں۔
خیر خداخدا کرکے خبر آئی کہ قبر تیار ہے۔ کچھ تو اٹھ کر قبر کے گرد جا کھڑے ہوئے ، کچھ وہیں بیٹھے رہ گئے۔ ایک صاحب نے قبر میں ا ±تر کر گلاب اور عود چھڑکا۔ ایک نے میت کے اوپر کی چادر سمیٹی۔ چادر میں بل دیئے۔ دو صاحبوں نے مٹھے کے سرے پکڑ کر میت کو اٹھایا ، آٹھ دس لوگوں نے شور مچایا۔ سنبھال کے ،سنبھال کے ، میت بھاری ہے ،کمر کے نیچے چادر دو۔ ارے میاں ! اپنی طرف گھیسٹو ، ہاں آہستہ آہستہ اب میت قبر کے منہ تک آگئی۔ قبر کے گرد جو لوگ کھڑے تھے۔ انہوں نے بے تحاشا شور مچانا شروع کیا۔ کوئی کہتا ہے ذرا کمر کی چادر کھینچو ، ارے بھائی ! اتنا بھی دم نہیں ہے۔ دیکھنا کہیں قبر کا پاکھانہ گرے۔ ہاں ذرا اور جھکا کر ، لا الہ الا اللہ میت بھاری ہے ،ذرا سنبھال کے ، آہستہ آہستہ ، بس بھئی بس۔ کوئی چیخ رہا ہے ! مٹھے کے بندھن کھول دو۔ ارے میاں ! لو یہ ڈھیلا لو۔ سر کے نیچے رکھ کر منہ قبلہ کی طرف تو کردو ، واہ بھئی اتنا بھی نہیں آتا ،ابھی منہ پورا نہیں پھرا ، بس بھئی بس۔
یہ مختلف فقرے ایک کی زبان سے نہیں نکلتے کہ کچھ سمجھ میں آئے۔ ہر شخص ہے کہ غل مچارہا ہے۔ جو بچارے قبر میں اترے ہیں وہ پریشان ہیں کہ کیا کرے ، یا نہ کریں ؟ بہرحال اس شور کے ساتھ دوست احباب اس مرنے والے کو پہلی منزل تک پہنچا ہی دیتے ہیں۔ اور اب مٹی کی نوبت آتی ہے۔ مٹی تو ہر ایک دیتا ہے۔ منہ سے ہر ایک بڑبڑاتا ہے لیکن یہ خدا ہی کو معلوم ہے کہ جو پڑھنا چاہئے وہ پڑھتا بھی یے یا نہیں ؟ البتہ لفظ ( منہا ) بہت اونچی آواز میں کہا جاتا ہے اور باقی سب الفاظ منہ ہی منہ میں ختم کردیئے جاتے ہیں۔ جب اس کام سے فراغت پائی اور قبر تیار ہوگئی تو فاتحہ کی نوبت آئی ہے۔ ساتھ آنے والوں میں کوئی بھی ایسا نہ ہوگا جو اس میں شریک نہ ہو۔ ہونٹ تو سب کے ہلتے ہیں۔ مگر شاید سو میں بیس بھی نہ ہوں گے ، جو یہ جانتے ہوں کہ فاتحہ میں کیاکیا سورتیں پڑھتے ہیں ؟ فاتحہ پڑھتے ہی سب کو اپنے اپنے گھر جانے کی سوجھی۔ یہ بھی پھر کر نہ دیکھا کہ مرنے والے کے اعزہ کون ہیں اور ان کی کیا حالت ہے ؟ گھر آکر اکثر لوگ پاو ¿ں پھیلاتے ہیں کہ فاصلہ بہت دور تھا۔
دیکھ لیا آپ نے اس زمانے کے میتوں کا رنگ ، جو میں نے عرض کیا تھا وہ صحیح نکلا یا نہیں ؟ اب سوائے اس کے کیا کہوں کہ خدا سے دعا کی جائے کہ اللہ ان بندوں کو نیک ہدایت دے ،ان کے دل میں درد پیدا کرے۔ یہ سمجھیں کہ احکام کیا ہیں اور ہم کیا کررہے ہیں ؟
You might also like
2 Comments
  1. PenMamera says

    buy cialis usa If you share a credit card with your spouse, they re going to see the transaction on your statement

  2. brooncort says

    best place to buy cialis online reviews I shall tell you presently why I know this – that it was towards the end of summer – at the time when Heydrich ordered me to come to him

Leave A Reply

Your email address will not be published.