یونیورسٹی آف ایجوکیشن ملتان کیمپس

0 427

یوں تو ہماری ملک کی تقریباً سبھی جامعات اپنی اپنی جگہ فروغ علم وہنر میں کوشاں ہیں، لیکن یونیورسٹی آف ایجوکیشن پاکستان بھر میں ایک منفرد شناخت رکھتی ہے۔ یہ پاکستان کے تاریخی شہر ملتان میں واقع ہے۔ اس میں  مختلف ڈیپارٹمنٹس ہیں۔ ہر ڈیپاٹمنٹ میں کافی تعداد میں طلبہ پڑھتےہیں۔ یونیورسٹی آف ایجوکیشن کی بنیاد 2002 میں رکھی گئی ہے، یہ ملتان کے مشہور جامعات  میں سےایک ہے اس کے علاوہ سال بھر میں مختلف کھیل بھی کھیلے جاتے ہیں۔ جس میں سارے طلباء حصہ لیتےہیں،  یہاں نہ صرف پنجاب کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکہ پاکستان بھر کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے طلبہ  یہاں تعلیم حاصل کرنےآتےہیں اور دور دراز علاقوں سے تعلق کے لیے ہاسٹل کا انتظام بھی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ کوئی بھی ادارہ اس وقت مضبوط نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی سٹاف مضبوط نہ ہوجائے۔ اس لئے  یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے جو سٹاف ہے وہ بہترین ہے۔
ہمارے اساتذہ دن رات یونیورسٹی کی درجہ بندی میں بہتری کے لئے بہت کام کر رہے ہیں اور اس مقصد میں ان کو خاطر خواہ کامیابی بھی ملی ہے۔ ہماری بس بدقسمتی ہے کہ ہم نے تعلیمی اداروں کو تعلیم کے طور پر استعمال ہی نہیں کیا۔ اصل میں یہاں یہی وجہ ہے کہ جہاں سے ہم دنیا کے بڑے ممالک کو شکست دے سکتے ہیں۔ اگر تعلیمی ایمرجنسی لگائی جائے تو بہت سے مسائل نہ صرف ختم ہو سکتے ہیں بلکہ بڑے مسائل سے بچ بھی سکتے ہیں۔ ہم جب بھی جامعہ جائیں، بہترین ترقی اور خوشحالی کی امید کے ساتھ واپس آتے ہیں۔ نوجوان کے روشن چہرے مسکراتے علم کی لگن سیکھنے کی جستجو تحقیق و تخلیق سب کو ایک ساتھ نظر آتا ہے تو کچھ وقت کے لئے خطرات کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ بڑی تعداد میں نوجوان کی موجودگی اور ظلم سے محبت اس بات کا ثبوت ہے کہ روشنی ختم نہیں ہوئی ابھی خواب دیکھے جا سکتے ہیں۔امید لگائی جاسکتی کہ اس نوجوان نے ہماری زندگی میں آنے کے بعد ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔ ڈاکٹر ساجد صاحب جیسی ہستی ہمارے مختلف سرگرمیوں میں اعلیٰ کرداراداکرتے ہیں۔ جہاں میں کھیلوں کے مقابلے کو دیکھنا ہونا اور بالخصوص کھلاڑیوں کو میدان میں دیکھنے کا الگ ہی مزہ آ تا ہے ۔یہاں کی کھلاڑیوں کو کھیل اور تعلیم میں آگے بڑھنے کے یکساں مواقع ملتے ہیں۔
لیکن دیگر اداروں میں کھیلوں میں بھی معاشی مستقبل محفوظ نہیں ہے  مقدار کھلاڑی کو اس کا حق نہیں ملتا ۔یہ سب مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں یہ سوچتے سوچتے  کافی بات چیت ہوتی رہی۔ ہمارے معاشرے یا ملک نے اس رفتار سے ترقی نہیں کی۔جس رفتار دوسرے ممالک کر رہے ہیں۔
تو اس کی وجہ ہماری سوچ اور کردار کی وہ منفی پہلو ہیں جن کو نظر انداز کرنا ہماری ایک بہت بڑی بیوقوفی ہے  ان کے چند منفی پہلو کا مختصر جائزہ لیا گیا ہےتعلیم کا مقصد ہوتا ہے کہ کتابوں کے ذریعے ہم دوسروں کے تجربہ سے استفادہ اٹھائیں اور ان اصولوں کے عملی زندگی میں اپنے ۔جن کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے اسے یہاں ان اصولوں کو جو دوران تعلیم ہم سیکھتے ہیں، ان کو کتابی باتیں کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہم دوسروں کے تجربات اور تحقیق کے ذریعے قائم کردہ اصولوں کو پڑھ لیتے ہیں اور پھر ان کا استعمال صرف سو کی حد تک کرتے ہیں تاکہ ہمارا شمار پڑھے لکھوں میں کیا جا سکے۔ ہم نہ تو نسلوں کی اصل روح کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کا استعمال عملی زندگی میں کرتے ہیں۔  یہ مسئلہ ہے پاکستانی کمپنیوں میں ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ کا قیام اس ڈپارٹمنٹ کو کمپنی میں قائم کرنا ایک فیشن سا بن گیا ہے ۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے حکومتی اور پرائیویٹ اداروں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ادارے کیوں بناءے جاتے ہیں؟ اس کا مقصد کیا ہوتا ہے؟  اور اس میں کن لوگوں کو ملازم دی جاتی ہے؟ ان کا کیا کام ہوتا ہے ؟ہماری مغرب سے پیچھے رہنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ہم اچھے اصولوں کو بھولنے میں بہت جلدی کرتے ہیں۔
   ہمارے زیادہ تر افراد جو مغرب سے تعلیم حاصل کر کے آتے ہیں۔ وہاں کے نظام کے لیے انتہائی تاریک کرتے ہیں اور لیکن جوں ہی پاکستان کے ہوائی اڈوں پر اترتے ہیں۔ تو وہاں کے اصولوں کو بھلا دیتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا بغور مشاہدہ کریں تو پاکستان میں آج کل ہر اس کالج کو لینے کے لئے تیار بیٹھا ہے ،ان میں سے زیادہ تر نے باہر سے پڑھ کر آنے والے چند اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو اچھی طرح  ملازم رکھ لیا ہے جو ان کا جو اصولوں کا نام اونچا کرنے کے کام آتے ہیں۔ پاکستان میں ان پرائیویٹ کالجوں کا زیادہ زور صرف دکھاؤ ملازمین سے اس اصطلاح کے مطابق کام لینا نہیں سیکھا ہے ،عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومت اور پرائیویٹ کالجز جب ملازمین کا استعمال نکالتے ہیں پھر درخواست بھیجنے والے کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگریاں ہونی چاہیے۔ پڑھانے کا تجربہ بھی ہونا چاہیے، انہوں نے تحقیق کا کام بھی کیا اور تحقیقی مقالے بھی شامل کیے جاتی ہے، تو  اس کے علاوہ اگر ان سے پوچھا جائے کہ آپ کے ادارے میں جو حضرات پہلے سے ملازمین ہیں انہوں نے کتنی تحقیق کی ہے یا کتنے تحقیقی مقالے شائع کی ہیں یا ادارے نے تحقیقی کام کے لیے کتنی رقم مخصوص کی ہے؟۔
تو ان کے پاس ادھر سے ادھر کی باتیں کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔اسی طرح جب ہم مغرب کے اخلاقیات کی طرف نظر دوڑاتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے معاشرتی اخلاق ہم سے بہتر ہیں اس کے لئے نارویجن معاشرے سے ایک مثال کا بهی ہے ۔یہ ستر کی دہائی کا واقعہ ہے کہ ایک نارویجن کمپنی نے ایک پاکستانی ملازم رکھا لیکن اس کے مالک نے اس پاکستانی ملازم سے بغیر حفاظت کے اصول اپنا ٔے ۔ایسا کام لیا جس سے وہ زخمی ہو گیا ۔پولیس جب مقدمہ درج کرنے کے بعد تحفظ کے لیے آئے تو پاکستان ملازم نے تو اپنی زبان بند دکهی ۔  اس پولیس اہلکاروں کو زخمی ہونے کی اصل وجہ کا پتہ نہیں چلا۔ ایک خاتون نے بتائی کہ اس ملازم کے گهر والوں نے حفاظتی اقدامات نہیں کیے تھے جو وہاں کے قانون کے مطابق ہونے چاہیے تھے۔ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اتنے اخلاقیات کے ایسے ہیں جیسے گدھے کے سر پر کتابیں لادنے کے ہیں ۔ایک معاشرے میں تعلیم کتنی اچھی کیوں نہ ہو جائے اس وقت تک ترقی نہیں کرے گا جب تک معاشرے کی اخلاقیات درست نہیں ہو جاتی ہوں ۔ صرف اچھی باتیں کرنے سے ترقی نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے عمل بھی ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں ایک وقت تھا کہ ہر کوئی ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے پیچھے بھاگ رہا تھا ۔ جنرل مشرف نے اپنی آخری تقریب میں بڑے زور سے ملک میں صرف قدرتی یا کمپیوٹر سائنس کی ترقی کی بات اور سوشل میڈیا کے بارے میں ذکر کرنا بھی مناسب نہ سمجھا ۔جو طالب علم اور سائنس کے مضامین میں اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کو اس سہولت سے محروم رکھا گیا ۔اگر ہم مغرب کی طرف ایک نظر دوڑائیں تو ہم کو معلوم ہوگا کہ انہوں نے پہلے ہی علوم میں مہارت حاصل کی تھیں۔ جن کا تعلق معاشرہ انسانی سوچ سے امریکہ اور دوسرے مغربی دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔
ان کے پاس جدید اسلحہ نہیں۔ جانتے تھے کہ انسان ہیں اور منفی سوچ کو کیسے بدلا جاتا ہے۔ مختصراً ہماری سوچ اور مغرب کی سوچ میں جو واضح فرق ہے اور جس کی وجہ سے ہم تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی اسے صحیح طرح سے استفادہ نہیں کر رہی ہیں کہ ہماری سوچ ایک نقطہ پر منجمد ہو جاتی ہے جبکہ مغرب کی سوچ مطابق رہتی ہے وہ ہر قسم کی تعلیم سے فائدہ اٹھانا جانتے ہیں۔ اور ہمارا علم کو ایک کتاب کہہ کر بند کر دیتے ۔یہیں ہماری نوجوان نسل کو اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسی سرگرمیوں کو سرگرمیوں کو اپنانا چاہیئے جس سے ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے اور یہ اس وقت ممکن ہوسکتا ہے۔جب وہ بہتر طریقے سے مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں ۔نوجوان نسل ہمارے ملک کی بنیاد ہیں جن کا طاقت ور ہونا بہت ضروری ہے۔ علم صحت روزگار کے بہتر مواقع اور بہترین ماحول فراہم کرکے مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ ان کے بہتر مستقبل کی تعمیر ان کی حوصلہ افزائی اور ان کی سوچ میں مثبت رجحان ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہےاور  یونیورسٹی آف ایجوکیشن ہمیشہ سے ان مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہا ہے اور وہ سال بھر میں طلباء کے درمیان مختلف سیشن منعقد کرکے  طلباء کے دلوں میں ایک اچھا مسلمان اور پاکستانی کا جزبہ ابھرتا ہے۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.