پیرعزیزالرحمن تیری مرگِ ناگہاں کامجھے یقین نہیں ہے!

0 312

تحریر:سعداللہ سعدی
مجھے وہ کیفیت خوب یاد ہے کہ جس وقت جامعہ دارالعلوم کراچی کے پر رونق دارالحدیث ملک بھر سے آئے ہوئے علمائ مشائخِ عظام اور بزرگانِ ملت کے نور سے منور تھا۔ گویا یہ مبارک دارالحدیث ولقد زینا السمآءالدنیا بمصابیح کا منظر پیش کررہا تھا۔
جب ان میں سے کوئی بھی دشمنانِ اسلام اور اعداءاللہ ورسولہ پر برس پڑتے تو پھر یہی وجعلناھا رجوم للشیاطین کا روح پرور منظر ثابت ہوتا۔
ان کبار علمائے عظام میں سے جو بھی اپنی شیرین زبان سے پھول جیسے وعظ ونصیحت برساتے تو پورہ دارالحدیث نور سے جھوم جاتا۔ ان میں سے چند کے نام میں زیرِ نوکِ قلم لاتاہوں۔
نمونہ اسلاف استاذالاساتذہ حضرت شیخ سلیم اللہ خان نوراللہ مرقدہ ، پیرِ طریقت شیخ المشائخ حضرت مولاناعزیزالرحمن نور اللہ مرقدہ ،حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ادام اللہ ظلہ علینا، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدرفیع عثمانی صاحب ادام اللہ فیوضھم، حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب مدظلہ العالی،قائدجمعیت حضرت مولانافضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم العالیہ ،حضرت مولانا مفتی منظور مینگل صاحب،حضرت مولانا مفتی زرولی خان صاحب اور مولانا حنیف جالندھری صاحب اورملک کے دیگر بڑے علمائے کرام تشریف لائے تھے۔
جن کی خدمت کے لیے بندہ ناچیز مقررتھا۔ میں ساقی بن کر ہر ایک منور چہرے کو قریب سے دیکھنے کاشرف حاصل کرتا۔ موقع پاکر ہاتھ ملانے اور چومنے کی سعادت بھی حاصل کرتا اس طرح اگر کچھ اور فرصت ملتی تو اپنی ڈائری بغل سے نکال کر بزرگوں سے کچھ قمیتی نصائح تبرکا لکھواتا۔
اس موقع پر میں نے قائد جمعیت سے خوب بغل گیر ہوکر سینہ اس سینے سے ملا یاجس کو مفتی محمود رحمہ اللہ نے کئی بار اپنے سینے سے لگایا ہوگا۔ میری مراد قائد جمعیت کا وہ مبارک سینہ ہے جس میں ہروقت شیطان پرست قوتوں کے لیے آگ دہکتی ہے۔ اور جس سے اسلام پرستوں کے لیے پھول۔برستے ہیں۔ ان سے کلمات تبرک اپنی ڈائری میں محفوظ کیے۔
اسی طرح جاکر پیرِ طریقت حضرت مولاناپیر عزیز الرحمن ہزاروی صاحب( جس کے نام کے ساتھ نوراللہ مرقدہ لکھتے ہوئے دل شدت غم سے بھرآتاہے)ان کی دست بوسی کرکے دعائیہ کلمات لکھنے کے لیے ڈائری سامنے رکھ دی۔
حضرت اپنی ریشم نما نرم ہونٹوں سے کچھ فرمانے لگے میں نے نہیں سنا کان قریب کرکے چہرہ انور سے فیض حاصل کرنے لگا۔ حضرت نے نصیحت کے کچھ کلمات گوش گزار فرمائے جن میں ایک یہ بات بھی پشتو میں فرمائی کہ آپ عمامہ کیوں نہیں باندھتے ؟
میں نے عرض کیا کہ حضرت کراچی کی گرمی سخت لگتی ہے !
حضرت نے فرمایا کہ آپ نے احادیث میں عمامہ کے فضائل نہیں پڑھے ہیں کہ گرمی بھی آپ کو ایک عظیم سنت سے روک رہی ہے؟
حضرت نے تحریرا بھی کچھ دعائیہ کلمات لکھ کر دے دیئے۔
آہ آج وہ نورانی چہرہ ہم میں نہیں رہا۔
وہ خوبصورت بیان کرنے والا پھول جیسے موتیاں برسانے والا ہمیشہ ذکر الہی سے مرطوب زبان کو ہم آج کے بعد نہیں سنیں گے۔
افسوس آج یہ گوہر نایاب بھی ہم کھو بیٹھے’ رحمہ اللہ رحمة واسعة
دو مہینوں سے ہم تین درجن سے زیادہ نیک خصلت ونیک سیرت علماءکرام اور مشائخِ عظام کی وفات کی درد بھری خبریں سن سن کر دل بیٹھ ساگیاہے۔ دماغ سے الفاظ غائب ہوئے ہیں دل کی دھڑکن حد سے بڑھ گئی ہے۔ ابھی تک ایک عالم کی غم سے آنکھیں خشک نہیں ہوتی کہ دوسرا درد بھرا خبر آپہنچتاہے۔ مگر ان سب میں جو دکھ اور درد پہنچا پیر طریقت قطب الاقطاب خلیفہ مجاز حضرت مولانازکریا رحمہ اللہ نمونہ حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی رحمہ اللہ
شیخ المشائخ حضرت مولانا پیرعزیز الرحمن نوراللہ مرقدہ کی موت کی خبر سے وہ کسی سے بیان نہیں کرسکتا۔
ہم نے خانقاہی پیروں میں حضرت جیسا غیرت مند حساس اور شجاعت کا پیکر نہیں دیکھا ناموس رسالت اور ناموس صحابہ یا حکمرانوں کی غیر اسلامی اقدامات کا جب بھی کوئی موقع ہوتا تو حضرت اسلام آباد کی سڑکوں پہ نکل آتے۔
مرشد العلماءپیر طریقت حضرت ہزاروی صاحب کی سانحہ ارتحال بہت بڑا اور ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ تمام پاکستان کے علماءکرام شیوخِ عظام اور عام مخلصین ومحبین اسلام کے دل آج خون کے آنسو بہا رہے ہیں۔
تمام علماءوطلبہ حضرتِ ہزاروی صاحب رحمہ اللہ کی وفات پر انتہائی دکھ اور غم کا اظہار کررہے ہیں.
حضرت مرحوم حضرت شیخ زکریا رحمہ اللہ کے خلفیہ مجاز اور ایک علمی روحانی اور سیاسی شخصیت تھے۔
دین اسلام کے سچے سپاہی اور سچے عاشق رسول تھے۔
حضرت پیر صاحب نے ہر دور میں جمعیت علمائ اور قائد جمعیت کے دست و بازوں بننے کا حق اداکیاہے۔ ہر میدان ظلم وجبر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔
وہ ولی اللہ تھے یقیناً انکی رحلت ہمارے لئے انتہائی دکھ اور درد کا باعث ہے۔۔۔
جس درد کی داستان شاعر نے اپنی شاعرانہ انداز میں یوں بیان کیاہے۔
عجب قیامت کا حادثہ ہے، اشک ہے آستیں نہیں ہے۔
زمین کی رونق چلی گئی ہے، ا±فق پہ مہر مبین نہیں ہے۔
تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے۔
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے۔
کئی دماغوں کا ایک انساں ،سوچتا ہوں کہاں گیا ہے ؟
اہل دین کی عظمت اجڑ گئی،ز±باں کا زورِ بیاں گیا ہے۔
اتر گئے منزلوں کے چہرے ، میر کیا ؟ کارواں گیا ہے۔
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے !
یہ کون اٹھا کہ دیر و کعبہ شکستہ دل ،خستہ گام پہنچے۔
جھکا کے ا پنے دلوں کے پرچم ، خواص پہنچے، عوام پہنچے۔
تری لحد پہ خدا کی رحمت ، تری لحد کو سلام پہنچے۔
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے۔
اگرچہ حالات کا سفینہ اسیرِ گرداب ھو چکا ہے۔
اگرچہ منجدھار کے تھپیڑوں سے قافلہ ہوش کھو چکا ہے۔
اگرچہ قدرت کا ایک شہ کار آخری نیند سوچکا ہے۔
مگر تری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.