بلوچستان کی قومی شاہراہیں یا مقتل
تحریر : ممتاز ترین
پاکستان میں جب جب مخلوط حکومتیں بنتی ہیں اور اتحاد بنائے جاتے ہیں اس وقت بلوچستان کے بارے میں ہر طرف سے ایک ہی آواز آتی ہے کہ یہاں قیام پاکستان سے لیکر اب تک زیادتیاں ہوئی ہیں صوبے کے عوام احساس محرومی کا شکار ہیں اسی کی بنیاد پر اتحاد بنتے اور ٹوٹتے ہیں اور صوبے کے عوام کی حالت بالکل جوں کی توں رہتی ہے اس وقت یہ صورتحال بیروزگاری اور معاشی حالات کی خرابی سے عوام کی بنیادی ضروریات چھیننے اور ان کی زندگی سے کھیلنے تک آگئی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے اور اس کی ذمہ داری صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں اور مرکز سمیت صوبے کے تمام منتخب ارکان پر عائد ہوتی ہے بلوچستان کے عوام کے منہ سے جہاں روٹی کا نوالہ چھین لیا گیا ہے وفاق میں صوبے کے کوٹے پر جعلی ڈومیسائل کے ذریعے ایسے لوگ براجمان ہیں جنہوں نے زندگی میں بلوچستان دیکھا ہی نہیں مگر وہ یہاں کے عوام کا حق کھا رہے ہیں وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کا چھ فیصد کوٹہ ہے جس پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا مقابلے کے امتحان میں بلوچستان کے لوگ آگر کامیاب ہوتے ہیں تو ان کو یہاں بھی تعیناتی ملنے کی صورت میں نہ صرف بلوچستان بلکہ کہیں بھی وہ مراعات نہیں ملتیں جو پنجاب وغیرہ سے تعلق رکھنے والے افسروں ملتے ہیں جس افسر کا تبادلہ کوئٹہ کیا جاتا ہے ان کو ڈبل تنخواہ ، رہائش اور ہر تین ماہ کے دوران پوری فیملی سمیت اپنے صوبے کیلئے جہاز کا ٹکٹ دیا جاتا ہے کیا یہ پاکستان کا حصہ نہیں بلوچستان کے لوگ اس ملک کے شہری نہیں ہیں اس کا سب سے اہم اور ظلم یہاں معلوم ہوتا ہے کہ نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹر ویز پولیس میں بلوچستان کا بھی چھ فیصد کوٹہ ہے جس پر باقاعدہ طریقہ کار کے تحت بھرتیاں ہوتی ہیں مگر جب ترقی کا معاملہ آتا ہے تو یہاں کے لوگوں کو یہ کہہ کر ترقی سے محروم رکھا جاتا ہے کہ یہ وفاقی محکمہ ہے اور تقریباً پچاس فیصد سے زیادہ ترقیاں پنجاب کے جونیئرز کو دی جاتی ہیں حالانکہ ترقیوں میں بھی صوبے کے ملازمین کو اپنے چھ فیصد کوٹے سے دی جانی چاہئیں بلوچستان کا صوبائی کیڈر ترقی سے محروم رہ جاتا ہے یہ صرف نوکریوں کی مثال تھی آئیں اب آپکو بتائیں کہ بلوچستان کے عوام کا کس ٹیکنیکل طریقے سے قتل عام کیا جارہا ہے اس پر سب حیران ہیں بلوچستان جو کہ پورے ملک کا تقریباً 47 فیصد ہے یہاں تقریباً 4450 کلو میٹر سڑکیں موجود ہیں مگر وفاقی حکومت کیساتھ ساتھ صوبائی حکومت کی بھی کوتاہی ہے کہ 4450 کلو میٹر میں سے صرف 513 کلو میٹر کی سڑکیں نیشنل ہائی وے کے پاس ہیں اور یہ سڑکیں بھی سنگل ہیں کوئٹہ سے ژوب ، لورالائی ، کراچی ، تفتان تمام سڑکیں سنگل ہیں یہاں پر صرف 54 کلو میٹر کے بائی پاس ہیں جس میں 120 لنک روڈ ہیں جن میں اسپیڈ کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی اسپیڈ بریکر تک موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے آئے دن ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں اور قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے ایک اندازے کے مطابق صوبے میںسالانہ چھ سے سات ہزار افراد روڈ حادثات میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ بلوچستان میں نیشنل ہائی ویز کی طرف سے جہاں سڑکوں کو دو رویہ نہ کرنا ہے وہاں صوبے میں موٹر وے پولیس کا دائرہ کار بڑھانے میں عدم دلچسپی کا اظہار ہے 2007 ءمیں بلوچستان میں موٹر وے پولیس کو تعینات کیا گیا اور تیرہ سال گزرنے کے باوجود موٹر وے پولیس کی ذمہ داریوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور عوام کو ٹریفک حادثات میں مرنے دیا جارہا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ صوبے میں 513 کلو میٹر کی جو سڑکیں موٹر وے پولیس کے پاس ہیں ان کیلئے کوئٹہ میں ہیڈ کوارٹر اور دیگر 15 مقامات پر سیکٹر اور ایمرجنسی دفاتر بنانے کیلئے صوبائی حکومت کی جانب سے بلڈنگیں / دفاتر بنا کر نہ دینا ہے یہ وفاقی محکمہ ضرور ہے مگر اس میں صوبے کے لوگ ملازم ہیں اور صوبے میں حادثات کی روک تھام کیلئے اقدامات کررہا ہے حالانکہ پنجاب حکومت موٹر وے پولیس کو سرکاری زمین بلڈنگیں بنا کردینے کے ساتھ ساتھ ان کو ہر ممکن سہولت فراہم کررہی ہے جس کی وجہ سے وہاں ٹریفک کے حادثات بلوچستان کے مقابلے میں کہیں کم ہیں اس علاقے میں کم از کم موٹر وے پولیس کے پاس 513 گاڑیاں ہونی چاہئیں مگر نہ صرف یہ گاڑیاں نہیں ہیں بلکہ این ایچ اینڈ موٹر وے پولیس کی جانب سے استعمال شدہ اور ناقص گاریاں دی گئی ہیں جن میں 74 گاڑیاں خراب حالت میں ہیں استعمال کے قابل نہیں اور صرف 51 گاڑیاں ہیں جن کی حالت بھی اچھی نہیں ہے سے کام لیا جارہا ہے اور ان گاڑیوں سے ان تیز گاڑیوں ، جرائم اور قانون شکن عناصر کا کس طرح پیچھا کیا جاسکتا ہے جو لینڈ کروزر میں اڑ رہے ہوتے ہیں بات یہیں ختم نہیں ہوتی پنجاب میں موٹر وے پولیس کے تین زون ہیں اور ہر زون کو سالانہ 20،20 کروڑ کا فنڈز دیا جاتا ہے جبکہ بلوچستان جو تقریباً آدھا پاکستان ہے یہاں ایک زون ہے اور اس زون کو صرف چھ کروڑ روپے سالانہ دیئے جاتے ہیں 4450 کلو میٹر سڑکوں کے حامل صوبے کیلئے صرف چھ کروڑ جس میں صوبائی حکومت کے عدم تعاون کی وجہ سے بلڈنگیں نہ ملنے کی وجہ سے موٹر وے پولیس تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے کرایہ کی مد میں دیتی ہے اور باقی ساڑھے چار کروڑ سے کام کرنا بالکل ایسا ہے کہ لوگوں کو موت کی دعوت دی جائے گزشتہ سال اسی وجہ سے ملک کے ایک قابل دیانتدار اور محنتی آفیسر طارق زہری جو کمشنر مکران ڈویژن تھے آر سی ڈی شاہراہ پر حادثے کا شکار ہو کر ڈرائیور اور دیگر کے ہمراہ شہید ہوگئے ہے یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے ایسے واقعات آئے دن تسلسل کے ساتھ جاری ہیں مگر وفاقی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی بس اس کی نظریں گوادر ریکوڈک سمیت بلوچستان کی معدنیات پر ہیں کہ کس طرح اسے ہضم کیا جائے مگر اسے چاہئے کہ سب سے پہلے صوبے کی تمام قومی شاہراہوں کو دو رویہ کرے بلوچستان کے کوٹے پر یہاں کے مقامی لوگوں کو ملازمتیں دے اور صوبائی کوٹے کے مطابق ان کی علیحدہ سنیارٹی لسٹ بنا کر ترقی دے اس کے علاوہ بلوچستان حکومت کو چاہئے کہ وہ کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں عوام کی جان و مال کے تحفظ کیلئے دن رات فرائض سرانجام دینے والے موٹر وے پولیس کیلئے سرکاری زمین پر دفاتر بنا کر دے یا الاٹ کردے یہ دیک عجیب بات ہے کہ اگر نیشنل لاجسٹک سیل NLC اور دیگر ادارے صوبائی حکومت سے جگہ مانگتے ہیں تو گھنٹوں میں دے دی جاتی ہے مگر بلوچستان کے عوام کی سہولت اور تحفظ کیلئے فرائض سرانجام دینے والوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے سی پیک کی اصل منزل بلوچستان ہے مگر اس کا تمام تر فائدہ دیگر صوبے اٹھارہے ہیں اب ژوب میر علی روڈ اور ژوب شیرانی دانہ سر روڈ جو سی پیک کا حصہ ہے پر تیزی سے کام جاری ہے وہاں بھی صرف اور صرف موٹر وے پولیس ہی موثر انداز میں کام کرسکتی ہے حکومت فوری طور پر وفاق سے ملازمتوں کا کوٹہ مزید بڑھانے کا مطالبہ کرے اور اسے مختلف علاقوں میں کیمپ آفس یا سیکٹر آفس بنانے کیلئے جگہ دے کیونکہ ٹرانسپیرنس انٹرنیشنل موٹر وے پولیس کو بدعنوانی سے پاک ادارہ قرار دے چکی ہے نیب نے بھی کہا ہے کہ یہ واحد محکمہ ہے جہاں بد عنوانی نہیں ہے اور ملک کے چیف ایگزیکٹیو نے بھی اسے Icon of Excellence کے نام سے یاد کیا جو کہ اس ادارے کیلئے ایک اعزاز ہے مگر نیشنل ہائی ویز اتھارٹی کی عدم دلچسپی اور نااہل وجہ سے یہ اہم ادارہ بھی تباہی کی طرف جاسکتا ہے اس کے علاوہ صوبائی حکومت کی بھی غفلت ہے کہ وہ صوبے میں اس محکمہ کو مناسب جگہ نہیں دے رہی تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں یہ احسن طریقے سے ادا کرسکے اور کھڈ کوچہ جیسی خطرناک جگہ جہاں موٹر وے پولیس کو کرائے کی عمارت لینی پڑی ہے وہاں پانی سمیت کوئی سہولت نہیں حالانکہ کھڈ کوچہ سے وڈھ تک بہت حادثات ہوئے ہیں انسپکٹر جنرل موٹر وے پولیس ڈاکٹر سید کلیم امام جو اپنی مداخلت کے ابتدائی دن سے ایس پی بننے تک اپنی خدمات بلوچستان میں سرانجام دے چکے ہیں وہ بھی اس معاملے کو خصوصی دلچسپی لیکر حل کرسکتے ہیں ۔