مکافات عمل
چند ماہ پہلے بلوچستان میں جام حکومت کے خلاف سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک بڑا احتجاجی تحریک شروع کیا گیا جام کمال کو ڈیکٹیٹر اور اپنے من مانی چلانے وزرائ کے بات نہ ماننے ایم پی ایز کے حلقوں میں مداخلت پی ایس ڈی پیز کو روکنے اور بلوچستان میں سیاسی بحران کے زمہ دار ٹھہرا کر وزارت اعلیٰ سے نکال دیا گیا سابقہ وزیر اعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں اسکے اپنے پارٹی بلوچستان عوام پارٹی کے ناراض ارکان سب سے زیادہ متحرک رہے جمعیت علمائ اسلام بی این پی عوامی اور بی این پی نے بلوچستان عوامی پارٹی میں انتشار ڈالنے اور جام کمال خان کے حکومت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا بلوچستان عوامی پارٹی کے سابقہ مشیروں اور وزرائ کو اچھے اچھے وزارتیں اور جمعیت علمائے اسلام بی این پی اور بی این پی عوامی کو جام
کمال سے چھٹکارہ چاہئے تھا قدوس بزنجو کو ایضا وزیر اعلیٰ سابقہ حکومتوں میں دراڑیں ڈالنے اختلافات کو پروان چڑھانے اور خود وزیر اعلیٰ بن کر حکومت کرنے کا تجربہ حاصل تھا اس نے جام حکومت میں شامل وزرائ کے آپسی اختلافات اپوزیشن پارٹیوں کے صوبے میں چل رہے تحریک کا بھرپور اٹھا کر جام کمال حکومت کے خلاف ایضے سابقہ اسپیکر بڑا کردار ادا کیا واضح رہے اس دوران آپوزیشن اتحاد کے حکومت کی خلاف ایک
تحریک بھی جاری تھا جو صوبائی حکومت کے بجٹ کے خلاف اجتماعی گرفتاریوں دینے اور احتجاج کے دیگر ذرائع زور شور سے جاری رکھے ہوئے تھے جام کمال کے حکومت اس دور کے بجٹ پیش کرنے میں تو کامیاب ہوگئے مگر اپنے حکومت بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکے بلاآخر تحریک عدم اعتماد کے زریعے جام کمال کے حکومت کا دھڑن تختہ ہوگیا عبد القدوس بزنجو کے قیادت میں تحریک چلانے والے اتحاد نے اپنا پہلا اجلاس میں قدوس بزنجو کو وزیر اعلیٰ کے امیدوار منتخب کی اور سابق وزیر اعلیٰ کو مزید کمزور کرنے کے لیے اسکے گروپ میں شامل چند وزرائ کو اپنے کیمپ میں شامل کرنے کا پلان بنایا سابق وزیر داخلہ ضیائ لانگو اور ظہور آحمد بلیدی کو اپنے کیمپ میں شامل کرکے اپنے اتحاد کو مزید مضبوط کردیا گیا جعمیت اور بی این پی پہلے سے قدوس حکومت کے حامی اور تحریک عدم اعتماد میں پیش پیش تھے جام حکومت کے وزرائ کو مجبور کرکے ساتھ ملانے سے جام گروپ مکمل طور پر بے سہارا اور کمزور ہوگئے تحریک انصاف میں شامل اراکین بھی ٹھوٹ پھوٹ کے شکار ہوگئے کوئی تحریک انصاف کو چھوڑ دیئے کسی نے قدوس کے ساتھ ہاتھ ملا لیا کوئی جام کو ہمدردیاں دے کر بیٹھ گئے ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی جمہوری وطن پارٹی پشتونخوامیپ نے بھی عملاً قدوس بزنجو کے کیمپ میں بیٹھ گئے قدوس بزنجو کے بلوچستان میں حکومت آنے سے آپوزیشن پارٹیوں کو مکمل اختیارات مل گئے انہوں نے اپنے پی ایس ڈی پیز کو خرچ کرنے ترقیاتی کام کرنے بے روزگار نوجوانوں کو نوکریاں دینے سے زیادہ جام گروپ کے خلاف بدترین انتقامی کاروائیاں شروع کی جام گروپ کے لائے گئے آفیسران کے اکھاڑ پچھاڑ شروع کی کئی آفیسران کلرکس اور دیگر ملازمین کو ٹرانسفر کردی کءآفیسراں کے محکمے تباہی کردی گئی چند اضلاع میں لوگوں پر مقدمے بھی بنائے گئے لسبیلہ کو تقسیم کرنے کا پروگرام بنایا گیا بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)جعمیت علمائ اسلام بی این پی ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی جمہوری وطن پارٹی اور دیگر پارٹیاں نے نام کے آپوزیشن رہ کر قدوس حکومت سے بھرپور فدا اٹھانے کی کوشش کی ان پارٹیوں نے اپنے مرکزی قیادت کے کہنے پر براہ راست حکومت میں شامل ہونے سے گرہیز کیا مگر پس پردہ حکومت میں رہ کر اپنے اپنے حلقوں میں جام کمال کے ساتھیوں کے خلاف کام کرتے رہے بلوچستان عوامی پارٹی آپسی اختلافات کے باعث دو لغت ہوگئے انٹرا پارٹی الیکشن میں شدید اختلافات سامنے آئے کسی نے قدوس بزنجو کو پارٹی قائد مان گئے کوئی جام کمال کے پیچھے کھڑے ہوگئے گزرے سال منعقدہ انٹرا پارٹی الیکشن کو پارٹی کے مرکزی صدر جام کمال نے ماننے سے انکار کردیا اور مرکزی کونسل سیشن میں اپنے گروپ کیساتھ شریک ہونے سےگرہیز کیا اور وہاں مجھے قدوس بزنجو کے گروپ نے اپنا قائد قدوس بزنجو کو منتخب کیا چیرمین سینٹ اور اسکی بھائی اعجاز سنجرانی کے بھی ہمدردیاں قدوس بزنجو کے ساتھ رہے ان سب نے مل کو جام کمال کے اپنے حلقے کو تقسیم کرکے جام کمال کے پریشانی مزید بڑھا دیئے ان صورتحال کے درمیان میں مرکز سے عمران خان کے حکومت کا دھڑن تختہ ہوگیا ملک میں بدلتے سیاسی صورتحال کے بعد جام کمال کے قریبی ساتھیوں نے اسے قدوس حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا مشورہ دیا کیونکہ بلوچستان حکومت میں معمولی نوعیت کے اختلافات چل رہے تھے جام کمال نے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی مگر تحریک عدم اعتماد بڑے قیادت جیسے آصف علی زرداری چیرمین سینٹ اور دیگر پردہ پس پردہ طاقتوں کے مداخلت سے پیش ہونے سے پہلے ناکام
ہوگیا جام کمال اور لسبیلہ کے عوام نے لسبیلہ کے تقسیم کو مسترد کرکے روڑوں پر نکل آئے مگر بلوچستان حکومت نے نوٹیفکیشن واپس لینے سے انکار دیا سیلاب سمیت بلوچستان حکومت کو دیگر کئی مسائل کا سامنا تھا جعمیت نے اچانک حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا مختلف میڈیا ٹاکس اجلاس اور دیگر ذرائع سے جعمیت علمائے اسلام کے رہنماو¿ں نے براہ راست حکومت بلوچستان میں شامل ہونے کی تائید کی قدوس بزنجو کے حکومت کے لیے پریشانیاں مزید بڑھ گئے تو اس نے بیک وقت دو سیاسی پتے کھیلنے کا فیصلہ کیا ایک جعمیت کو حکومت میں لینے کی فیصلہ کیا دوسرا جام کمال سے ہاتھ ملانے کا فیصلہ کیا قدوس بزنجو کے ان فیصلوں کو تجزیہ نگار مختلف نظروں سے دیکھ رہے ہیں مگر میرے ذاتی نظریے میں قدوس بزنجو کو اپنے دور حکومت میں سب سے پریشان کن صورتحال کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب جعمیت نے حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا کیونکہ جعمیت کے صوبائی حکومت میں شامل ہونے سے قدوس بزنجو کے اپنے قریبی ساتھیوں کے وزارتیں جا رہے تھے وزارتیں جانے سے اسکے اپنے کیمپ میں افراتفری پیدا ہوسکتی تھی تو اس نے ناراض ساتھیوں کے متوقع فیصلے سے پہلے جام گروپ سے ہاتھ ملانے کا فیصلہ کیا کیونکہ اگر جمعیت بلوچستان کے حکومت کا حصہ بن جاتا ہے قدوس بزنجو کے ساتھی ناراض ہوکر حکومت کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں تو قدوس کے پاس جام کمال گروپ کے آپشن موجود رہے گا اگر قدوس بزنجو جعمیت کو حکومت میں لینے سے انکار کرتا ہے جعمیت حکومت کے خلاف جاکر عدم اعتماد کے جانب جاتا ہے تو بھی جام کمال کے آپشن قدوس بزنجو کے ساتھ رہے گا کیونکہ جام کمال کے پاس بہت سے اراکین موجود ہیں اس لیے قدوس بزنجو نے بڑے چالاکی سے مستقبل کے متوقع سیاسی تبدیلیوں سے نمٹنے کا فیصلہ کرکے دو سیاسی پتے کھیلے ہیں یہ سب مکافات عمل ہیں کل کے بڑے سیاسی حریف آج کے دوست بننے جارہے ہیں اگلے آنے والے چند ماہ میں بلوچستان میں مزید سیاسی تبدیلیاں متوقع ہیں اس وقت تک انتظار کرنے پڑے گا کیونکہ الیکشن کے قریب شمولیتوں کا حیران کن دور بھی شروع ہونے والا ہیں