اسلام دشمنی !ایک خوفناک طرز ِ عمل
تحریر: الیاس محمدحسین
رائل کمیشن نے نیوزی لینڈ میں 15 مارچ 2019 کو کرائسٹ چرچ کی دو مساجد پر حملے کی تحقیقات کے آغاز پرنیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کا کہنا تھا کہ رائل کمیشن کے نتائج سے آئندہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام میں مدد ملے گی۔نیوزی لینڈ کے قانون کے مطابق رائل کمیشن سنگین ترین واقعات پر بنایا جاتا ہے اور وزیراعظم جسینڈا آرڈرن کی جانب سے کرائسٹ چرچ واقعے کو بھی ملکی تاریخ کے سنگین ترین واقعات میں سے ایک قرار دیا تھا جس پر وہ خود مسلمانوں سے ملیں مسلمانوںکی روایات کے مطابق انہوں نے حجاب اوڑھ رکھا تھا ۔ بحرالکاہل کے جزیرہ نماملک نیوزی لینڈ کے تیسرے بڑے شہر کرائسٹ چرچ کی 2 مساجد میں 15 گذشتہ سال مارچ کو ہونے والے دہشت گرد حملوں کو اب تک دنیا بھر میں مساجد پر ہونے والے حملوں میں سب سے بڑا حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔اگرچہ جنگ زدہ اسلامی ممالک میں ان سے زیادہ خطرناک حملے بھی مساجد میں ہو چکے ہیں، تاہم یورپ، امریکا اور دیگر غیر مسلم ممالک میں واضح طور پر دہشت گردی کا یہ واقعہ اب تک کا مساجد پر ہونے والا سب سے بڑا حملہ مانا جا رہا ہے۔
نیوزی لینڈ پولیس کے مطابق کرائسٹ چرچ کے علاقے ڈینز ایونیو میں واقع مسجد اور لین ووڈ مسجد میں مجموعی طور پر 51 افراد جاں بحق اور 39 افراد زخمی ہوئے۔پولیس کے مطابق یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب مساجد میں نماز جمعہ کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔اگرچہ نیوزی لینڈ میں پہلے بھی دہشت گردی کے واقعات پیش آ چکے ہیں، تاہم مساجد پر دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش نہیںآیا۔اس ہولناک واقعے کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے اور سوشل میڈیا سمیت مختلف فورمز پر سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی کھل کر مذمت کیوں نہیں کی جاتی اور مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کو روکنے کے اقدامات کیوں نہیں اٹھائے جاتے۔نیوزی لینڈ میں ہونے والے اس حالیہ حملے کے بعد اگرچہ کئی ممالک میں سیکیورٹی کے انتظامات سخت کردئےے گئے ، تاہم مسلمانوں میں خوف کی فضا ابھی تک برقرار ہے۔اس حمل سے قبل نیوزی لینڈ کے پڑوسی ملک آسٹریلیا میں بھی متعدد مساجد پر حملوں کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔
اگرچہ آسٹریلیا کو پرامن اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے والے ممالک کے طور پر دیکھا جاتا ہے، تاہم وہاں بھی مسلمانوں اور مساجد کے خلاف نفرت کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ حملے کے ذمہ دار جنونی کو سزاملنے سے مسلمانوںکا کچھ اشک سوئی ہوئی ہے لیکن مستقبل میں ایسے واقعات ک یروک تھام انتہائی ضروری ہے کیونکہ جرمنی اور فرانس کی طرح آسٹریلیا میں بھی زیادہ تر مسلم خواتین پر ان کے مکمل لباس کی وجہ سے حملے کئے جاتے ہیں۔یورپ کے اہم ترین ملک جرمنی کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں مساجد کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔جرمنی نشریاتی ادارے ’ڈی ڈبلیو‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2010 میں ہی جرمنی کی 27 مساجد کو نشانہ بنایا گیا اور 2017 تک مساجد پر حملوں کی تعداد تین گنا تک بڑھ گئی۔جرمنی بھر میں 2017 میں مسلمانوں کے خلاف 950 جرائم کے واقعات ریکارڈ کیے گئے جب کہ اسی سال جرمنی کی 73 مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔مساجد کو نشانہ بنا نے کا سلسلہ 2018 میں بھی جاری رہا مارچ 2018 میں دارالحکومت برلن کی ایک مسجد کو نشانہ بنایا گیا۔برلن میں دہشت گردوں نے مسجد کونذر آتش کردیا تھا، جس سے فوری طور پر کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔اسی حملے سے 2 دن قبل بھی ایک مسجد کو آگ لگادی دی گئی تھی، حیرانی کی بات یہ ہے کہ جرمنی میں مساجد پر ان حملوں کو دہشت گردی قرار دئیے جانے یا دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کے بجائے ان حملوں کو اسلامی شدت پسندی سے جوڑا گیا۔جرمن حکام کے مطابق ان حملوں میں ترکش نڑاد مسلمان ملوث تھے اس لیے یہ حملے اسلامی انتہا پسندی کا نشانہ تھے اور ایسے حملوں کی روک تھام کے لیے دوسرے اقدامات کرنے کے بجائے مسلمانوں اور مساجد پر ہی شکوک کیے گئے۔مارچ 2018 میں جنوبی جرمنی کے شہر اولما میں بھی مسجد پر بم سے حملہ کیا گیا۔خوش قسمتی سے اس حملے سے بھی کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، تاہم مسلمانوں میں خوف پھیل گیا،
لیکن جرمن حکام نے مساجد اور مسلمانوں کی سیکیورٹی کے ٹھوس اقدامات کرنے کے بجائے انہیں ہی شدت پسند قرار دیا۔برطانیہ کا شمار بھی یورپ کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر مساجد اور مسلمانوں کو زیادہ تر نشانہ بنایا جاتا ہے۔اگست 2018 میں برطانوی شہر برمنگھم میں ایک ہی گھنٹے کے اندر 2 قریبی مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔مساجد کو ایک ایسے وقت میں نشانہ بنایا گیا تھا جب کہ کچھ دن قبل ہی لندن میں دہشت گردی کے واقعہ ہوا تھا۔نیوز ویب سائٹ نیوز ‘اسٹیٹمنٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ بھر میں 2013 سے 2017 تک 167 مساجد کو نشانہ بنایا گیا، تاہم مساجد کی سیکیورٹی کے لئے کوئی خاص اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ بھارتی صحافی اور مصنفہ ارون دھتی رائے نے کہا ہے کہ مودی سرکار کی نفرت آمیز پالیسیوں کے باعث بھارت میں انتہا پسندی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے اور انہی متنازعہ پالیسیوں کے باعث کشمیر میں بھی حالات خراب ہوئے۔ الجزیرہ کو انٹرویو میں کہا کہ فوجی طاقت کا استعمال مسئلہ کشمیر کا حل ہے اور نہ ہی کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ اس مسئلے کو وہاں کی عوام پر چھوڑ دیا جائے۔ بھارت میں کسان، عدالتی نظام، تاجر اور طلباءسب پریشان ہیں، کوئی بھی حکمران جماعت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ تاہم بھارتی انتخابات ذات پات کی پیچیدگیوں میں جکڑے ہوئے ہیں اس لیے نتائج کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔ بھارت میں خطرناک انتہا پسندی کے سبب کئی سال پہلے تاریخی بابری مسجد شہید کردی گئی ہر سال مساجد اور مسلمانوں کے گھروں پر حملے کے واقعات مسلسل رونما ہوتے رہتے ہیں جبکہ آج بھی ہندو مسلم فسادات کا خدشہ ہروقت موجودرہتاہے اب حال ہی میں برمنگھم میں ایک مسجد کے باہر ایک مسلح شخص کو گرفتارکرلیا گیا جو نمازیوںپرحملہ کی نیت رکھتا تھا بہرحال دنیا بھرمیں مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت ہے تاکہ اقوام ِ عالم سکون سے رہ سکیںایک بات یقینی ہے کہ اسلام دشمنی ایک ایسا طرز ِ عمل ہے جس سے پوری دنیا کا امن تہہ و بالا ہو سکتا ہے اس لئے اقوام ِ متحدہ سمیت ہر ملک کو اپنے قوانین کو سخت بناناہوگے تاکہ دہشت گردی کا راستہ روکا جا سکے۔
[…] (ویب ڈیسک)مصنفہ بننے کے بعد اداکارہ کرینہ کپور خان نے اب پروڈکشن کی […]