حصول علم کی آزادی صرف لڑکیوں کے لیے کیوں؟

0 353

کہتے ہیں کہ “جہالت بانجھ نہیں بچے دیتی رہتی ہے” جی ہاں! ایک مسلمان (مرد و عورت) کے لیے علم سیکھنے کی اہمیت قدرے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ دین اسلام کی عمارت کا خشت اول ہی “اقراء ” رکھی گئی تھی . قرآن و حدیث میں جا بجا امت کو علم حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہر ایک (مرد و عورت) دین اسلام کے احکامات کو جان کر منشائے الہی کے مطابق روز و شب گزار سکیں اور مزید اسلام کی مقدس اور پاکیزہ نصب العین کو سمجھ کر پیغام ربانی کو ہر فرد و بشر تک پہنچانے کا کام سر انجام دے. علم کے بغیر پیغمبرانہ ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونا ممکن نہیں. جس طرح مرد کےلیے امر و نہی کا جاننا ضروری ہے بعینہ اسی طرح عورت کےلیے بھی ان سے آشنا ہونا ضروری ہے. مگر تعلیم نسواں کی طرف ہماری توجہ بہت ہی کم رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ میں “جہالت” کو ہی بتا ٹھہراتا ہوں کیوں کہ ہمیں معلوم نہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فقیہ الام تھیں۔ ہم تاریخ سے نا آشنا ہیں کہ حضرت ام الدردائ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو محدثہ اسی علم کی بنیاد پر کہا جاتا تھا۔ تاریخ سے واقفیت تو دور بلکہ ہمارے اقوام میں عورت کے حصول علم کے لیے تگ و دو کرنے کو عیب گردانا جاتا ہے. جو قلم بچہ کے ہاتھ میں ہوا کرتا ہے وہی قلم اگر بچی ہاتھ میں تھمانا چاہے تو اس بیچاری کو پورے قبیلے اور خاندان کےلیے عار سمجھا جاتا ہے. جو کتاب بھائی پڑھا کرتا ہے اگر وہی کتاب بہن پڑھنا چاہے تو باپ کے لیے اس سے بڑھ کر اور کوئی رسوائی نہیں ہوتی۔ رفتہ رفتہ ہم جہالت کی اس تاریکی سے نکل گئے اور جدید دور کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوئے۔ ہوا یوں کہ اب ہمارے ہاں بچوں کی طرح بچیوں کو بھی علم حاصل کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے. بلکہ بچیوں اور لڑکیوں کےلئے الگ مدرسہ “مدرسة البنات” قائم کیئے گئے ہیں۔ جس طرح صبح بھائی مدرسہ کا رخ کرکے گھر سے حصول علم کےلیے نکلتا ہے بعینہ اسی طرح بہن بھی حیاءو غیرت کا لبادہ اوڑھ کر نکلنے لگتی ہے.
اب المیہ یہ ہے کہ ہم نے علم حاصل کرنے کی آزادی صرف بچیوں اور نوجوان لڑکیوں کو دی ہیں جو بیٹھی ہوئی ہیں جن کا کوئی رشتہ ازدواجی اب تک نہیں بنا ہے۔ اور جو بہنیں منگنی شدہ ہیں یا شادی شدہ ہیں یا ایک ماں کے روپ میں زندگی بسر کر رہی ہیں ان کی طرف ہمارا دھیان ہے ہی نہیں۔ کیا علم سیکھنا صرف بچیوں اور لڑکیوں کا حق ہے؟ کیا رضائے الہی کا حصول صرف لڑکیوں پر لازم ہے؟ کیا دین کی ضرورت صرف لڑکیوں کو ہی ہے؟ کیا ایک پاکیزہ اور اسلامی خطوط پر استوار معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد محض نوجوانوں کا کام ہے؟
نہیں نہیں ہرگز نہیں. دین کی ضرورت جس قدر بچیوں اور لڑکیوں کو ہے اسی طرح ایک عمر رسیدہ دادی اور نانی کو بھی ہے. جس طرح ایک بھائی اور بہن کےلیے حق تعالی کی مرضیات و نامرضیات کا علم سیکھنا ضروری ہے بعینہ اسی طرح ایک باپ اور ماں کو بھی ان سے واقف رہ کر اپنی زندگی کو رب کے فرامین کے مطابق گزارنا از حد ضروری ہے. تو پھر حصول علم کےلئے آزادی کی تخصیص صرف بچیوں اور لڑکیوں کے ساتھ کیوں؟
لمحہ فکریہ اور سوچنے کا مقام ہے۔ کہ ہماری بھابھی،امی،دادی، نانی وغیرہ علوم الہی سے غافل رہ کر جہالت کی تاریکیوں میں زندگی گزار رہی ہیں۔ وضو کے فرائض سے ناآشنا رہ کر ان کا وضو کیسا ہے؟ کچھ نہیں پتہ۔ نماز کے احکامات جانے بغیر وہ کیسی نماز ادا کرتیں رہتی ہیں؟ کچھ نہیں معلوم۔ قرآن کی تلاوت کیسی کرتی رہتی ہیں؟ خداجانے۔روز مرہ آنے والے مسائل سے کیسے نمٹتے ہیں؟ کچھ خبر نہیں۔ دین سے دور رہ کر بچوں کی تربیت کیسی کرتی رہتی ہیں؟ ہم نہیں جانتے۔ شوہر اور گھریلو ذمہ داریاں کیسے انجام دیتی رہتی ہیں؟ واللہ اعلم۔۔۔۔۔۔۔
جب اسلامی سانچے کا ان بیچاریوں کو معلوم ہی نہیں تو وہ کیسے ایک معاشرے کے بچوں کو اسلامی سانچے میں ڈھال سکیں گی۔۔؟
لھذا میرا ماننا ہے کہ آج ہی سے ہر مرد کو چاہیئے کہ وہ ضرور بالضرور گھر کے اندر رہتی ہوئی بڑی بہن, بھابھی,امی،نانی، دادی وغیرہ کی ذہن سازی کرے کہ تم نے گھر کے ضروری کاموں سے فراغت کے بعد مدرسہ (بنات) جاکر روزانہ کی بنیاد پر (یا پھر ہفتہ وار) حاضری دینی ہے تاکہ کم از کم اپنا وضو, نماز اور قرآن کی تلاوت کی درستگی کرسکیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں،علم کی اہمیت سے انہیں آگاہ کریں، علم کی شمع جلانے کا گر انہیں سکھادیں۔ ایک اسلامی معاشرے کے قیام میں عورت کا کیا کردار ہوسکتا ہے؟ کھل کر بتادیں۔ اسلامی معاشرے کی ضرورت کے متعلق ان کی ذہن سازی کریں، ان کو آگاہ کریں کہ آپ بچے کی اولین درسگاہ ہیں۔
انہیں سمجھادیں کہ شیخ الہند اور مدنی جیسے فرزند کس قسم کی مائیں جنتی ہیں۔ ان کو بتادیں کہ رابعہ بصریہ کیسے بنتی ہے؟ جب یہ سب کچھ وہ سیکھ جائیں گی تو یقین کرے معاشرہ پاکیزہ بن ہی جائے گا.
مدرسہ کے مہتم میں اور انتظامیہ کو بھی چاہیئے کہ وہ ضرور بالضرور ان کےلیے وقت نکال لیں خواہ ہفتے میں ایک گھنٹہ ہی کیوں نہ ہو۔ عورتیں بہت جلد بات مان لیتی ہیں بس ان کو سمجھانے کی دیر ہے۔ ان کو سلجھانے کی دیر ہے۔ انہیں راہ مستقیم دکھانے کی دیر ہے۔ آئیئے آج ہی سے علم کی طرف بڑھتے ہیں،روشنی کی طرف چلتے ہیں تاکہ ایک پاکیزہ اور فلاح کی راہوں پر گامزن معاشرہ تیار کیا جائے۔ اگر آج بھی ہم نے غفلت کی اوڑھی چادر کو سر سے نہیں اتارا تو یقین کریں کہ ہمیں جہالت کے کھڈے میں گرنے سے کوئی چیز رکاوٹ نہیں ہوگی۔ شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.