تعلیم ملت کی تعمیر کے سیڑھی

0 238

(تحریرحضرت بلال حقانی چمن)
تعلیم صرف روزگار کا سرٹیفیکیٹ نہیں اسکا اصل مقصد قوم کے افراد کو باشعور بنانا ہے افراد کو باشعور بنانا ملت کی تعمیر کی راہ کا پہلا قدم ہے ملت کا سفر جب بھی شروع ہو گا یہیں سے شروع ہوگا اس کے سوا کسی اور مقام سے ملت شروع نہیں ہوسکتا باشعور بنانا کیا ہے؟
باشعور بنانا یہ ہے کہ ملت کے افراد ماضی اور حال کو ایک دوسرے سے جوڑسکیں٫ وہ زندگی کے مسائل کو کائنات کے ابدی نقشہ میں رکھ کر دیکھ سکیں وہ جانیں کہ وہ کیاہیں اور کیا نہیں ہیں وہ اس راز سے واقف ہوں کہ وہ اپنے ارادہ کو خدا کے ارادہ سے ہم آہنگ کرکے ہی خدا کی اس دنیا میں کامیاب ہو سکتے ہیں
باشعور اس انسان ہی حقیقی معنوں میں انسان ہے جو باشعور نہیں وہ انسان بھی نہیں باشعور آدمی اپنے اور دوسرے کے بارے میں صحیح رائے قائم کرنے کے قابل ہو جاتا ہے وہ یہ جان لیتا ہے کہ اس کی کون کون سی رائے جانبدارانہ رائے ہے اور کون سی رائے غیر جانبدارانہ جب بھی کوئی موقع آتا ہے وہ یہ پہچان لیتا ہےکہ یہاں کون سی کاروائی ردعمل کی کاروائی ہے اور کون سی مثبت کاروائی ہے وہ شر کو خیر سے جدا کرتا ہے اور باطل کو الگ کر کے حق کو پہچانتا ہے ایک آنکھ وہ ہے جو ہرادمی کی پیشانی پر ہوتی ہے تعلیم آدمی کو ذہنی آنکھ عطا کرتی ہے عام آنکھ آدمی کو ظاہری چیزیں دکھاتی ہے تعلیم آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ کہ وہ معنوی چیزوں کو دیکھ سکے جس طرح ایک کسان بیج کو درخت بناتا ہے اسی طرح تعلیم گاہ کاکام یہ ہے کہ وہ انسان کو فکری حیثیت سے اس قابل بنائے کہ وہ ارتقائے حیات کے سفر کو مکمل کرسکے تعلیم آدمی کو ملازمت دیتی ہے مگر یہ تعلیم کا ثانوی فائدہ ہے تعلیم کا اصل پہلو یہ ہے کہ وہ آدمی کو زندگی کی سانس بتائے وہ آدمی کو حقیقی معنوں میں آدمی بنادے مگر بدقسمتی سے مملکت خداداد پاکستان میں دن بدن تعلیمی تنزلی دیکھنے میں آرہی ہے ہر حکمران وقت تعلیمی معیار کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور تعلیمی مورال کو بڑھانےکی بلند وبانگ دعوے تو کرتے ہیں مگر سب کی سب کاغذی ثابت ہوا کرتے ہیں آج تک کسی نے بھی تعلیم کو ترقی کی خطوط پر استوار کیا نہ ہی اس راہ میں کھڑے بنیادی رکاوٹوں کو معلوم کرنے کی زحمت کی بس ہر حکمران اپنی جان چھڑانے کی خاطر تعلیمی زبوحالی کا الزام سابقہ حکمرانوں پہ ڈالتے ہیں ناقص پالیسیوں اور میرٹ کی پامالیوں کیوجہ سےایک طرف آج نوجوان طبقےکا رجحان تعلیم کی حصول کی بجائے بیسنس اور دیگر شعبہائے زندگی کی جانب بڑھ رہی ہے اور دوسری جانب حکومت کی عدم توجہی اور عدم دلچسپی کی بناء اکثریت تعلیمی ادارے تعلیم سے ہم آہنگ دورجدید کی سہولیات سے محروم ہیں ہر صوبہ بالخصوص صوبہ بلوچستان کی دیہی علاقہ جات کی سرکاری سکولوں میں ہرقسم کی سہولیات کی کمی ہے سکولوں میں پانی بجلی گیس چاردیواری ٹوائلٹس ڈیسک فرنیچر اور کتابوں کی کمی جیسے مسائل تواترسے پایا جاتا ہے تعلیمی اداروں میں وسائل کی کمی کو پورا کرنے کی دعوے ہمیشہ دھرے کی دھرے رہ جاتے ہیں ایک اور وجہ جس نے ہماری تعلیم یافتہ افراد کی صلاحیتوں کو ٹس پہنچائی وہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے ایک اہم طبقے نے اپنا کل بھلا دیا ہے وہ طبقہ سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ ہیں کیونکہ کل کا طالب علم دن رات محنت کرتا تھا اور اپنی پڑھائی پر توجہ دیتا تھا آج کے طالب علم کا زیادہ وقت موبائل انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا نذر ہورہا ہے کل کے طالب علم کے ہاتھوں میں قلم اور کتاب ہوا کرتا تھا آج کے طالب علم کے ہاتھوں میں پستول اور گن ہوتا ہے کل کا طالب علم معاشرے میں ہونے والے برائیوں کو روکنے میں اہم کردار ادا کرتا تھا جبکہ آج کے طالب علم نشہ بازی سگریٹ نوشی سمیت مضرصحت اور نامناسب سرگرمیوں میں مصروف نظر آتا ہے کل کا طالب علم استاد کا احترام کرتا تھا آج کے طالب علم استاد سے الجھ کر اور زبان درازی کرکے فخر محسوس کرتاہے کل کا طالب علم اپنی محنت اور لگن سے پاس ہو تا تھا آج کے طالب علم امتحانی ہال میں غیبی مدد اور نقل کی لعنت سے پاس ہو تا ہے اگر ہمیں ترقی کی راہ پہ چلنا ہے قوم وملک کو دنیا کی ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں لاکھڑا کرنا ہے تو ہمیں آج بدلنا ہوگا!

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.