ہمارا ووٹ ہماری طاقت
ہرنائی نامہ نگار:
تحریر ایڈوکیٹ عصمت ترین
ہرنائی : آپ کا ووٹ آپ سمیت آپ کے بچوں کا مستقبل ہے آپ کو یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر لینا چاہئے۔ ایڈوکیٹ عصمت اللہ ترین
پاکستان میں الیکشن کا انعقاد دنیا کے دیگر جمہوری ممالک کی طرح ایک اہم قومی مرحلہ ہے۔ یہ وہ وقت ہے کہ عوام اپنے،اور اپنے قوم و اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ الیکشن میں ہار جیت سے بڑھ کر اہم بات یہ کہ عوام میں سیاسی و قومی شعور بیدار ہو اور وہ اپنی ماضی کی غلطیوں کو نا دہرائیں۔ یہ مختصر تحریر اسی ضمن میں ایک قدم ہے۔ تاکہ عام و خاص عوام یہ سمجھ سکے کہ ہم جو وؤٹ دے رہے ہے اگر وؤٹ غلط شخصیت کے نام کیا تو قوم کی مستقبل کو بہت بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ مدِنظر رکھنی چاہیے کہ مختلف سیاسی جماعتیں اور افراد جو آپ سے ووٹ کے طلب گار ہیں ان کی اپنی ذہنی سوچ کیا ہے؟ انکا عملی کردار آپکے بنیادی معاشرے میں کیسا رہا ہے؟ الیکشن ہونے سے پہلے نمائندے کی علاقائی مسائل کیلئے کیا نمائندگی رہی ہے؟ یہ تو واضح ہے کہ آپ سے وؤٹ مانگنے والا شخص کسی نا کسی سیاسی جماعت سے ضرور ہوگا سیاسی جماعت کی سوچ اس کا ”منشور“ ہوتا ہے۔ لہذا ایک بار کسی جماعت کو ووٹ دینے سے پہلے اس کے سیاسی منشور کا مطالعہ ضرور کریں۔ کہ آخر یہ جس پارٹی کا نمائندہ بن کر ہم سے وؤٹ طلب کررہا ہے اس کے پارٹی کی ماضی میں کیا حیثیت رہی ہے اور پارٹی کے لیڈران نے ماضی میں معاشرے کی فلاح و بہبود کیلئے کیا کیا کام کیئے ہے؟
دوسری بات یہ معلوم ہونی چاہیے کہ ایک جمہوری سیاسی نظام میں سیاسی جماعتوں اور افراد کی حقیقی ذمہ داری کیا ہے؟ اور کیا وہ اپنی اس ذمہ داری سے واقف ہیں اور کیا ان میں ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی صلاحیت ہے؟ جو نمائندہ آپ سے وؤٹ طلب کررہا ہے آیا وہ نمائندہ کتنے پارٹیوں میں رہا ہے اگر وہ نمائندہ مختلف پارٹیوں میں رہا ہو، یقیناً اس نمائندے کی ایک زبان نہیں ہوگی، کیونکہ مختلف پارٹیوں میں رہنے والا شخص میں دوغلا پن ہوتا ہے اور وہ شخص منافق ہوتا ہے اور منافق شخص کو وؤٹ دینا اپنے علاقے و بچوں کے مستقبل کے ساتھ حقیقی ظلم ہے۔ سب سے ضروری سوال نمائیندے یہ ہونا چاہئے کہ اگر ہم نے آپ کو ووٹ دے کر کامیاب کر بھی دیا، کیا آپ پانچ سال اپنے علاقے میں ہی رہے گے یا پھر اسلام آباد میں عیش کریں گے؟
جب تک ان سوالوں کے جوابات آپ کو معلوم نہ ہو ووٹ دینے کا فیصلہ کرنا آپ کے اپنے حق میں نقصان دہ ہو گا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ آپ کسی شخص کے پاس علاج کے لیے جائیں مگر اس کو علاج کرنا نہ آتا ہو مگر آپ پھر بھی کسی اور کے کہنے پر اس شخص سے دوائی لے لیں یقیناً آپ کی یہ حرکت کسی بھی طرح سے عقل مندی تصور نہیں کی جائے گی۔ کسی شخص سے مراد وہ ہے جو آپ کے ووٹ کے بلبوتے پر نمائندے سے ڈیل کرتا ہے اور نمائندے کو آپ کا ووٹ بیچتا ہے ووٹ دینے کا حق عوام کا اپنا ہے عوام کسی بھی ملک،سردار،نواب،وڈیرہ،میر،کے بہکاوے میں مت آئے۔ عوام خود ہی ایک اچھے اور دیانتدار شخص کا انتخاب کرے کیونکہ حکومت کرنے کے لیے ایسے افراد کو چن لینا جن کو اس کام کی نہ سمجھ ہو اور نہ ان میں صلاحیت ہو ایک انتہائی غیرذمہ داری کا کام ہے جس کی سزا آپ سمیت پوری قوم کو بھگتنی پڑ سکتی ہے۔ اس لیے جب بھی ایسا موقع آپ کی زندگی میں آئے برائے مہربانی سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔ یہ فیصلہ صرف آپ کے ایک ووٹ کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کے مستقبل کا فیصلہ ہے۔
آپ کے حلقہ میں ہر نمائندہ جب آپ سے ووٹ مانگتا ہے وہ آپ سے گزارشات کے ساتھ انگنت وعدے کریگا آپ نے انہی وعدوں کو پوائنٹ آؤٹ کرنا ہے جو آپ کے علاقے میں بنیادی مسائل کی حد تک ہو کیونکہ آپ کے نمائندے نے صرف آپ کے علاقے کیلئے ووٹ لیا ہے اسلام آباد میں بیٹھ کر پورے ملک کیلئے نہیں۔
اس لیے اپنے علاقے کے سیاسی نمائندے سے یہ سوال کریں کہ وہ آپ کے علاقے کی بہتری پر پہلے بات کرے کیونکہ یہ اس کی سب سے پہلی ذمہ داری ہے۔ بڑے منصوبوں پر اگر وہ کام کرنے کا دعویٰ کرے تو اس سے یہ سوال کریں کہ کیا اس کو اس کام کی کوئی سمجھ ہے یا وہ محض آپ کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کررہا ہے۔ کہی سالوں سے نمائندگان نے عوام کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے اب عوام حوش کے ناخن لے اور اپنا انتخاب صحیح کریں۔
نمائندہ جب کامیاب ہوجائے تو اسکی حیثیت نوکر سی ہوتی ہے اور نوکر کا کام ہوتا ہے وہ کام کرنا جس کی اسنے زمواری اٹھائ ہو
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سیاسی نمائندے اسمبلی میں جا کر کام کرنے کی باقاعدہ تنخواہ اور مراعات لیتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے عام آدمی کام کرنے کی تنخواہ لیتا ہے۔ سیاستدانوں کی تنخواہ عوام کے پیسے یعنی (ٹیکس) سے ادا ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے سیاسی نمائندؤں سے پوچھنا چاہیے کہ جناب آپ نے جو پورے 5 سال تنخواہ اور مراعات و فنڈنگ لی تھی اس سے عوام کے لیے کیا کیا؟ یا پھر 5 سال گزار کر پھر ووٹ لینے کیلئے آئے ہو تو پہلے 5 ساتھ کا حساب دے دو مثال کے طور پر اگر ہماری دوکان یا دفتر میں کوئی ملازم تنخواہ تو پوری لے لیکن کام کم کرے تو کیا ہم اس کو کوئی رعایت دیں گے؟ بلکل نہیں،بلکہ ہم اس سے کام نا کرنے کا حساب لے گے اور ساتھ ہی میں اس نوکر کو کام کرنے سے فارغ کردیگے کیونکہ امانت میں خیانت کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔
کیونکہ آپ کا ووٹ اس ملک میں آپ کے مستقبل کا تعین کرتا ہے اس لیے آپ سے درخواست کی جاتی ہے کہ ووٹ دینے سے پہلے اپنے علاقے میں موجود سب سیاسی نمائندوں سے ایک بار یہ سوالات ضرور کریں چاہے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو۔ اور جو نمائندہ ان سوالات کے سب سے بہتر جواب دے ووٹ صرف اسی کو دیں چاہے وہ جس مرضی پارٹی کا ہو خواہ وہ آزاد امیدوار کیوں نا ہو۔ یاد رکھیں آپ کا سب سے اولین واسطہ سیاسی نمائندے سے پڑتا ہے پارٹی سے نہیں۔ اور نمائندہ ایسا ہو جس کا کردار عملی ہو جس نے نمائندہ بننے سے پہلے بھی علاقے کے مسائل حل کرنے کیلئے جدو جہد کی ہو اور جو باتوں سے نہیں بلکہ خلوص اور اچھی سوچ سے عوام کے دل جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
یہ یاد رکھیں کہ اپنے سیاسی نمائندے پر اس بات کے لیے زور دیں کہ وہ آپ کو بتائے کہ وہ آپ کے علاقے کی بہتری کے لیے کیا کام کرے گا؟ اکثر نمائندے بہت بڑے بڑے دعوے تو کرتے ہیں مگر الیکشن کے بعد اپنے علاقے میں ہی نظر نہیں آتے اس لیے نمائندوں سے یہ پوچھا جانا ضروری ہے کہ وہ اس انتخابی حلقے کی بہتری کے لیے کیا کریں گے اور کیسے کریں گے؟
یعنی نمائندے کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اس کے کردار پرکھنے کیلئے علاقے کے بنیادی و لازم ضروریات کو دیکھ کر انتخاب کرلیتا چاہئے آیا نمائندہ علاقے میں مندرجہ ذیل نقاط پر کام کرنے کی اہلیت رکھتا بھی ہے یا نہیں۔
سب سے ضروری اور پہلی چیز ہے تعلیم یافتہ افراد کیلئے روزگار کی فراہمی۔
دوسری چیز ہے علاقے میں تعلیمی اداروں کا انعقاد۔ تیسری چیز ہے زراعت کے حوالے سے ترقیاتی منصوبہ بندی۔
چوتی چیز ہے پانی بجلی اور گیس کی سستے قیمت میں فراہمی۔
پانچویں چیز ہے کمیونیکیشن (روڈ)یعنی نیشنل ہائی وے کی بحالی۔
چھٹی چیز ہے صحت کے حوالے سے ہسپتالوں کا انعقاد اوردوائیوں کی فراہمی۔
ساتویں چیز جو سب سے ضروری ہونی چاہئے وہ ہے حلقے کیلئے منظور شدہ فنڈنگ کا تعمیراتی کام میں استعمال ہونا اور ہر قسم کے کرپشن روکھنے کے اقدامات اٹھانا اور علاقے میں موجود تمام اداروں پر نظر ثانی کرنا اور کسی بھی ادارے کے دباؤ میں نا آتے ہوئے اپنا کام و زمواری دل جیمی سے ادا کرنا۔
مندرجہ بالا نکات پر اگر کوئی نمائندہ کام کرنے کی اہلیت رکھتا ہے تو اسی کا انتخاب کریں کیونکہ یہی وہ نکات ہے جو ترقی یافتہ معاشرے کیلئے لازم ہے اور یہ نکات پورے ہونے چاہئیں اور یہی وہ ضروری سوالات ہے جو عوام کو کرنے چاہئیں
کیونکہ جب آپ سوال کرے گے تب ہی آپ کی آواز میں قوؤت پیدا ہوگی کیونکہ سوال کرنا آپ کا حق ہے اور یہ حق آپ کو شریعت قانون اور آئین دیتا ہے تاکہ آپ اپنے مستقبل کا چناؤ بہتر طریقے سے کرسکے.