کارِ سرکار۔۔۔قسط 6
واہ گلاب آپ تو بہت اچھا گاتے ہیں اور نصرت صاحب تو میرے پسندیدہ گلوکار ہیں.
گلاب نصرت فتح علی خان کا گیت “دل کا سودا ہوا چاندنی رات میں”دن کی روشنی میں ایسا گیت گنگاتے پکڑا گیا تھا.
گلاب نظریں نیچے کیے خاموش کھڑا تھا گویا اس نے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہو اور خیال کر رہا تھا کہ شاید صاحب طنز کر رہے ہیں لیکن بات اس کے بر عکس تھی حسن علی کو واقعی گلاب کی آواز اچھی لگی.
پھر مسکراتے ہوئے گلاب کو کہا اب ہمارا وقت اچھا گزرے گا فرصت میں آپ سے نصرت صاحب کے گیت سنیں گے.
گلاب ساکت کھڑا رہا.
حسن علی نے کہا او کے آپ پودوں کو پانی دیں میں نے آپ کے کام میں خلل ڈالا.
گلاب پائپ کھینچ کر دوسری جانب پودوں کو پھر سے پانی دینے لگا.
آفس کے احاطے میں مختلف قسم کے پودے اور درخت لگے تھے مین گیٹ کے ساتھ برگد اور پیپل کے درخت تھے اور مین گیٹ سے سیدھا سڑک پہ بھی مختلف قسم کے درخت لگے ہوئے تھے جو خوب صورتی میں اضافہ کر رہے تھے.حسن علی ان پودوں اور درختوں کو تکتے رہے اور اسے اپنا گاو ¿ں یاد آیا جب وہ ایسے برگد اور پیپل کے درخت دیکھتا تھا اور دیہاتی لوگ ان کے نیچے بیٹھ کر حقے کی نے منہ میں ڈالے گڑ گڑ باتیں کرتے تھے کیا سادگی کا زمانہ تھا ان درختوں کے درمیاں ہمارا تو بچپن گزرا ہے کیسے نہ ان سے انس ہو.انھی خیالوں میں گم سم تھے اچانک اسے سامنے سے ایک نوجوان مگر معذور شخص دکھائی دیتا ہے جو لنگڑاتے ہوئے آفس کی طرف چلا آتا ہے کھڑکی سے جمعہ خان کی بھی اس پر نظر پڑ گئی . جمعہ خان کمرے سے باہر نکلا کیونکہ جمعہ خان نے بھانپ لیا تھا کہ شہزادہ
صاحب کی طرف جائے گا اور صدا لگائے گا جمعہ خان نے اسے مخاطب کیا شہزادہ کہاں ہے تو دو چار دن سے تو نظر نہیں آیا شہزادہ بولا صاحب طبیعت ٹھیک نہیں تھی آج طبیعت بحال ہوئی تو آج روزی روٹی کے سامان کے لیے نکل پڑا.
جمعہ خان حسن علی سے مخاطب ہوئے صاحب! یہ یتیم بچہ ہے بچپن میں اسے پولیو ہوا تھا یہاں آس پاس کسی کوٹھی میں اپنی ماں اور بہن کے ساتھ رہتا ہے یہاں آفس چکر لگاتا رہتا ہے دو چار روپے ملتے ہیں سامان سلف لے کر گھر جاتا ہے حسن علی نے جیب میں ہاتھ لگایا اور مٹھی بند کر کے اسے پیسے دیے نا جانے کتنے تھے
اتنے تھے کہ جب شہزادے نے لیے تو اس کے چہرے پہ خوشی کے آثار نمودار ہوئے اور وہ آفس سے چلتا بنا.
اس اثنا میں خاوند بخش بھی آگیا اور کہنے لگا صاحب گاڑی ٹھیک ہو گئی اور چلنے کے قابل ہے یہاں شہر کے مشہور میکنک سے ٹھیک کروائی ہے.
گڈ خاوند بخش مجھے آپ سے یہی توقع تھی حسن علی نے داد دی…
آفس کا وقت بھی تمام ہوا چاہتا تھا
حسن علی نے ایک نظر پھر اس تختی کو دیکھا جس کا رنگ اتر چکا تھا اور کھر دری ہو چکی تھی صرف لفظ آفیسر اس پہ واضح تھا.
خاوند بخش کل آپ نے پہلی فرصت میں اور مجھے پتا ہے کہ آپ ہی یہ کام صحیح سر انجام دیں گے یہ تختی اتارنا کیونکہ اب یہ تختی بوسیدہ ہو چکی ہے اور اتنی ہی ناپ کی نئی تختی لینا اور پینٹر سے کلر کروا کے اس پہ “ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر فیض آباد”لکھوانا….
تختی کی تبدیلی نے خاوند بخش کو محو حیرت کر دیا کیونکہ یہ اس کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی تھی..(جاری)