مسائل چمن

1 245

تحریر۔محمدنسیم رنزوریار

عنوان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قارئین کرام۔وہ جوہمارے آوازیں دباتے ہیں۔۔نامعلوم بن کر ہمیں ڈراتےہیں نوجوانوں کو گھروں سے اٹھاتے ہیں۔ماؤں بہنوں بیٹیوں کو رلاتے ہیں۔اپنوں کے سر اپنے سامنے جھکاتے ہیں۔خودکو اپنوں کے نظروں میں خود گراتے ہیں۔یہی تلخ جملوں سے شروع کرتا ہوں۔کہ ضلع چمن کو صرف نام تک ترقی تو دے دی مگر اسکے ہر اعلیٰ سرکاری و نجی دفترسے ادنیٰ تک کرپشن ۔پسند و ناپسند اقراپروری نام نہاد وجعلی صحافت وصحافیوں سے لیکر نام تک محدود قبائلی عمائدین سب ایک دوسرے کی نقصان وزیان پر تکیہ کرتے نظرآتے ہیں۔جسکو صوبہ بلوچستان کا دوسرا تجارتی شہر وضلع بھی کہا جاتا ہے وہ بھی کرپشن ناانصافیوں کی سرگرمیوں میں نہ کہ عدل وانصاف کی روشنی میں۔ ۔اسکے مشرق میں درہ کوژک کے نام سے ایک مشہور بلند بالا پہاڑ واقع ہے جسکے دامن میں بین الاقوامی شاہراہ گزرتی ہے اسی پہاڑ کے دامن میں دنیا کے چند مشہور اور لمبی سرنگوں میں سے ریل کا ایک تاریخی انگریز دور کا سرنگ بھی تعمیر ہے۔اس پہاڑوں کی شروعات افغانستان کے صوبہ خوست اور پاکستان میں صوبہ خیبرپختون خواہ کے وزیرستان سے ہوتاہے۔چمن کے مغرب کی طرف میں لال رنگ کے ریگستانی پہاڑوں کا دلکش منظر بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔جوپڑوسی ملک افغانستان کے ملحقہ علاقہ سپین بولدک سے لیکر پاکستان کے نوشکی علاقے تک پڑے ہیں۔جنوب کی طرف میں بھی ایک بلند تاریخی پہاڑ ہے جو خواجہ عمران بابا کے نام سے منسوب ہے اسکے تفصیلی بحث تاریخی کتب میں بہت اچھی انداز سے بیان کرچکا ہے۔شمال کی طرف میں بھی پہاڑی سلسلے کا خوبصورت منظر ہیں جو سردیوں کے موسم میں برف باری سے ڈھانپے ہوتے ہی فضاء اور علاقے کو خوب زیب بخشتی ہے۔اس پہاڑوں کے دامن میں اور آس پاس بھی بڑی آبادی آباد ہے۔ان پہاڑوں کا سلسلہ چترال بولان سے کابل تک پہاڑوں سے جا ملتی ہے۔اس خوبصورت اور چاروں طرف پہاڑوں کی دامن علاقے کو شہر چمن کہاجاتا ہے۔چمن باڈر اور تجارتی لحاظ سے کاروبار کار کا ایک عظیم منبع ہے۔جسکو جاپان ۔امریکا ۔روس اور چین ودیگر ممالک کے تجارتی سامان در آمد کئے جاتے ہیں۔آبادی کی لحاظ سے چمن میں اکثریت پشتون اقوام کے تین بڑے شاخوں پر مشتمل آبادی قیام پذیر ہے۔جو اچکزئی ۔نورزئی اور نصرت زئی قبیلوں کے نام و نشان سے شہرت رکھتے ہیں۔اندازے کے مطابق تقریباً12لاکھ آبادی ہے۔صوبے اور ضلعے کی سطح پر چمن شہر جو اہمیت کا حامل ہے مگر وہ ترقی اور سہولیات تاحال نہیں دیاگیا ہے۔روزبروز شہر کی رونق اور خوبصورتی وقت کے خطرناک بم دھماکوں اور بدامنی سے تباہی کی طرف جارہاہے۔تاریخ کے بدترین مہنگائی۔۔ بدامنی ۔۔اسٹریٹس کرائمز۔۔ ٹارگٹ کلنگ۔۔ اغواء برائے تاوان۔۔ منشیات کی کھلم کھلے۔۔ آڈے غربت۔۔ بے روزگاری ۔۔ناخوندگی۔۔ پسماندگی ۔۔وغیرہ وغیرہ مسائل کے علاوہ سیاسی مخالفت کا شکار ہے۔وہ جو حق مانگتے ہی اسے جان بحق والی دنیا کو بیھجتے ہیں۔جو آواز اٹھائے اسے اٹھالیتے ہیں۔جو ذرابھی اچھلے اسے دباتے ہیں جوحقوق کا مقدمہ لڑے اس پر خود مقدمہ چلا لیتے ہیں۔چلی ہے رسم کہ کوئی سر اٹھاکے چلے وہ غدار بناکر قتل کردیتے ہیں۔چمن میں عموماً مجرموں کو بااثر اور سیاسی ومالی لحاظ سے طاقت ور ہو تو باعزت طور عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں۔یہ وارداتیں بھی بااثر قوتوں کی کارستانی ہے اسکی روک تھام اور منظرعام پر لانے کیلئے نڈر صحافیوں اور بے باک صحافت کا ضرورت ہے کہ تمام صحافی متحدہوکر ایک لمبی جدوجہد کیلئے اکٹھے ہوجائے ۔خود کو بھی اور عوام کوبھی وقت کے غلامی اور مشکل سے نجات دلائیں۔پہلا قانون فطرت کے مطابق اگر کھیت میں دانہ نہ ڈالا جائے تو قدرت اسے گھاس پھوس سے بھر دیتی ہے اسی طرح اگر دماغ کو اچھی فکروں سے نہ بھراجائے تو کج فکری اسے اپنا گھر بنا لیتی ہے دوسراقانون فطرت کے مطابق جسکے پاس جو کچھ ہوتاہے وہی بانٹتا ہے خوش مزاج افراد خوشیاں غمزدہ افراد غم. علماء کرام علوم وفنون دیندار افراد دین اور خوف زدہ لوگ خوف وہراس بانٹتے ہیں۔اسی طرح تیسرا قانون فطرت بتاتا ہے کہ آپکو زندگی میں جو کچھ بھی حاصل ہوا اسے ہضم کرنا سیکھیں اسلئے کہ کھانہ ہضم نہ ہونے پر بیماریاں ۔۔مال وثروت ہضم نہ ہونے پر ریاکاری بات ہضم نہ ہونے پر دشمنی چغلی اور تعریف ہضم نہ ہونے پر غرور میں اضافہ ہوجاتا ہے۔جسے عداوتیں اور قومی تنازعات جنم لیکر علاقے میں قومیت تعصب اور جنگ و جگھڑوں میں تبدیل ہوتے ہی بہت سے خاندانوں کو متاثرکرتے ہیں۔اسلئے مزھبی اور سیاسی پارٹیز کو چاہیئے کہ وہ چمن شہر کی بقاء کی سیاست پر ترجیح دیں اپنے ذاتی شخصیت پرستی انا پرستی سیاسی قوت ودباؤ اور لالچ سے بالاتر انفرادی خدمات کے بجائے اجتماعی خدمات کرنے میں کردار ادا کریں۔کیونکہ چمن شہر میں ختم نبوت جمعیت علماء اسلام ۔پشتون خوا میپ عوامی نیشنل پارٹی پاکستان مسلم لیگ ق باپ پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن مظلوم اولسی تحریک جماعت اسلامی ۔پاکستان پیپلز پارٹی پی ٹی ایم اسکے علاوہ قومی سطح پر چھوٹے چھوٹے تحریکیں بھی سیاست کے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ان تمام مذھبی سیاسی اور قومی قوتوں کے باوجود چمن شہر باڈر بندش کا مسئلہ صحتی سہولیات کی فقدان۔امن کی بدتر صورت حال۔تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر ساتھ دیگر مسائل کا گھڑ بن چکا ہے ۔اسکی واضح اور حقیقت پر مبنی ثبوت پرنٹ اور سوشل میڈیاء کی رو سے 2018کے الیکشن قرار کردیتا ہے۔کہ جب سے ضلع قلعہ عبداللہ کے قومی سیٹ پر جمعیت علماءاسلام کے رہنماء مولوی صلاح الدین ایوبی اور عوامی نیشنل پارٹی کے سردار اصغرخان کامیاب ہوئے ہی سے چمن شہر کی بدتر صورت حال پر مختلف قسم کے تبصرے اور انکشافات کئے جاتے ہیں بلکہ ملکی سطح پر اس الیکشن کو سلیکشن فراڈ اور سلیکٹید کے القابات سے یاد کیا جاتاہے۔اسکے خیلاف باقاعدہ طور پر ملکی و صوبائی سطح پر بڑے جلسے مظاہرے ریکارڈ ہوئے۔بحرحال میں چمن کی صورت حال اور حالت زار پربات کرتا ہوں کہ دراز عرصے سے اس شہر کی خرابی اور تباہی کے منصوبے تیار کئے جاتے ہیں۔عوامی حقوق کی غاصبانہ اور اقرباءپروری پر تقسیم درتقسیم کا سلسلے نے زور پکڑ لی ہے۔اسکے علاوہ رشوت بھتہ خوری کی فہرست میں نادرا واپڈا ایف سی پولیس ڈیپارٹمینٹس پیش پیش ہیں۔اسی طرح شہر میں اشیاء خوردنوشی کی چیک اینڈ بیلنس بالکل نہیں کیا جاتاہے ۔ناقص میٹریل کی خریدوفروخت کا بازار گرم ہے۔سبزی گوشت پرچون اسٹورز سامان دودھ دہی وغیرہ کے سامان کا من مانی قمیت سے بیھجا جاتا ہے۔جعلی ادوایات غیر مسند ڈاکٹرز سرعام عوام کی جانوں سے کیھلتے رہے ہیں۔سرکاری و پرائیوٹ سطح پر تعلیمی اداروں کی زبو حالی اور باقاعدہ تعلیمی فنڈز میں خوردبرد کا راج چل رہا ہے۔صبح وشام جام ٹریفک میں پھنسے ہوئے مریض اور ایمرجنسی کے افراد کو درپیش مسائل و مشکلات سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی غیرحاضری اور غریبوں کو ادوایات نہ دینے کی شکایات عدالتوں میں ظلم جبر کی فیصلے روز کا معمول اور چمن شہر کے عوام کا مقدر بن چکا ہے۔اب اگر ہم اپنے اس غصب شدہ حقوق یا ان ظالموں کیخلاف اواز اٹھاتے ہیں یا اپنے بچوں کی دو وقت روٹی کی خاطر احتجاج کرتے ہیں تو یہان چمن شہر میں آج کل غداری کا موسم چھایا ہوا ہے۔جو بھی حکومت کی نااھلی یا قومی و صوبائی نمائیندوں اور وزراء کی کرپشن و غیرمیرٹ اقدامات سے پردہ اٹھاتے ہیں یا چمن شہر کی موجودہ بدامنی پر کچھ لکھتے یا سچ بولتے ہی اسکو غدار اور ڈکلیئر کردیاجاتا ہے۔آئین کی رو سے غداری کا مرتکب کون ہے؟ غداری کا یہ آئینی تصور انتہائی احتیاط سے ترتیب دیا گیا ہے اسلئے ہمارے جو اکثر یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر کسی ادارے کیخلاف کوئی بات کریں تو وہ غداری کے زمرے میں اجائے گا۔آئین پاکستان کا آرٹیکل( 6)کہتا ہے کہ ہر وہ شخص غدار ہے جو طاقت کے استعمال یا کسی بھی غیر آئینی طریقے سے آئین پاکستان کو منسوخ تحلیل معطل یا عارضی طورپر معطل کرتا ہے ایسے عمل کرنے کی کوشش اور کرنے والے دونوں غدار ہیں۔اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو جن لوگوں نے اپنے عہدے اور طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے غریب عوام کا جینا حرام کردیا ہے وہ بھی غدار ہیں۔یا جن لوگوں نے خفیہ طریقوں سے عوامی حقوق پر ڈھاکہ ڈال کر غصب کیا ہیں وہ بھی غداری کے اس زمرے میں آئے ہیں۔بلا شبہ اگر ہم عوامی خدمات پر لوگوں کو غدار ٹھہرائیں تو پیچھلے چند مہنے ہمارے سامنے ہیں۔کہ جب عالمی وباء کرونا کی نام سے عوام پر مسلط کرکے تو چمن شہر کے ہر طرف لاک ڈاؤن کا سماتھا۔عوام بے روزگاری سے چیخ رہے تھے۔سب بے روزگار تھی۔عوامی حقوق یا عالمی صحت ادارے کی جانب سے جاری کردہ فنڈز ڈپٹی کمشنر بشیراحمد بنگلزئی اور اسکے مخصوص ٹولے نے ہڑپ کرکے کھایا۔ساتھ ساتھ اسی ڈی سی کو پشتون روایات کا پگڑی بھی پہنایا کرتاتھا ۔ضلعے کا واحد ڈی سی تھا جس نے شہر کے اس بد ترین اور مشکل کے گھٖڑی میں عوام کو کوئی ساتھ اور نہ اقدامات کرکے ٹرانسفر ہوا۔۔دوسری جانب اس عالمی ڈرامے کی نام پر چمن شہر کے عوام کو لوٹاگیا۔اس مشکل وقت میں صوبائی نمائیندوں اور ضلع قلع عبداللہ سے کامیاب ہوئے وزراء کی طرف سے غریب عوام کیساتھ کوئی قابل تسلی بخش اقدامات نہیں ہوئے۔مسلسل چھہ مہنوں کی لاک ڈاؤن اور کرونا وباء سے تحفظات کے متعلق نہ انتظامیے اور نہ وزراء کی کوئی قابل ستائش کردار رہا۔۔۔چمن شہر میں دوسالوں میں کئی بم دھماکے ہوئے ہیں جن میں شہر کے بوڑھے جوان بچے اور عورتیں زخمی ہوچکے ہیں اسکو حکومتی سطح پر کوئی ترجیح نہیں دی گئی اور نہ شہدا کے خاندانوں کو معاوضہ ادا کیا گیا اور نہ زخمیوں کیساتھ کوئی ہمدردی ہوئی ہے۔اب تک ان دھماکوں میں ملوث افراد کی سوراخ بھی نہیں لگایا گیاہے۔بلکہ باقاعدہ طور شہر کی فضاء اور امن برقرار رکھنے کیلئے کئی قوتوں کی جانب سے مزید خراب ہونے کی خطرہ ہے۔تعجیب کی بات تو یہ ہے کہ جب 2019میں افغانستان میں الیکشن ہورہاتھا شام کو 28ستمبرپر بھرے بازار میں جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنماء ایک بااصول سیاستدان ہمیشہ عوام کے درمیان میں صلح کرانے میں مصروف عمل قبائلی شخصیت ممتاز عالم دین حضرت مولانا محمدحنیف کو بہت بے دردی کیساتھ. اپنے دفتر کے مین دروازے میں بم دھماکے سے دو شہریوں سمیت شہید کردیا گیا جسکے تاریخی نماز جنازے و جلسے کے بعد شہید کے قاتلوں کی گرفتاری خالی کھوکھلے وعدوں تک رہ گیا۔ جب ہم چمن شہر کے موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہیں تو دیکھائی دیتا ہے کہ اس شہر کو ایک بار پھر 2008کی صورت حال کی طرف دھکیل رہاہے۔میں فقط اتنی کہہ سکتا ہوں۔کہ{انصاف کرو ورنہ یاد رکھنا حضرت صالح علیہ سلام کی اونٹنی کے قاتل صرف چار لوگ تھے مگر غرق پوری قوم ہوگئی کیونکہ باقی لوگوں کا جرم خاموشی تھی}}۔

You might also like
1 Comment
  1. […] کوئٹہ میں فائرنگ سے شہید ہونے والے نوجوانوں کا قتل ظلم کی انتہاء ہے، نیشنل پارٹی چمن. […]

Leave A Reply

Your email address will not be published.