غزہ میں ایک ہفتے کے اندر جنگ بندی کا امکان، صدر ٹرمپ کا دعویٰ
واشنگٹن – سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیش گوئی کی ہے کہ غزہ میں جاری جنگ آئندہ ایک ہفتے کے اندر بند ہو سکتی ہے۔ وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ حال ہی میں ان شخصیات سے رابطے میں رہے ہیں جو جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے سرگرم ہیں۔
ٹرمپ کے بیان کے بعد یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ اسرائیلی وزیر برائے اسٹریٹجک امور، رون ڈرمر آئندہ ہفتے واشنگٹن کا دورہ کریں گے۔ ان کے دورے کے دوران غزہ اور ایران سے متعلق امور زیر بحث آئیں گے۔ ٹرمپ نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ حماس کے خلاف جنگ کو ختم کرے اور ابراہام معاہدوں کے دائرے کو مزید بڑھائے۔
انہوں نے غزہ کی موجودہ صورتحال کو “انتہائی خراب” قرار دیتے ہوئے بتایا کہ امریکہ نے “غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن” کو 3 کروڑ ڈالر کی امداد فراہم کی ہے، جو گزشتہ ایک ماہ سے جنگ زدہ علاقوں میں خوراک تقسیم کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا نظریاتی طور پر اس تنازعے میں فریق نہیں، لیکن انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے مدد ناگزیر ہے۔
صدر ٹرمپ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ امداد کی ترسیل کے دوران چوری کے واقعات بھی ہو رہے ہیں، تاہم انہوں نے فاؤنڈیشن کے نئے نظام کو “کافی بہتر” قرار دیا۔
دوسری جانب یہ فاؤنڈیشن اسرائیلی حملوں کے باعث شہری ہلاکتوں کے الزامات کا سامنا کر رہی ہے۔ بعض ممالک اس سے دوری اختیار کیے ہوئے ہیں، کیونکہ خوراک لینے کے لیے شہریوں کو اسرائیلی فوج کے زیر قبضہ علاقوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
اقوام متحدہ کے زیر انتظام امدادی نظام میں بھی بدانتظامی اور لوٹ مار کی شکایات سامنے آئی ہیں۔ امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل امداد کی مقدار میں اضافہ کرے تو مسائل میں نمایاں کمی آ سکتی ہے۔
اسرائیل کا مؤقف ہے کہ حماس امداد چراتی ہے اور اپنے جنگجوؤں میں تقسیم کرتی ہے، تاہم حماس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق، پچھلے ایک ماہ میں روزانہ اوسطاً صرف 56 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہو سکے ہیں، جو وہاں کی ضروریات کے مقابلے میں انتہائی ناکافی ہیں۔
یاد رہے کہ اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے جواب میں غزہ پر فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ اس حملے میں 1,200 افراد ہلاک اور 251 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
تاحال تقریباً 50 یرغمالی حماس کی قید میں ہیں، جن میں 20 زندہ، 28 کی لاشیں موجود ہیں، جبکہ باقی کی حالت غیر یقینی بتائی جا رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق، حماس اب بھی ایک اسرائیلی فوجی کی لاش سنبھالے ہوئے ہے جو 2014 میں ہلاک ہوا تھا۔