برق گرتی ہے تو بیچارے غریبوں پر

0 179

مجھے چند روز سے روزانہ حب چوکی سے کراچی جانے کا اتفاق ہوا ہے کراچی میں مختلف جگہوں پر جانے کے لئے میں نے ریڈ بس سے سفر کیا ہے مختلف روٹس یوسف گوٹھ سے ٹاور صدر نمائش گلستان جوہر موسمیات کورنگی لسبیلہ غرض کہ کراچی کے کئی علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا اس آرام دہ سفر کے دوران بس میں تو یہی دعا مانگتا رہا یا اللہ یہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کے لئے باعزت باوقار اور انتہائی آرام دہ محفوظ سفر کا یہ ذریعہ ہمیشہ قائم رہے اس طرح سروس کی دستیابی اس دور میں ہم جیسوں کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں ہے یا اللّہ یہ سروس جاری رہے اور اس میں بہتری آئے اور گورنمنٹ کو چاہیے کہ سروس میں مزید بہتری لائے جیسے کہ بسوں کے روٹ ٹائم ٹیبل عملے کی اخلاقی تربیت بسوں کے اوقات کار اور روٹ کے بارے میں معلومات عام شہری کے علم ہو تاکہ وہ آسانی کے ساتھ مطلوبہ جگہ پر پہنچ کر اس آرام دے سفر سے مستفید ہو سکیں
اسی طرح پھر ایک روز میں نے مختلف اوقات میں انہی روٹس پر جانے کےلئے میں نے پورا دن بائیکیا کا استعمال کیا بائیکیا پر سواری کے دوران صحافتی رگ کی بدولت بائیکیا چلانے والوں سے جب حال احوال کیا ان سے ان کے کاروبار مسئلے مسائل پر بات چیت کی تو کئی تکلیف دے باتیں سامنے آئی ہیں ان میں سے کئی ایک نے بتایا کہ وہ ملازمت کرتے ہیں لیکن اس کمر توڑ مہنگائی میں ایک ملازمت سے کام نہیں چلتا ہے مجبوراً دو تین جگہوں پر کام کرنا پڑتا ہے جب میں نے پوچھا کہ آپ لوگوں کو یہاں پر کیا مسائل درپیش ہیں تو تقریباً سب ہی نے یہی بتایا کہ مہنگائی روزگاری بد امنی جیسے مسائل سے وہ لوگ دوچار ہیں اس کے علاوہ انھوں نے بتایا کہ ہم بائیکیا والوں کو جو سب سے زیادہ تکلیف ہے وہ کراچی پولیس خاص کر ٹریفک پولیس اہلکاروں سے بقول ان بائیکیا والو کے ان پولیس والوں نے ان کا جینا اجیرن کر دیا ہے چونکہ میں پورا دن مختلف روٹس پر ان بائیکیا والو کے ساتھ رہ کر پولیس اور ٹریفک اہلکاروں کے کرتوتوں کا قریب سے جائزہ لیا یہاں تک بعض اہلکاروں کے ساتھ اس طرح کی زیادتیوں پر
بحث و مباحثہ بھی ہوا تاہم یہ دیکھ کر میں حیران اور پریشان ہوگیا کیونکہ میں نے دیکھا کہ لٹنے اور لوٹنے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق اندرون سندھ سے ہے یعنی
اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں
غریب بائیکیا والو سمیت چھوٹی گاڑیوں خاص کر اندرون سندھ بلوچستان ملک کے دیگر علاقوں سے آنے والے چھوٹی گاڑیوں والے ان ظالموں کے زیر عتاب رہتے ہیں میں نے تمام دن یہ دیکھنے کی کوشش کی کہیں کوئی پولیس ٹریفک والے اہلکار کسی ریو یا لینڈ کروزر پراڈو جیسے کسی قیمتی گاڑی والے کو کو روکیں کہیں نظر نہیں آئے جس پر ایک سوال تو بنتا ہے کیا یہ بڑی گاڑیوں والے ٹریفک قوانین کی مکمل پاسداری کرتے ہیں اور نتاشا اور ان جیسے افراد بائیکیا یا چھوٹی گاڑیاں چلاتے جواب ہوگا ہرگز نہیں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے زیادہ تر مرتکب بڑی گاڑیوں والے پائے گئے لیکن یہاں پر برق گرتی ہے تو بیچارے بائیکیا یا چھوٹی گاڑی والوں پر اور عجیب بات یہ ہے کہ
غریبوں کے نشیمن پہ بجلیاں گرانے والے بھی زیادہ تر اہلکار اندرون سندھ سے ہیں واضح رہے کہ اندرون سندھ یا بلوچستان سے لوگ بڑے پیمانے پر صرف اس وجہ اپنی گاڑیوں پر کراچی نہیں آتے ہیں کیونکہ ہر چوک چوراہے سگنل پر پولیس والے خواہ مخواہ تنگ کرتے ہیں جس کی وجہ سے اپنی گاڑیوں کے ہوتے ہوئے بھی لوگ مجبوراً کراچی میں بسوں اور ٹیکسیوں پر دھکے کھانے پر مجبور رہتے ہیں واضح رہے آج کل کے حالات میں باہر سے کراچی آنے والوں میں زیادہ تر لوگ علاج ومعالجہ یا پھر کاروبار کے سلسلے میں آتے ہیں باقی گھومنے پھرنے سیر سپاٹے کا دور گزر گیا ہے اب صرف مجبوری ہی لوگوں کو کراچی لے آتی ہے مجبور لوگوں کے ساتھ کراچی پولیس خاص کر ٹریفک پولیس کا یہ رؤیہ بہت ہی افسوسناک عمل ہے پریشانی کی بات تو یہ ہے اس طرح کی حرکتیں زیادہ تر اندرون سندھ سے آنے والے اہلکار ہی کرتے ہیں
وہ مجبور لوگوں کی بد دعاؤں کے ساتھ ہم سب کے لیے بد نامی کے باعث بھی بن رہے ہیں میں نہیں سمجھتا ہوں کہ پولیس میں موجود ان کالی بھیڑوں کے کرتوتوں سے پولیس کے اعلیٰ حکام بے خبر ہیں اور اگر واقعی بے خبر ہیں تو پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی تجارتی تعلیمی اقتصادی کاروباری مرکز دنیا کے چھٹے انتہائی اہمیت کے حامل بڑا شہر کراچی ہے اگر کراچی میں رہنے والوں یا کراچی میں آنے والوں کے مسائل اور تکالیف سے نا واقف انجان ہیں تو پھر میں نہیں سمجھتا ہوں کہ ان کو اہم اعلیٰ عہدوں پر رہنے کا حق نہیں ہے
ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کے اعلیٰ حکام خود چھوٹی گاڑیوں یا موٹر سائیکل پر بیٹھ کر بائیکیا لکھے ہیلمٹ پہن کر شہر میں نکل کر اپنے اہلکاروں کے کرتوت دیکھ کر فیصلہ کریں کہ کیا کارروائی کرنا ہے میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ اندرون سندھ سے آئے ہوئے تمام پولیس اہلکار خراب ہیں یا تمام کراچی پولیس والے ایک جیسے ہیں بلکل بھی نہیں البتہ اس وقت پولیس اور ٹریفک پولیس میں کالی بھیڑوں کی اکثریت معلوم ہوتی ہے جبکہ عام پبلک میں یہ تاثر عام ہے کہ ٹریفک پولیس اہلکاروں کی لوٹ مار میں پولیس کے اعلیٰ حکام بھی شریک ہیں لہذا اس بدنامی کے دھبے کو مٹانے کے لئے پولیس کے اعلیٰ حکام کو ہر حال میں ایکشن لینا چاہیے

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.