قومی یکجہتی آج کی اہم ضرورت ہے
اللہ رب العالمین نے دنیا میں انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیتے ہوئے اسے عقل سلیم سے نوازا اور پھر اس کے لئے زمین اور آسمان کی وسعتوں کو مسخر کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے سید الانبیا حضرت محمد الرسول اللہ کو رشدو ہدایت کا مینارہ ء نور بنا کر ہم میں مبعوث فرمایا، اور ہماری رہنمائی کے لیے قرآن حکیم کو نازل کیا ۔ایسے وقت میں جب خطہ ء عرب گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا ۔ہر طرف برائی اور ظلمت کا دور دورہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو دنیا میں بھیجا۔ اسی طرح خطہ سرزمین پاکستان بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک ہے جو کلمہ طیبہ کے نام پر معرض وجود میں آیا۔قائداعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقا نے ایک طویل جدوجہد کے بعد مسلمانان برصغیر کے لئے ایک علیحدہ وطن پاکستان کی شکل میں حاصل کیا ۔یہ وطن یونہی پلیٹ میں رکھ کر ہمیں کسی نے نہیں دیا ، اس کے لئے ماوں نے اپنے بیٹوں، بہنوں نے اپنے بھائیوں غرضیکہ بیویوں نے اپنا سہاگوں کو لٹایا، پھر جا کر پاکستان ملا۔پاک وطن کے حصول کے لئے خون کی ندیاں بہیں،ہم ان لازوال قربانیوں کو فراموش نہیں کر سکتے۔
ماضی کو دیکھتے ہوئے موجودہ صور ت حال میں پاکستان کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہم علاقائی اورسرحدی خطرات میں گھرے ہوئے ہیں۔دہشت گردی کے واقعات میں حالیہ دنوں پھر اضافہ ہو چکاہے، جس میں سکیورٹی فورسز کے جوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ملک دشمن عناصر سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے ۔فروعی اور گروہی ، لسانی منافرت ایک الگ مسئلہ ہے۔ عالمی منفی پراپیگنڈہ جیسے موذی مرض کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں ہماری ملی، سیاسی اور عسکری قیادت کو ادراک ہونا چاہیے کہ صرف قومی یکجہتی کے ذریعے ہی ملک کو منجدھار سے نکالا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب ملک میں بدامنی نے ملک کی اقتصادیات کو بھی بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ہمیں سیاسی راستے کو ہموار کرنے کی پالیسی کو اپنا کر پاکستانی معیشت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ پاکستان کے امیج کو بحال کیا جا سکا ۔ان حالات کے ذمہ دار کون لوگ ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنی جان نہیں چھڑا سکتیں۔ ان کے ذمے جو الزام آتا ہے وہ انھیں قبول کرنا پڑے گا۔ اگر اس ملک میں اصلاحات نہیں کی گئیں یا بیوروکریسی ٹھیک نہیں ہوئی، ریاست کا نظام ٹھیک نہیں کیا گیا، تو سیاستدانوں کے اوپر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔عسکری ، سیاسی قیادت بیورو کریسی اور ہرمکتبہ ء فکر سے منسلک شخصیات اور عوام سب کو ہوش کی راہ اختیار کرنی چاہیے ۔ تاکہ ملک میں خوشگوار فضا کی کونپلیں پروان چڑھ سکیں۔ اقوام عالم میں اپنا سکہ جمانے کے لئے سب سے پہلے ہمیں آپس کے اختلافات کو ختم کر کے ملکی سالمیت کو مضبوط بنانا ہو گا۔ملک کو نازک صورتحال سے نکالنے کے لئے کسانوں، مزدوروں، طلبہ غرضیکہ ہر شعبہ ہائے زندگی کے افراد کو آگے آنا ہو گا۔
ملک میں مہنگائی کی صورت حال دیکھیں تو یہ جن بوتل میں بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔مہنگائی کے باعث عام آدمی غربت کی چکی میں پس چکا ہے۔اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو شدید عوامی ردعمل کسی بھی سنگین صورت حال کو پیدا کرنے میں معاون ہو سکتی ہے۔نتائج خدانخواستہ انتشار کی جانب جا سکتے ہیں اور ملک میں افراتفری پیدا ہو سکتی ہے۔پاکستان کو اس وقت کیا فائدہ ہو رہاہے اور کیا نقصان ، ہماری سوچ منفی پراپیگنڈہ میں مبتلا ہو چکی ہے۔ آخر میں یہ وقت کی ضرور ت ہے کہ تمام طاقتیں مل بیٹھ کر اس سنگین نوعیت کے حالات کا جائزہ لیں کیونکہ تشدد کے ذریعے سیاست کا پودا کبھی نہیں پھلتا اور پھولتا ، جمہوری رویوں سے ہی صورت حال کو بدلا جا سکتا ہے۔