فوجی عدالتیں، انصاف اور سپریم کورٹ
فوجی عدالتیں، انصاف اور سپریم کورٹ
عدل انصاف ہے، اور انصاف سب سے بالاتر ہے۔ قانون وہی جنہیں مختلف حالات و واقعات سے عقلی دلائل کے ساتھ منتج کرکے ان پر فیصلے دیئے جاتے ہے۔ مگر انکا تعلق بھی عقل کے ساتھ ہوتا ہے اور کسی بھی فرد کےعقل کا تعلق نیک یا پھر غلط صحبت پر منحصر ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے وہ لوگ ہوتے جنہیں آفاقی نظام جو برھان ہے ایک دلیل ہے دنیا میں رہن سہن کے لئے، ان سے چِڑ ہوتی ہے جبکہ یہی لوگ مغرب کے نظام سے بدرجہ اتم نہ صرف متاثر ہے بلکہ انکی پرچار بھی ایسے کرتے ہیں کہ جیسے ہمارے پاس ویسٹ کے نظام کے علاوہ کوئی اور چارہ نا ہو۔
پاکستان میں دہشت گردی کی تباہ کاریوں سے کون واقف نہیں، کونسا ایساں شہر یا پھر علاقہ ہوگا جہاں معثوم جانوں کو دہشتگردی کے بھینٹ نا چڑھایا گیا ہو۔ پھر چاہے وہ عام شہری ہو یا پھر ہماری پولیس، ایف سی، رینجرز کے ساتھ ساتھ ہماری انٹیلیجنس ایجنسیوں اور افواج پاکستان کے جوان ہو۔ کوئی ایساں طبقہ ہو جو دہشتگردوں کے نشانے پر نا ہو۔ یہاں تک کہ مرد عورت اور چھوٹے چھوٹے بچے بھی اس ناسور سے متاثر ہوئے بغیر رہ نا سکے۔ تخریب کاریوں کے پیچھے وہی ملک دشمن عناصر ہے جنہیں گرفتار تو کیا جاتا ہے مگر ہماری عدالتیں انہیں واپس چھوڑ دیتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ عدالتوں میں بیٹھے ججز کو بھی سیکورٹی خدشات لاحق ہوتے ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ میں بطور چیف جسٹس رہنے والےمحمد نور مسکانزئی کو انکے ابائی شہر خاران میں انکے گھر سے سو فٹ دور واقع مسجد میں جمعہ کے روز قتل کردیا گیا۔ جس کی زمہ داری بلوچ کالعدم تنظیم نے لیتے ہوئے کہا تھا کہ جسٹس مسکانزئی کو توتک کمیشن کے فیصلے پر قتل کیا گیا۔
بلوچستان میں اس سے پہلے بھی کئی ججز قتل ہوچکے ہیں۔ جنوری 2000ء میں بلوچستان ہائی کورٹ کے سینیئر جج جسٹس نواز مری کو کوئٹہ میں نامعلوم افراد نے قتل کردیا تھا۔ فروری 2007ء میں کوئٹہ کے ڈسٹرکٹ کورٹ کے کمرہ عدالت میں خودکش حملے میں ایک سینیئر سول جج عبدالواحد درانی اور سات وکلاء سمیت 15 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اگست 2012ء میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ذوالفقار نقوی کو کوئٹہ میں محافظ اور ڈرائیور سمیت قتل کیا گیا۔ نومبر 2014ء میں انسداد دہشتگردی عدالت کوئٹہ کے جج نذیر احمد لانگو کی گاڑی پر بم حملے میں ایک شخص ہلاک اور دو محافظوں سمیت 30 سے زائد زخمی ہوئے تھے تاہم وہ محفوظ رہے۔ اگست 2016ء میں وفاقی شرعی عدالت کے جج ملک ظہور احمد شاہوانی بھی کوئٹہ کے زرغون روڈ پر ایک بم حملے میں بال بال بچ گئے تھے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ججز کو ہمیشہ سے انکے فیصلوں کی بنیاد پر ٹاگٹ کیا جاتا ہے۔ مگر حکومتیں انہیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
پاکستاں میں اس وقت فوجی عدالتوں کو لیکر ایک مخصوص طبقہ پروپیگنڈوں کو دوام دے رہی ہے جن کا تعلق انہی جماعت سے ہے جو 9 مئی کے سانحے میں پیش پیش رہی۔ انہی کی دور حکومت میں یہی فوجی عدالتیں کام کرتی رہی مگر اس حکومت نے ان عدالتوں کو ختم کرنے کے لئے کسی بھی اقدام اٹھانے سے گریز کیا۔ بد قسمتی سے پاکستان شاید دنیا میں وہ واحد ملک ہوگا جہاں پر پروپیگنڈوں کی ایک بہتات ہے۔ جس کے جی میں جو ائے وہ کرے مگر روکنے والا کوئی ایک بھی نہیں ہوگا۔ دنیا کے کہیں ممالک میں فوجی عدالتیں قائم ہوئی۔ جن میں ترکی، انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھوٹان، نیپال، میانمار، مصر، لبنان، بحرین وغیرہ شامل ہے۔ اب یہاں پاکستان میں ائے روز ہمارے دفاعی اداروں کے اہلکار شہید ہوتے ہے۔ شہدا کی ان خاندانوں کے ساتھ بجائے اظہار عقیدت کرنے کے انہیں مختلف طریقوں سے اذیت پہنچائی جاتی ہے۔ ایسے لوگ جنہوں نے شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کی، جنہوں نے سول اور فوجی تنصیبات کو نشانہ بناکر اقوام عالم میں پاکستان کا تمسخر اڑایا جن کے ایسے اقدامات سے ان شہدا فیملیز کو ذہنی طور پر ٹارچر کیا گیا کو کیونکر تحفظ فراہم کی جارہی ہے۔ جو گنہگار ہے انہیں سزا ملنی ضرور ملنی چاہیے اور جو بے قصور ہے انہیں رہا کرنا چاہیے۔
یہ تاثر کیونکر قائم کی جارہی ہے کہ ہمارے دفاعی اداروں میں انصاف فراہم کرنے کی شاید کوئی صلاحیت موجود نہیں، یا پھر یہ کہ وہ انصاف فراہم کرنے کے بجائے انتقام لینے کے درپے ہے۔ اس شور و غوغا سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ اس مخصوص جماعت کی حتی الامکان کوشش ہے کہ جو بویا ہے اسکے اثرات کو کاٹنے سے اپنے آپ بچایا جاسکے۔ عدالت کا کام عدل و انصاف فراہم کرنا ہوتا ہے۔ اگر ملٹری عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہو تو انہیں روکا کیو جاتا ہے؟ کیا سپریم کورٹ کو سانحہ 9 مئی پر ازخود نوٹس نہیں لینا چاہیے تھا کہ جنہوں نے شرپسندی کی ہر حد پار کی؟ کیا ملک ان حالات کا متحمل بن سکتا تھا خصوصا جب ملکی حالات انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہو؟ معیشت کی بدحالی، سیاسی عدم استحکام، معاشرتی اور تہذیبی اقدار کی پامالیاں جب عروج پر ہو اور اوپر سے ایک شدت پسند جماعت ایسے حالات کا فائدہ اٹھا کر ملک میں افرا تفری کا ماحول بنائے۔ یہ وہ حالات تھے کہ جس پر اعلی عدلیہ کو نوٹس لینا چاہئے تھا تاکہ سیاسی جماعت کی ایسی کارستانیاں کہ جن کے سبب ہمارے دفاعی اداروں کی حوصلہ شکنی ہوئی بلکہ ان کارستانیوں سے شہدا کی فیملیز کو شدید دھچکا لگا سے روکا جاسکتا۔
بہرحال صوبہ بلوچستان نے ہمیشہ سے اپنے دفاعی اداروں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی تجدید ہمیشہ سے کرتی ارہی ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے عام شہریوں کے ٹرائلز سے متعلق آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نو اور دس مئی کے واقعات میں گرفتار تمام ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں سے فوجداری عدالتوں میں بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ فوجی عدالتوں کو بحال کرنے کے لئے شہدا فورم بلوچستان نے پٹیشن دائر کرتے ہوئے پٹیشن میں کہا ہے کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد شہدا کے لواحقین میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جس سے شہدا فورم فوجی عدالتوں پر مقصود ہوکر عدالت سے استدعا کرتی ہے کہ انہیں بحال کیا جائے تاکہ 9 مئی کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے۔ پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برسوں میں مسلح افواج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بے رحمی سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلح افواج کے ہزاروں جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا،️ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں شہریوں کا جانی نقصان ہوا ہے، شہدا اور زخمیوں کی تعداد میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، سپریم کورٹ کی جانب سے فوجی عدالتوں کو کالعدم کرنے کا فیصلہ آئین اور قانون کی روح کے خلاف ہے، فوجی عدالتوں کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ زمینی حقائق اور صورتحال کو مدنظر رکھنے میں ناکام رہا ہے، پٹیشن کے مندرجات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے جس معزز پانچ رکنی بنچ نے یہ فیصلہ سنایا وہ اپیل میں نہیں بیٹھ سکتے، سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ بڑے بنچوں کی طرف سے کیے گئے فیصلوں پر نظر ثانی نہیں کر سکتا، آرمی ایکٹ کے تحت کورٹ مارشل کے طریقہ کار کو وفاقی شرعی عدالت نے بھی اسلامی اقدار اور بنیادی حقوق سے ہم آہنگ قرار دیا ہے۔
[…] فوجی عدالتیں، انصاف اور سپریم کورٹ […]
[…] فوجی عدالتیں، انصاف اور سپریم کورٹ […]