افسانہ۔۔۔غزالہ
از:قلم
نورین خان پشاور
جیسے ہی سورج سنہری کرنوں کے ساتھ افق کے پار ڈوب گیا، گاؤں پر اپنی ممتا بھری ایک گرم روشنی اور چمک ڈالتے ہوئے، ہوا سکون اور توقع کے احساس سے متاثرکن ہو کر چل رہی تھی اور پودے ہوا کے نرم نرم جھونکوں سے لہرا رہے تھے۔ دن بھر کی محنت سے تھکے ہوئے گاؤں والے، گاؤں کے ایک بڑے میدان میں جمع ہوتے، ان کے چہرے ڈوبتے سورج کی نرم رنگت سے منور ہوتے۔اور گاوں کے بوڑھے اور بزرگ وہاں بیٹھ کر اپنے دن بھر کی مصروفیات پر گفتگو کرتے،
بچے، اپنے گلیوں میں گونجتے،کھیلتے ان کے قہقہے، دھندلی روشنی میں سورج کی کرنوں کا پیچھا کرتے۔بوڑھے اپنے برآمدے پر سکون پاتے، اپنی کرسیوں پر ہلکے ہلکے، گزرے دنوں کی یاد تازہ کرتے۔ تازہ پکی ہوئی روٹی کی مہک مقامی گھروں سے اٹھتی ہے، جو راہگیروں کو اپنی طلسماتی خوشبو سے مائل کرتی اور گاوں والوں کا دل تازی تازی روٹی کے لئے مچلتا۔گاؤں ایسا لگتا تھا جیسے ڈوبتے سورج نے اس کی روح میں نئی زندگی پھونک دی ہو۔
جیسے جیسے مغرب کا وقت قریب آتا، گاؤں والے ایک کڑکتے الاؤ کے گرد جمع ہوتے، ان کے چہرے ٹمٹماتے شعلوں سے چمک اٹھتے۔کہانیاں بانٹ کے ایک دوسرے کو سنائی جاتی، داستانیں نسل در نسل منتقل ہوئیں اور آج بھی بچے بزرگوں سے مزیدار اور دلچسپ کہانیاں ںسنتے،گاؤں میں شام کا منظر گرمجوشی اور دوستی اور رواداری کا منظر پیش کرتا، ایک ایسا لمحہ جہاں وقت ساکت سا لگتا تھا۔کہ یہ وقت کبھی نا گزرے اور سب یوں ہی مزے سے بات کریں،کڑکتی الاؤ کے گرد بیٹھے کر گرم،گرم چائے پیئے،اور مونگ پھلی کھائیں ۔
غزالہ کو اپنا گاوں بہت پسند تھا۔وہ ہمیشہ اپنے سہلیوں کے ساتھ درختوں کے جھنڈ میں کھیلتی اور جھولا جھولتی،غزالہ کو کھیت کھلیان،پودے،پھول بہت اچھے لگتے تھے۔وہ ہمیشہ اپنی سہیلی مہناز سے کہتی کہ اللہ پاک نے جو سورج بنایا ہے یہ تمام دنیا کو منور کرتا ہے،اور تمام عالم میں اپنی روشنی بکھیرتا ہے۔
اللہ پاک نے چاند ستارے بنائے ہیں جو رات کی اندھیری میں دن کی طرح اجالا کر دیتے ہیں۔مجھے یہ سب بہت اچھا لگتا ہے۔
اور اس طرح، جیسے ہی سورج اپنی آخری الوداعی، آسمان کو گلابی اور نارنجی رنگوں سے منور کر رہا ہو، گاؤں والے منتشر ہو جائیں گے، اور اپنے ساتھ ایک اور سحر انگیز شام کی یادیں لے کر اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے۔وہ اپنے عاجزانہ ٹھکانوں میں آرام کرینگے اور سو جائیں گے، دل اس خوبصورتی کے لیے تشکر سے بھرے ہوں گے جس نے انھیں گھیر رکھا تھا۔کیونکہ اس گاؤں میں شام کا وہ منظر جب سورج غروب ہو رہا تھا صرف ایک لمحہ نہیں ہوتا تھا بلکہ ان سادہ خوشیوں کی یاد کا پورا خزانہ ہوتا تھا جس نے زندگی کو واقعی جادوئی بنا دیا تھا۔
غزالہ اپنی عادت کے مطابق شام کے وقت اپنی سہلیوں کیساتھ مگن ہوتی۔مگر جیسے ہی مغرب کی اذان ہوتی، اس کی تمام سہلیاں گھروں کو لوٹ جاتی۔مگر غزالہ وہاں درختوں اور پودوں کو پانی دیتی۔ان میں سے کئی پھول کے پودے،تو غزالہ نے خود اگائے تھے،اس لئے وہ پودوں کا بہت خیال کرتی تھی۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں رقص کرنی لگی۔تھوڑی دیر میں آسمان کالے بادلوں میں چھپ گیا۔ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی۔غزالہ اس منظر کو فطرت کی رنگین نوائی سمجھ کر مزے لینے لگی کیونکہ اس کو قدرت کی حسین رعنائیوں سے بےحد پیار تھا۔اسے ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے درختوں کی شاخوں سے، اور ہوا کی پرسرار سنسناہٹ سے، اور دریا کے بےقابو موجوں سے، دلفریب نغمے اٹھ رہے ہیں۔اور اس کی روح کو مست کر رہے ہو۔
غزالہ بیٹی موسم ٹھیک نہیں ہے، بارش ہونی والی ہے بٹیا،اور مغرب کا وقت ہے، اس وقت لڑکیاں درختوں کے نیچے کھڑے نہیں ہوتی بٹیا رانی، گھر لوٹ جاو،باقی پانی کل دے دینا۔اور ویسے بھی آج تو پودوں کو قدرتی پانی مل رہا ہے۔دیکھو بارش برسنی والی ہے۔
جی اچھا کریم کاکا گھر جاتی ہوں۔
آ گئی غزالہ! کتنی بار کہا ہے، کہ جوان جہاں لڑکی مغرب کے وقت باہر نہیں نکلتی،مگر تم ہو کی میری بات مانتی نہیں،یہ اچھے لچھن نہیں۔
ہمیشہ کیطرح غزالہ کو اپنی دادی سے ڈانٹ سننی پڑی۔مگر وہ ان سنی کر دیتی۔
اپنے گیلے بالوں کو ڈوپٹے سے خشک کرتے ہوئے بولی اماں،اماں ایک کوپ چائے کا مل جائے گا؟
اور ماں ہمیشہ کیطرح گرم گرم چائے اور میٹھی گڑ کی روٹیاں اسکے سامنے رکھ دیتی۔
غزالہ کا بہت ہی نرم دل تھا،ہر کسی کی مدد کرنا اسکو اچھا لگتا تھا۔غزالہ اپنی ہم عمر ساتھیوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی،اسے قدرت نے عظیم محبت بھرا دل دیا تھا۔جو ہر کسی کی تکلیف پر تڑپتا،وہ بڑی ذہین اور ملنسار واقع ہوئی تھی۔اسکے قہقہوں سے اکثر گاوں کی فضا گونج اٹھتی تھی۔
جیسے جیسے دن ڈھلتا ہے، گاؤں والے رات کے کھانے کی تیاری کرنے لگتے ہیں۔عورتیں رات کا کھانا پکانے میں مصروف ہیں،جبکہ مرد اپنے مویشیوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہوتے ہیں۔ بچے ادھر ادھر بھاگتے، کھیلتے اور ہنستے، سورج کی آخری کرنوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔آج بھی غزالہ ماں کیساتھ کاموں میں مصروف ہو گئیں۔ہمیشہ کیطرح اس نے آٹا گوندھا اور سبزی کاٹی۔
اماں چولہے میں آگ دہکا لو سبزی کاٹ لی ہے بس لا رہی ہوں۔جلد پکا لینا مجھے بھوک لگی ہے۔
غزالہ میری بچی سارا دن تم کالج میں پڑھتی ہو، اور شام کو کپڑے سیتی ہو،مگر پھر بھی ہمارا گزارہ نہیں ہوتا،جب سے تمھارے والد کا انتقال ہوا ہے ہم پر تو جیسے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔جو رشتہ دار پہلے خیر خبر لیتے تھے وہ بھی اب جان چھڑا کر رستہ بدل لیتے ہیں۔
بس بہو یہ زمانہ ہی ایسا ہے تم کیوں اپنا جی جلا رہی ہو،رب سب خیر کرے گا۔
غزالہ یہ باتیں سن کر پریشان ہو جاتی، کہ میں اکیلے کیسے یہ ذمہ داریاں اٹھاونگی۔اماں گھروں میں کام کاج کرکے زندگی کی گاڑی چلا رہی تھی۔ اور اوپر سے دو،دو کھانے والے اور۔
دوسرے دن جب غزالہ پودوں کو پانی دینے کھیتوں میں گئی، تو اسکی سہیلیوں نے اسکا خوش دلی سے استقبال کیا،اور اسے جھولے پر بیٹھایا،مگر اس وقت غزالہ کا چہرہ اترا ہوا تھا۔اور اس کی پیشانی سے خزن و ملال کے آثار نمایاں تھے۔سہلیوں نے بہت پوچھا مگر غزالہ نے جواب نا دیا۔
ساون کے دن تھے،کالی،کالی گھٹاوں کا آسمان پر راج تھا۔ہلکی ہلکی بوندیں زمین پر گرنے لگی،اور زمین کی سوندھی،سوندھی خوشبو چارسو پھیل گئی۔گاوں کی کھلی فضا اور پھولوں کے پودے اور پیڑ میں جھولا اور شرارتی اور شوخ سہلیوں کا ساتھ تھا۔اچانک تیز طوفانی بارش شروع ہو گئی۔ غزالہ اپنے سہلیوں کیساتھ بارش میں ناچنے لگی۔ اور اسکا لباس پیلے جارجٹ کا ڈوپٹہ اور گہرا نیلے رنگ کا کرتا جو بارش میں مکمل بھیگ چکا۔
دھت رے۔۔۔آج تو میں پودوں کو پانی بھی نہیں دے پاونگی، ظاہر ہے بارش جو رہی ہے۔جیسے ہی مغرب کی اذان سنائی تھی،سب لڑکیاں اپنے گھروں کو لوٹ گئی۔مگر غزالہ اپنی چیزیں سمیٹ رہی تھی اور بارش کے تھمنے کا انتظار کرنے لگی۔غزالہ جس کا وجود مکمل بھیگ چکا تھا اور لباس بھی باریک تھا اسے بہت سردی لگنے لگی۔
اچانک غزالہ درخت کے نیچے بیٹھ گئی۔ مغرب کا اندھیرا چھانے لگا۔جیسے ہی غزالہ اٹھی اور جانے لگی۔تو اچانک پیچھے سے آواز آئی۔
غزالہ۔۔۔۔۔۔۔
غزالہ نے طویل سانس لے کر اپنے بالوں سے پانی چھڑکتے ہوئے بولی جی کون؟
پھر سے آواز سنائی دی غزالہ۔۔۔۔
غزالہ نے پیچھے دیکھا تو کوئی نا تھا۔سامنے دیکھا تو میدان خالی تھا، اور بارش ہلکی، ہلکی ہو رہی تھی۔غزالہ جلدی،جلدی وہاں سے بھاگی اور گھر چلی گئی۔گھر پہنچتے ہی اسے بہت تیز بخار ہو گیا۔ساری رات اسکی ماں اسکی پٹیاں کرتی رہی، مگر دو دن مسلسل وہ بخار میں تپتی رہی۔اور تیسرے دن اسکی طبیعت بحال ہوئی تو اپنے معمول کے کاموں میں لگ گئی۔
ایک دن وہ کالج سے گھر آرہی تھی تو راستے میں اسے ایک بوڑھا آدمی ملا بولا غزالہ بیٹی تم ہو؟
وہ بولی جی میرا ہی نام غزالہ ہے۔
بیٹی یہ لفافہ لو اس میں تمھاری امانت ہے۔
اور یہ کہہ کر وہ بوڑھا آدمی چلا گیا۔
گھر آ کر غزالہ نے لفافہ کھولا تو اس لفافے سے ایسی محسور کن،مدھوش کن خوشبو محسوس ہوئی جس نے اسکی روح تک کو معطر کر دیا تھا۔
ایک گلاب کا پھول تھا اور پورے تیس ہزار روپے تھے۔ایک ساتھ اتنے بڑی رقم دیکھ غزالہ بہت حیران ہوئی مگر سوچنے لگی چلو اچھا ہوا،اس سے ہماری گزربسر تھوڑی آسان ہو جائے گی۔اس نے وہ سارے روپے الماری میں سنبھال کے رکھے اور کچھ سے گھر کا سودہ سلف،راشن وغیرہ خریدا اور اپنے قرضے چکائے۔
گاوں کا ماحول بہت اچھا تھا۔ ساون کے دن تھے۔ راتوں میں تھکے ہارے بوڑھے،بچے اور جوان گلیوں میں چارپائی رکھ کے بیٹھ جاتے،اور گپ شپ لگاتے۔دن بھر کی مصروفیات پر بحث اور تبادلہ خیال کرتے رہتے۔ساتھ ساتھ گرم قہوے اور قصے کہانیوں کے دور چلتے۔
اس زمانے میں خواتین اور گھر کی عورتوں کے لئے صرف ریڈیو ہی تفریح کا واحد ذریعہ تھا۔کھانا پکاتے ہوئے یا گھر کے کام کاج کے دوران غزالہ ریڈیو آن کر دیتی تھی۔اپنے گھر کی کاموں سے فارغ ہونے کے بعد غزالہ کو لگا کہ پچھلے دو دنوں سے وہ درختوں کو پانی دینے نہیں گئی،اس کو بہت بےچینی محسوس ہو رہی تھی،مگر اس نے سوچا آج تو جاونگی، مگر شام کا وقت نکل چکا تھا۔ اور مغرب کی اذان ہونے والی تھی۔غزالہ نے دادی سے بہانہ بنایا، کہ مہناز کے گھر کام ہے، ابھی واپس آتی ہوں۔اور گھر سے نکل گئی۔
درختوں کے پاس پہنچ گئی۔اور پانی برتن میں ڈالنے لگی اچانک اسے بہت تیز خوشبو محسوس ہوئی مگر اس نے اتنا دھیان نہیں دیا۔
غزالہ۔۔۔۔۔
غزالہ تم دو دنوں سے کیوں نہیں آئی ۔۔
میں بہت بےچین تھا،تڑپ رہا تھا۔
غزالہ ایک دم ڈر گئی۔
یا خدا یہ آواز کس کی ہے۔اور ڈر کے مارے جتنی سورتیں اسے یاد تھی پڑھ ڈالیں۔
اچانک قہقہے کی آواز سنائی دی، ارے پگلی آیت الکرسی بھی پڑھ لو میں بھی مسلمان ہوں الحمدللہ اور میں تو قرآن کا حافظ ہوں۔
اچانک کوئی سورہ رحمان کی تلاوت کرنے لگا اور ایسے مدھوش کن اور دلفریب آواز میں تلاوت کر رہا تھا،جیسے کانوں میں شہد گھول رہا ہو،اسکی تلاوت سے اسکی روح جیسے تروتازہ ہو رہی تھی۔
ارے پگلی تم نے چند سورتیں پڑھی ہیں میں تمھیں پورا قرآن سنا سکتا ہوں۔
غزالہ پھر سے ڈر گئی۔
یا الہی یہ ماجرا کیا ہے؟
مگر اسے کچھ نظر نا آیا اس نے دیکھا کہ درخت کے نیچے ایک تھیلا پڑا تھا اس میں رنگ رنگ کے خوبصورت کپڑے اور ریشمی ڈوپٹے پڑے ہوئے جو نا کسی نے دیکھے ہونگے نا خریدے ہونگے۔
غزالہ وہ تھیلا اٹھا کر گھر جانے لگی ساتھ ساتھ آیت الکرسی پڑھ کر خود پر پھونکتی گئی۔اور خیریت سے گھر پہنچ گئی اس نے اس واقعے کا کسی سے ذکر نا کیا۔
ایک دن اماں پڑوس کے گھر گئی ہوئی تھی اور دادی کمرے میں سو رہی تھی۔غزالہ نے گھر کے کام نمٹا لئے،اور کپڑے بدلنے کے بعد، اپنی من پسند جگہ جانے لگی ان درختوں میں بیری کا ایک بڑا اور گھنا درخت غزالہ کو ہمیشہ سے بہت اچھا لگتا تھا اور بیری کے درخت کے اوپر آنے والے پرندوں کوئل،مینا،کوئے،طوطے،اور چڑیا،کبوتر اور فاختہ وغیرہ آ کر بیٹھ جایا کرتے تھے ۔اور غزالہ ان پرندوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوتی تھی۔
غزالہ جیسے ہی وہاں گئی، سب پودوں کو پانی دینے کے بعد بیری کے درخت کے نیچے کالج کہ کتابیں نکالی اور پڑھنے لگی۔
اچانک اسے آواز سنائی تھی۔
غزالہ۔۔۔۔
غزالہ تم آ گئی۔
آج غزالہ کو ڈر نہیں لگ رہا تھا اس نے بےخوفی سے جواب دیا۔۔۔
ہاں میں آگئی ہوں مگر تم کون ہو؟ مجھے نظر کیوں نہیں آتے؟
غزالہ میری بات سنو۔۔
کل تم قریبی سکول جاو وہاں تمھاری نوکری لگ چکی ہے۔
کیا کیا۔۔۔نوکری؟
ہاں تم شام کے وقت اب بچوں کو پڑھاوگی اور تمھاری مشکلات حل ہو جائے گی۔
یہ سن کر غزالہ بہت حیران ہوئی، کہ نجانے یہ آواز کس کی ہے؟ کون ہے؟ ان سوالوں میں وہ الجھی ہوئی تھی۔مگر اس کو یہ اندازہ ہوا کہ جو کوئی بھی ہے،کم از کم مجھے نقصان نہیں پہچا رہا۔اس بات پر غزالہ بہت مطمئن تھی، اور کسی سے ذکر نہیں کرتی تھی۔
دوسرے دن غزالہ قریبی سکول گئی،تو اسکی پرنسپل نے کہا کہ مس غزالہ آپکی درخواست تو کب کی ہمیں مل چکی ہے،اور آپکی نوکری پکی ہے، اب اپکو ہر مہنیے سرکار سے دس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملی گی۔ صبح کے وقت رانی،شازیہ بچوں کو پڑھاتی ہیں اور شام کے وقت تمھاری ڈیوٹی ہوگی۔
غزالہ بہت زیادہ خوش ہوئی اور راستے میں مٹھائی والے سے ڈھیر ساری مٹھائی خریدی اور گھر میں دادی اور ماں کو خوش خبری سنا دی۔
سب نے خدا کا شکر ادا کیا۔
غزالہ نے مٹھائی کا ایک ڈبہ اپنے بیگ میں رکھا اور شام کو بیری کے درخت کے پاس گئی۔گاوں کی ساری لڑکیاں گھروں کو لوٹ چکی تھی۔کسان گھروں کو واپس جارہے تھے۔مغرب کا اندھیرا دھیرے دھیرے چھانے لگا۔
غزالہ بیری کے درخت کے نیچے بیٹھ گئ۔
غزالہ۔۔۔
غزالہ تم آ گئی۔۔۔آہ میری روح شاد ہو گئی۔
اچانک غزالہ کے بال ہوا میں لہرانے لگے جیسے تیز ہوا کا جھونکا چھو گیا ہو۔
ہاں میں آ گی ہوں، اور یہ دیکھو تمھارے لئے مٹھائی لائی ہوں۔
کیا کہا مٹھائی ۔۔۔ یہ سن کر وہ آواز بہت خوش ہوئی اور جواب دیا تم جانتی ہوں، کہ مجھے مٹھائی بہت پسند ہے۔
اچانک اسکے سامنے سفید لباس میں ایک لڑکا نمودار ہوا جس کا قد کافی بلند تھا اور اسکی نیلی نیلی حسین آنکھیں تھی جیسے گہرا نیلا سمندر ہو۔
اتنا حسین اور خوبرو لڑکا آج تک غزالہ نے نہیں دیکھا تھا اپنی پوری زندگی میں۔۔۔
غزالہ اس کو دیکھ کے بولی اچھا تو تم ہو میرے محسن۔۔۔
ہاں میں ہو میں نے ہی تمھیں روپے بھجوائے تھے، اور میں نے ہی تمھاری مدد کی۔کیونکہ میں تم سے بےانتہا محبت کرتا ہوں۔بہت زیادہ محبت کرتا ہوں۔
مگر میں نے تو تمھیں کبھی گاوں میں نہیں دیکھا؟
میری غزالہ! میں گاوں میں نہیں رہتا۔
میرا نام جعفر جن ہے۔میں قبیلہ جنات سے ہوں۔اس دن میں تھکا ہوا تھا اور اس بیری پر آرام کر رہا۔کہ تم ان درختوں اور پودوں کو پانی دے رہی تھی۔مجھے تمھاری یہ نیکی بہت پسند آ گئی۔اور اب روز تمھارا یہی انتظار کرتا ہوں۔
میں تمھیں نقصان نہیں پہنچانا چاہتا۔اس لئے میں تمھارے جسم میں داخل بھی نہیں ہوتا کہ اس سے تمھارے وجود کو تکلیف اور درد ملے گا۔
جعفر جن تم واقعی بہت عظیم ہو۔
مجھے تم پر فخر ہے۔
غزالہ نے کہا کیا تم مجھ سے شادی کروگے؟
جعفر جن نے کہا ہاں ضرور کرتا شادی مگر۔۔۔
مگر کیا۔۔۔
مگر میں مسلمان جن ہوں حضرت محمد ﷺ کے امت میں سے ہوں اور میں زبردستی شادی کے حق میں نہیں ہوں۔کیونکہ تم آدم آزاد ہو۔
اس لئے میری طرف سے تم مکمل آزاد ہو۔
میں بس تمھاری روح سے محبت کرتا رہوں گا۔
تم کبھی کبھی درود شریف اور تسبیح پڑھ کر میری روح کو بخش دینا۔
میں ہمیشہ تمھیں دعا دیتا رہوں گا۔
اب تم اپنی زندگی میں کامیاب ہو اپنے پیروں پر کھڑی ہو اور اسی طرح رب العالمین کی مخلوق کی بےلوث مدد کرنا۔کیونکہ ہم نیک اور شریف لوگوں کے پاس خود بخود آتے ہیں۔
اب تم جاو۔گھر جا سکتی ہو اور آج کے بعد میں تمھیں نظر نہیں آوں گا۔
غزالہ کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے اور وہ شکریہ بھرے نظروں سے اسے جاتا ہوا دیکھ رہی تھی۔۔اور جعفر جن غائب ہو گیا۔
محبت امر ہوتی ہے مرتی نہیں۔۔۔۔۔
غزالہ روتے ہوئے گھر کی جانب روانہ ہوئی۔
ختم شد۔