کوئٹہ پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات نفیسہ شاہ نے کہا ہے کہ
کوئٹہ پاکستان پیپلزپارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات نفیسہ شاہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بلوچستان آکر ماضی کے منصوبوں کا دوبارہ افتتاح کیا ہے ، تبدیلی سرکار نے ابھی تک 3 کھرب روپے کے قرضے تو لئے ہیں مگر عوام کو ریلیف دینے کی بجائے ان پر مہنگائی کے پہاڑ توڑے گئے ہیں ، بلوچستان کی کل بجٹ 60 ارب روپے ہیں جبکہ پشاور میں صرف پی آر پی پر 80 ارب سے زائد روپے خرچ ہوئے ہیں مگر وہ منصوبہ ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا ہے ، تبدیلی کے نعروں والی حکومت کھوکھلی نکلی ، نیب کے ذریعے اپوزیشن جماعتوں کو کمزورکیا جارہا ہے تاکہ حکومت کی غلط پالیسیوں پر ان سے پوچھنے والا کوئی نہ ہو ، جمہوریت کی خاطر سب سے زیادہ قربانیاں پیپلزپارٹی کے رہنمائوں اور کارکنوں نے دی ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں پیپلزپارٹی بلوچستان کے صدر حاجی علی مدد جتک ، سردار بلند خان جوگیزئی ، سید اقبال شاہ اور کابینہ کے اراکین ودیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ نفیسہ شاہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی احساس محرومی پیپلز پارٹی کی وجہ سے نہیں ہے تاہم نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد کی صورتحال کے باعث آصف علی زرداری نے اقتدار میں آنے کے بعد اس پر بلوچستان کے لوگوں سے معافی مانگی ۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے 2008 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد بلوچستان کی احساس محرومی کے خاتمے کے لئے آغاز حقوق بلوچستان دیا تاکہ اس سے بلوچستان کے نوجوان برسرروزگار ہوسکے اور ان میں پائی جانے والی احساس محرومی میں کمی آسکے اس کے علاوہ ہم نے بے نظر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا جس سے 50 لاکھ خاندان مستفید ہورہے ہیں مگر تبدیلی سرکار کو برسراقتدار آئے 8 ماہ ہوگئے ہیں اب تک ان کے کئے گئے وعدوں میں سے کوئی ایک بھی وفا نہیں ہوسکا ہے تبدیلی کے نعرے صرف نعرے ہی ثابت ہوئے ۔ ایک کروڑ کی نوکریاں دکھائی دے رہی ہیں اور نہ ہی 50 لاکھ گھردکھائی دے ہیں البتہ عوام پر مہنگائی مسلط کرکے ان کی چیخیں ضرور نکل چکی ہے ۔ سی پیک منصوبہ پیپلزپارٹی کے دور میں ہوا ، سی پیک کے مغربی روٹ کا افتتاح جو پچھلے دور حکومت میں ژوب سے کوئٹہ تک ہوا تھا کا دوبارہ افتتاح وزیراعظم پاکستان عمران خان نے آج کوئٹہ سے ژوب کردیا ہے اور اس کے بعد گوادر میں ائیرپورٹ کا افتتاح کرنے جارہا ہے جس کا افتتاح بھی پہلے ہوچکا ہے ۔ بلوچستان میں اس سے پہلے بھی کئی منصوبوں کے افتتاح ہوچکے ہیں مگر عملی کام کئی پر نظر نہیں آرہا ۔ صرف افتتاح کرنے سے بلوچستان کے مسائل حل نہیںہوں گے ۔ سی پیک کے تحت بلوچستان میں2 فیصد سے بھی کم ہوا ہے ۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان کا کل بجٹ 60 ہے مگر پشاور کے پی آر پی پر اب تک 80 ارب سے زائد روپے خرچ ہوچکے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے مطابق موجودہ حکومت نے 8 ماہ کے دورانیہ میں ابھی تک 3 کھرب روپے کے قرضے لئے ہیں مگر عوام کو ریلیف دینے کی بجائے ان پر مہنگائی کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک ہی سال میں 3 مرتبہ بجٹ پاس ہوا جبکہ اب تک چوتھے بجٹ کی تیاری جاری ہے جس میں گیس اور بجلی کے قیمتوں میںمزید اضافے کی تجویز ہے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی قرضے لئے تھے مگر عوام کو سبسڈی دی تھی مگر اب قرضے لینے کے باوجود بھی سبسڈی کی بجائے ان پر مہنگائی کے طوفان برپا کئے جارہے ہیں ۔ عمران خان نے کہا کہ ان کی چیخیں نکلوائیں گے مگر موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے عوام کی چیخیں نکل رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نیب کے ذریعے اپوزیشن جماعتوں کو کمزورکیا جارہا ہے تاکہ حکومت کی غلط پالیسیوں پر ان سے پوچھنے والا کوئی نہ ہو ۔ نیب صرف اپوزیشن کے خلاف کارروائیاں کررہی ہے حالانکہ عمران خان نے 20 سال کے دوران صرف ایک لاکھ روپے کا ٹیکس دیا ہے بنی گالہ کے بجلی ، گیس کے بلز ملازمین کی تنخواہیں کہاں سے آتی ہیں ۔ بنی گالہ پر اور حلیمہ خان کی غیر رجسٹرڈ جائیدادوں پر جی آئی ٹی بنائے تو پتہ چلے گا ۔ دبئی میں سب سے زیادہ گمنام پراپرٹی تو پی ٹی آئی والوں کی ہے ان کی تحقیقات کیوں نہیں کی جارہی ہے ۔ آغا سراج درانی ایک منتخب کسوڈین کے اسپیکر ہیں ان کو ایک تنگ کھولی میں رکھا گیا ہے ۔ اسمبلی کا کوئی رکن کسی بھی کیس میں گرفتار ہوتا ہے تو اسے اجلاسوں میں شرکت کی اجازت اسپیکر دیتے ہیں مگر انہوں نے اسپیکر ہی گرفتار کرلیا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں نفیسہ شاہ نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی احتساب قوانین میںترمیم کے لئے تیار تھی مگر اس وقت ن لیگ اس کے لئے تیار نہیں تھی ۔پاکستان پیپلزپارٹی نے روز اول سے ہی بلوچستان کے وسائل پر صوبے کے ہی لوگوں کی ملکیت کی بات کی ہے ۔ بدقسمتی سے بلوچستان کے معدنیات پر ہونے والے بین الاقوامی معاہدوں میں بلوچستان حکومت اور صوبے کے نمائندوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے بلکہ آج بھی بلوچستان کے معاہدوں میں صوبے کی قیادت کو اعتماد میں نہیںلیا جارہا ہے ۔ بلوچستان کے منصوبوںریکوڈک ، سیندک سمیت دیگر میںوفاق کو صوبائی حکومت اور صوبے کے حکمرانوںکو اعتمادمیں لینا چاہیے ۔ بلوچستان کی احساس محرومی کی اہم وجوہات میں سے ایک لاپتہ افراد کا مسئلہ ہے جس پر ہم اختر مینگل کی حمایت کرتے ہیں ۔ بلوچستان کے نوجوان بے روزگار ہیں جنہیں روزگار فراہم کرکے ہی یہاںکے لوگوں میں پائی جانے والی احساس محرومی میںکمی لائی جاسکتی ہے ۔بلوچستان کی طرح سندھ کی بھی استحصال کی جارہی ہے دونوں صوبوں کے پیسوں پر بھی وفاق دبا کر بیٹھا ہوا ہے ۔ پارلیمنٹ کے ایک اجلاس پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں مگر ابھی تک ایک قانون ہی پاس ہوا ہے جو قابل افسوس ہے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی حکومت کی ناقص پالیسیوں کے خلاف اپوزیشن کے ساتھ مل کر آواز اٹھائے گی ، ماضی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کشیدگی ضرور ہوئی ہے لیکن اپوزیشن میں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت لوگ پوچھ رہے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف کو کیوں ریلیف دی گئی ہے ۔اپوزیشن متحد ضرور ہے مگر اس وقت پی پی پی ہی وہ واحد جماعت ہے جو تحریک انصاف کی ناقص پالیسیوں کو چیلنج کررہی ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں پارلیمنٹ اندر اور باہر متحد ہے ۔ اس وقت ملک میں پاکستان پیپلزپارٹی ہی وہ واحد جماعت ہے جو تبدیلی سرکار کی ناقص پالیسیوں کو چیلنج کررہی ہے ۔بلال بھٹو کی ٹرین مارچ کے ابتداء میں ہی تمام وزراء بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں ، بلاول نے ٹرین مارچ کا افتتاح کردیا ہے ہر ایک اسٹاپ پر ہزاروں کی تعداد میں کارکنوں نے نہ صرف ان کا استقبال کیا بلکہ آٹھ آٹھ گھنٹے تک کا انتظار کرتے رہے ۔ لاڑکانہ میں 4 اپریل کو شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے پروگرام کے لئے مارچ رک گیا ہے ۔ بجٹ تک کا انتظار کریں گے اگر عوام کو ریلیف نہ دیا گیا تو سندھ ، بلوچستان ، پشاور سمیت ملک بھر کے کارکن نکلیں گے ۔انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں پیپلزپارٹی نے دی ہے ۔ پی پی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری نے 12سال جن کیسز میں قید کی سزا کاٹی بعد میں انہی کیسزمیں بریت ہوئی جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ احتساب کے نام پر انتقام کا نشانہ سب سے زیادہ پیپلزپارٹی کو ہی بنایا گیا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں اساتذہ پر ہونے والی لاٹھی چارج کا نوٹس بلال بھٹو نے لیا ہے جبکہ سندھ میں کارکردگی کی وجہ سے ہی پیپلزپارٹی کو ووٹ پڑ رہے ہیں ۔ کراچی میں لوگوں کی دکانیں گرانے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ کاروائی کورٹ کے آرڈر پر ہوئی تھی جبکہ اس کی سرپرستی پاکستان تحریک انصاف نے کی تھی ۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے اس کے خلاف عدالت سے رجوع بھی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی پی نے سینیٹ کے چیئرمین شپ کے لئے پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضا ربانی کی بجائے صادق سنجرانی کی حمایت اس وقت کے حالات کو دیکھتے ہوئے کی تھی تاکہ بلوچستان کو نمائندگی دی جاسکے ۔