بلوچستان کے بگڑتے حالات اور بیروزگار بلوچ نوجوان

0 106

تحریر: ایچ آزاد۔

بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں بیروزگار بلوچ نوجوان وقت کی ستم ظریفیوں، قوم پرستی کے نعروں سے متاثر ہو کر یا ٹارچر سیلوں کے عقوبت خانوں سے نکلنے کے بعد زندگیوں سے بیزار ہوکر فدائی حملہ آوار بنتے جا رہے ہیں ۔ ریاست کے لیے لمحہ فکریہ اور سوچنے کا مقام ہے کہ اس سے پہلے صرف مزہبی انتہا پسند تنظیمیں ہی خودکش حملہ آوار بناتے تھے ، لیکن ایسی کیا بات ہوئی کہ کچھ عرصہ سے بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے فدائین حملہ آوروں میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ ریاست کی غلط پالیسیوں اور غیر منتخب اور غیر جمہوری نمائندوں کی غیر سنجیدگی نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ وفاق اور ریاستی اداروں نے کبھی بھی بلوچ مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر کبھی بلوچ سیاسی جماعتوں اور ان کے نمائندوں نے ریاست اور علحیدگی پسند تنظیموں کے درمیان معاملات حل کرنے کی کوششیں کیں تو نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر یہ پراسس کبھی انجام پذیر نہ ہوسکا۔ آج حالات یہ ہیں کہ ریاست پاکستان کے تین اطراف واقع ممالک کے ساتھ تعلقات شدید کشیدگی کا شکار ہیں ، ملک کے اندر روزانہ کی بنیاد پر کسی نہ کسی مقام پر دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں ۔ ان حالات میں ریاست کو تدبر اور بردباری سے کام لے کر نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ساتھ بیٹھ کر سنجیدگی سے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، خاص طور پر بلوچستان اور بلخصوص مکران میں نوجوانوں کی بڑی تعداد بارڈر کے کاروبار سے منسلک تھا اور ہے۔ یہ نوجوان اپنی اور پورے کنبے کی معاشی سرپرستی کرتے ہیں، لیکن افسوس کہ بارڈر کے اس سیدھے سادے کاروبار کو مختلف ادوار میں مختلف طریقوں سے سبوتاژ کیا گیا اور چند پیٹ پرستوں کی وجہ سے ایک بنا بنایا معاشی اسٹرکچر بری طرح متاثر ہوا اور نوجوانوں کی بڑی تعداد معاشی حوالے سے متاثر ہوئے۔۔ نتیجتاً نوجوانوں کو متبادل راستے اختیار کرنے پڑتے ہیں اور یہ راستے یا تو علیحدگی پسندوں کے کیمپوں تک جاتے ہیں یا تو چور اور ڈکیتوں کی بستیوں تک، جبکہ تیسرا اور آخری راستہ خودکشی تک جاسکتا ہے۔ بلوچ فطرتاً بزدل نہیں ہوتے اس لیے وہ آخری راستہ اختیار کرنے سے پہلے شروع کے دونوں راستوں پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں، اور نتائج وہی آتے ہیں جو اس وقت ہمیں نظر آ رہے ہیں ۔ لیکن لگتا ہے کہ فلحال ریاست گزشتہ 76 سالوں کی پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے طاقت کے زور پر ان معاملات کو ڈیل کرنے کی کوشش کررہی ہے، لیکن نتائج امید کے بر خلاف آرہے ہیں ۔
بلوچ نوجوانوں کو انگیج رکھنے لئے ریاست کو سوچنا ہوگا اور ان معاملات کو حل کرنے کے لیے حقیقی بلوچ نمائندوں سے بات کرنی ہوگی۔ بیروزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنا ہوگا۔ بارڈر کے معاملات میں شفافیت لا کر کاروبار کو مزید آسان بنانا ہوگا۔ بلوچستان میں بدامنی کی ایک اہم وجہ موجودہ اسمبلیوں میں بیٹھے ننانوے فیصد جعلی نمائندگان بھی ہیں جن کی وجہ سے بلوچستان کے حالات روز بہ روز دگر گوں ہوتے جا رہے ہیں ۔امن اور سکون کے بغیر کسی بھی ملک اور علاقے کی ترقی ناممکن ہے، جب تک اسمبلیوں میں حقیقی بلوچ نمائندگان کو نمائندگی نہیں دی جاتی تب تک حالات قابو میں آنا ممکن نہیں ۔ اس سے پہلے کہ حالات مکمل طور پر ہاتھوں سے نکل جائیں اور ہر بلوچ نوجوان ہتھیار اٹھانے کی طرف ماہل ہو جائے ، ریاست کو ان معاملات اور خاص طور پر لاپتہ بلوچ افراد کے معاملات کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لیے ریاست کو ایک ماں اور باپ کی نظر سے اپنی رعایا کو دیکھنا ہوگا اور بلوچستان کو بھی پاکستان کی ایک اہم اکائی سمجھ کر اس کے عوام کو بنیادی حقوق دینے ہوں گے۔
بلوچستان کی ترقی ہی پاکستان کی ترقی کا ضامن ہے، بلوچستان کے بغیر پاکستان کی ترقی ایک خواب ہی رہ جائے گی۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.