شعر و ادب کی یونیورسٹی۔۔ اقبال راہی

0 69

منشاقاضی
حسب منشا

اردو زبان کے ادیبوں ۔ شاعروں اور انشاء پردازوں میں سدا بہار شخصیتں ملیں گی جن کے قلم کی گلکاریاں ادب کی زینت ہیں جن کی زبان سے پھول جھڑتے ہیں ۔ جن کے قلم سے موتی ٹپکتے ہیں ۔ جن کے افکار کی بلندی فلک الافلاک تک جا پہنچی ہے ۔ جن کے انداز و اسلوب میں رعنائی ہے بانکپن ہے زندگی ہے ۔ ایسے اوصاف جلیلہ سے متصف شاعروں میں جناب اقبال راہی منفرد ممتاز اور عصر حاضر کے مولانا ظفر علی خان ہیں ۔ وہ حلیم سلیم ۔ فہیم شفیق رفیق اور صدیق انسان ہیں ۔ جتنے بڑے شاعر ہیں اس سے کئی گنا بڑے انسان ہیں ۔ شاعر اور شہنشاہ روز روز پیدا نہیں ہوتے ارسطو نے کہا تھا کہ شاعر بنی نوع انسان کے لیے باعث عزت و افتخار ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ نوع انسانی کے اولین استاد شاعر ہی تھے اقبال راہی کے آئینہ ادراک پر شعر قدرتی انداز میں اس طرح وارد ہوتے جس طرح درختوں پر پتے آتے ہیں ۔ہمارے شاعروں کے دل پر اگر اس طرح کی واردت قلبی نہیں ہو رہی ان کے لیئے مشورہ استادوں کا یہی ہے کہ شعر نہ کہے جائیں ۔ میں بے پناہ ممنون احسان ہوں بزم عروج ادب پاکستان کا جنہوں نے ادب کی اس گرتی ہوئی دیوار کو سنبھالا دیا ہے اقبال راہی بہت دکھی انسان ہیں کروڑوں میں خوش قسمت ہیں جن کو پوری قدبی دنیا جانتی ہے اس دکھی انسان اپنے تمام دوستوں میں سکھ بانٹتے رہتے ہیں ان کی مسکراہٹ کے عقب میں درد و اثر کے کئی دریا بہہ رہے ہیں اللہ نے ان کو آزمائش میں اس لیے ڈالا ہے کہ وہ بہت بڑے انسان ہیں اور حوصلے کا پہاڑ ہیں ۔ میں نے اپنی زندگی میں آپ جیسا بہادر انسان نہیں دیکھا ۔ اقبال راہی کا برجستہ شعر چلتا ہوا جادو اور بولتی ہوئی تصویر ہوتا ہے ۔ آج بزم عروج پاکستان کے زیر اہتمام زیب عروج نے آپ کے ساتھ ایک شام کا اہتمام کر کے اقبال راہی کے مداحوں کے دل جیت لیے ہیں ۔ ملک کے نامور شاعر جناب واجد امیر کی صدارت میں صاحب کتاب جناب ممتاز راشد لاہوری کی مدحت سرائی میں اور اقبال راہی کے ساتھ شام کا اہتمام کر کے ایک انوکھی طرح ڈالی ہے ۔ عروج زیب کا ادب میں اپنا ایک جہان ہے اور وہ سارے کا سارا جہاں زیب ہے کیونکہ انہیں پوری کائنات حسین نظر آتی ہے ۔ممتاز راشد لاہوری ہمارے درمیان اس وقت ادب اور ادیبوں کو متعارف کرانے والے وہ واحد شاعر ہیں جن کو ہمیشہ قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ نہ صرف شاعر ہیں بلکہ ادیب بھی ہیں خالد حنیف نے کہا تھا لکھنے کے لیے دیکھنے والی آنکھ ۔ محسوس کرنے والا دل ۔ سوچنے والا ذہن اور جرات چاہیے اور یہ ساری چیزیں جناب ممتاز راشد لاہوری کی سرشت میں موجود ہیں باسکو نے کہا تھا کہ وہ بات جو ادیب کی بیوی کبھی نہیں سمجھ سکتی یہ ہے کہ جب ادیب شاعر کھڑکی کے باہر گھور رہا ہوتا ہے تو اس وقت بھی وہ کام کر رہا ہوتا ہے میرا خیال ہے ایسا شاعر جو صرف اپنے ہی شعروں کے متعلق باتیں کرتا ہے اس میں اتنی برائی ہے جتنی کہ اس ماں میں جو صرف اپنے ہی بچوں کے بارے میں بولتی رہتی ہے ۔ عروج زیب کی یہ خوبی ہے کہ وہ دوسروں کے اشعار سن کر ان کو داد بھی دیتی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے سامعین کو مدعو کرتی ہے اور آج کی یہ شام اقبال راہی کی پذیرائی مسیحائی سے کم نہیں ہے عروج زیب نے بے حس معاشرے میں اہل قلم کو جگایا ہے اور شعراء کی شعری تحریک کو تحریک دی ہے ادب نہ صرف زندگی کی حقیقتوں اور صداقتوں کی ترجمانی کرتا ہے بلکہ وہ انسانی شعور کو نکھارتا اور انسانی معاشرے کی تعظیم بھی کرتا ہے اور عروج اس کام میں برابر کام کر رہی ہے زیب عروج نے حرکت و حرارت اور درد و اثر پیدا کرنے والی شاعری کو فروغ دیا ہے ادب وہی کارآمد ہو سکتا ہے اور زندہ رہ سکتا ہے جو اپنے اثر سے حرکت پیدا کرنے کی قوت رکھتا ہو اور جس میں زیادہ سے زیادہ اشخاص تک پہنچنے اور ان میں اثر پیدا کرنے کی صلاحیت ہو عروج زیب نے مستقل مزاجی سے ادب اور عظیم شاعروں کی پزیرائی کی ہے کسی دانشور نے کہا تھا کہ جس تحریر کو ایک بار سے زیادہ پڑھنے کو دل چاہے وہ ادب ہے اور جو تحریر صرف ایک بار پڑھی جائے وہ اخبار نویسی ہے میں نے ممتاز شاعرہ زرقا نسیم غالب کے بعد عروج زیب کو شاعروں ادیبوں کی پزیرائی کرتے دیکھا ہے ۔ میں عروج زیب کا مقروض ہوں ان کا قرض نہیں اتار سکتا حقیقت یہ ہے کہ میں اس تقریب میں پورے ارادے کے ساتھ موجود تھا لیکن میں نے حضرت علی کی اس قول اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے ہی میں نے اللہ کو پہچانا میرے بارے میں بھی انہوں نے تصویر کے ساتھ دعوت نامہ بھیجا جس پر لکھا ہوا تھا معروف شاعر منشا قاضی تو بڑا تعجب ہوا کہ میں تو ستر سال میں ایک شعر بھی نہیں کہہ سکتا لیکن ایک اچھا شعر مجھے مہینوں ماہی بے آب کی طرح تڑپا دیتا ہے ۔ عروج زیب نے مجھے بھی شاعر بنا دیا ۔ میں نے برنٹ کا قول پڑھا تو میں نے عروج زیب کی تائید کر دی ۔ وہ کہتا ہے ۔فصیح زباں اور جادو بیاں شخص کی نثری تحریر میں بھی شاعری کی سی چاشنی ہوتی ہے ادب کا کام زندگی کی حقیقتوں کو بیان کرنا ہے سچا ادب ملک بنا دیتا ہے ادب وہ ہے جو ادب برائے ادب نہ ہو بلکہ ادب برائے زندگی ہو دوستوں کی طرح پڑھنے کے لیے مصنف شاعر ادیب بھی منتخب کرو اور عروج زیب کا انتخاب بڑا حسین ہے عروح زیب کے خیالات میں سچائی ہے گہرائی ہے گیرائی ہے وہ تاریخ ادب کا حصہ ہے میں عروج زیب کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں عروج زیب نے اپنی ذات کے غار سے نکل کر تہذیبی عمل کو آگے بڑھایا ہے ۔ممتاز راشد لاہوری کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جو اچھا ادب تخلیق کرتے ہیں اچھا ادب بہتر زندگی کی تعمیر کرتا ہے اور زندہ تحریر وہ ہوتی ہے جس میں روح عصر ہو جس میں ابدیت ہو اور جو وقت گزرنے کے بعد بھی زندہ رہے ارسطو کا یہ قول جس پر ممتاز راشد لاہوری پورے کے پورے اترتے ہیں ۔ میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ ان کے لیے لکھنا بولنا سننا اور سانس لینا یکساں ہے ۔ والٹئیر کا قول یہاں میں نقل کرنے لگا ہوں وہ کہتے ہیں بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مصنف اور لکھنے والے بن بیٹھتے ہیں ایسے لوگوں کی بد قسمتی یہ ہوتی ہے کہ ان کے والدین نے ان کو کوئی ہنر نہیں سکھایا ہوتا یہ ہمارے دور کا بہت بڑا المیہ ہے جس کا جی چاھے وہ صحافی بن جاتا ہے وہ گھٹیا ترین ادب کی کاشت کرتا ہے اور اپنے آپ کو بڑے فخر سے مصنف کہلاتا ہے اصلی اور سچے مصنف تو وہ ہیں جو انسانی نسلوں کو تعلیم دیتے اور ان کو محفوظ کرتے ہیں جن بے ہنر لکھنے والوں کا میں نے ذکر کیا ہے ان کی حیثیت آدمیوں میں وہی ہے جو چمگادڑ کی پرندوں میں ہوتی ہے ۔ میں بزم عروج پاکستان کی چیئرپرسن محترمہ عروج زیب کا مکرر شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے شاعر بنا دیا اور میں شرمندہ ہوں کہ تقریب میں پورے ارادے پوری تیاری کے باوجود نہ پہنچ سکا اور اس وقت میں تصور کی روشنی میں پوری روداد لکھ رہا ہوں کیونکہ

جب سے ملی ہے مجھ کو تصور کی روشنی

دیکھے بغیر تجھ کو پہچانتا ہوں میں

ؓ

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.