برطانیہ سے
کل مجھے ایک دوست نے برطانیہ سے ہی دورانِ گفتگو بتایا اور ساتھ ہی ایک فوٹو بھی بیھجی جس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ برطانوی وزیراعظم اپنا لنچ خود اٹھا کر لے جا رہے ہیں۔
وہ ایک میٹنگ میں تھے اور وزارت خارجہ کے کینٹین میں سلاد کا ایک پیالہ، چپس کی ایک پیکیج، اور ٹینگو ڈرنک کی ایک بوتل لینے کے لیے گئے۔
انہوں نے اپنے لنچ کی قیمت اپنی جیب سے ادا کی، اپنا لنچ خود اٹھایا، اور بغیر کسی سیکورٹی، پروٹوکول، سیکرٹری، یا پارٹی لیڈر کے، اپنی اگلی میٹنگ کی طرف روانہ ہو گئے۔
وہ ملک کے وزیراعظم ہیں جن کی معیشت 5 ٹریلین ڈالرز سے زیادہ ہے۔
اُن دوست کی یہ بات سن کہ میں بس حیران ہوں کہ اگر وہ ایک عام انسان ہیں، تو ہمارے حکمران کس قسم کے مخلوق ہیں اور کس سیارے سے تعلق رکھتے ہیں؟
مزید برآں، ہمارے بدعنوان سیاستدان 5000 سی سی یا 5999 سی سی کی لگژری گاڑیوں میں زندگی کا لطف اٹھا رہے ہیں، بے شمار مفت ایندھن اور دیکھ بھال کے ساتھ۔
تمام قابل اطلاق ٹیکس، چارجز، سروس چارجز، اور یوٹیلیٹیز سے مستثنیٰ ہیں۔
ملک کے اندر اور بیرون ملک مفت ہوٹلنگ اور سفر، خود اور ان کے خاندان کے لیے، اور بے شمار کرائے کی سہولت۔
ذاتی سیکورٹی، ڈرائیورز، اور مکمل پروٹوکول کے ساتھ۔
جبکہ دیگر ممالک کے گورنر عوام کی صحت، اچھے رہائش، تعلیم، تغذیہ، سماجی روابط، احترام، امن، انسانی حقوق، صحت مند ماحول، اور خوشی کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ صرف چند پہلو ہیں جن پر وہ توجہ دیتے ہیں۔
اور ایک ہمارے ہیں کہ گزشتہ 77 برسوں سے ایک نظام تک وضع نہیں کر سکے کہ جانا کس سمت کو ہے؟ قرضوں کے تلے ڈوبے ہوئے اس ملک کے بے چارے عوام کا کیا مستقبل ہو سکتا ہے۔ پھر بات کی جاتی ہے کہ لوگ دھڑا دھڑ مُلک چھوڑ کے جا رہے ہیں، پھر جائیں نہ تو اور کیا کریں؟
آج اگر لچھ ایسا ہو جائے کہ بس کسی بھی ملک کی ٹکٹ خریدو اور جہاز پہ سوار ہو جاؤ، تو یقین کریں آدھے سے زیادہ مُلک راتوں رات خالی نہ ہو جائے تو پھر کہنا۔ یہ بھی میں نے ابھی میانہ روی سے کام لیا ہے کہ ایسے ہی کوئی غصہ نہ کر جائے۔ بلکہ رزلٹ تو میری آپ کی اُمید سے کہیں زیادہ ہی نکلے گا۔
بہرحال بات شروع ہوئی تھی برطانوی وزیرِ اعظم کے لنچ خود خرید کے اور اُٹھا کے لے جانے کی تو بات کچھ یوں ہے کہ اسطرح کی باتیں ہم صرف “ڈسپلے” کے طور پہ استعمال کرکے عوام کو جوش دلاتے رہتے ہیں۔ جیسے کہ میں اس کالم کے ذریعے بھی تو یہی کچھ کر رہا ہوں۔ کیونکہ پتہ آپ کو بھی ہے اور مجھے بھی ہے کہ یہاں ان قصوں سے کچھ بھی تبدیلی نہیں آنے والی۔