“مظلوم اہل غزہ اور مسلم امہ کی ذمہ داری”

0 264

غلام اللہ شاہوانی

مسلسل کشت و خون اور نسل کشی سے بے یار و مددگار فلسطینی مسلمان بلکتے رہیں اور ان کے معصوم بچے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح ہوتے رہیں۔ شہدا کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہوئی لیکن کسی کی کان پر جوں تک نہ رینگی ، کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا ، سوائے روایتی بیانوں کے کسی کی لبوں پر جنبش نہیں ہوئی ۔ خون آشام اور گھٹا ٹوپ اندھیری رات میں حماس کے جانباز مجاہدوں نے نعرہ تکبیر کی صدا لگاتے ہوئے سر بہ کف ہوکر دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کرتے رہیں ۔ پہلے تو حماس کی بے سر و سامانی اور قلت آلات حرب کو دیکھ کر اسرائیل ان کی مزاحمت کو ہیچ سمجھ کرنسیاں کی ٹوکری میں ڈال دی لیکن انہیں قوت بازوئے مسلم کا کیا پتا تھا ؟ .. سو رب تعالٰی کی نصرت اور درد دل رکھنے والے مسلمانوں کی طرف سے دامے درمے سخنے قدمے تعاون اور دعاؤں سے حماس کی مزاحمت بڑھتی چلی گئ اور اسرائیل کے کچھ لوگ بھی حماس کے فریڈم فائٹرز کے ہتھے چڑھ گئے یہاں تک کہ اسرائیل کے ہاتھوں کے طوطے اڑنے لگے اور ان پر زمین تنگ ہوئی پھر راہ فرار کی تلاش میں اسرائیل جنگ بندی پر بھی آمادہ ہوا یہ جنگ بندی عارضی نوعیت کی ہے ۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کی ان 13 خواتین اور بچوں کو بھی رہا کیا گیا ہیں جن کو حماس نے یرغمال بنایا تھا اور یہ ان 50 افراد میں شامل ہے جنہیں جنگ بندی کے ایام میں رہا کرنا ہے ۔
تھائی لینڈ کے زیر اعظم Sretth thavisin نے اس بات کی تصدیق کی ہے کی غزہ میں حماس نے تھائی لینڈ کے جن 12 شہریوں کو قید کیا تھا انہیں چھوڑ دیا گیا ہے اسی طرح حماس بھی اسرائیل کے یرغمالیوں کو رہا کرکے ان کے بدلے فلسطینی مسلمان جو اسرائیل کے شکنجے میں ہیں انہیں چھڑانے کی کوشش و سعی میں ہے۔
انسانیت و ہمدردی سے کوسوں دور، چین و سکون کو عنقا بنانے والے اسرائیل کو اب انسانی حقوق یاد آئے لیکن یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ حماس کی مزاحمت اور جذبہ ایمانی کی وجہ سے اسرائیل دم بخورد ہوا اور اب اس کو انسانی حقوق یاد آئے کہ جنگ بندی کا معاہدہ کرلیا جائے،
چار روزہ جنگ بندی سے غزہ کے شہریوں کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملا اور ساتھ یہ بھی کہ جنوبی غزہ میں امدادی سامان داخل ہوا ۔ یوں یومیہ غزہ میں 1 لاکھ تیس ہزار لیٹر ڈیزل اور گیس کے چار ٹرک فراہم ہوئے جار رہے ہیں اور فلسطینی خاندان شمالی غزہ میں آکر ملبے تلے اپنے پیاروں کی لاشیں تلاش کرنے میں مشغول عمل ہوئے ۔
جنگ بندی اگر چہ مستقل نہیں تاہم اس میں ترکی ، مصر،قطر اور سعودی عرب کا اہم کردار اور بھرپور حمایت شامل ہیں عرب لیگ بھی مسلسل اپنا دباؤ بڑھائے ہوئے ہیں۔
اسرائیلی وزیر دفاع کا اعلان ہے کہ یہ جنگ بندی عارضی ہے اس کے بعد ہم پورے طور پر لیس ہوکر میدان میں اتریں گے اور پہلے سے بڑھ جنگ شدت اختیار کرے گی جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ غزہ پر مزید غم و الم کی بارش برسے گی اور اسرائیل ارضِ مقدس کو ایک اجتماعی قبرستان بنانے کے در پر ہے، ہاں اگر امریکہ چاہے تو اسرائیل اور حماس کے مابین مستقل جنگ بندی اور امن کی فضا قائم ہوسکتی ہے لیکن دشمنِ اسلام امریکہ کی یہ چاہت کب ہوگی؟ بلکہ اس سوگوار اور خون آشام فضا کو امن و چین کی فضا میں تبدیل کرنے ، زخم خوردہ بلکتے بچوں کو تسلی دے کر انہیں کھیل کھود میں مشغول کرکے ان کی آہ و فغاں کو مسکراہٹوں میں تبدیل کرنے کی ذمہ داری اسلامی ممالک پر ہے کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالے اور مظلوم اہل غزہ کو اس کے ظلم و ستم سے آزاادی دلائیں ۔ یہی وہ وقت ہے مسلم امہ اپنے تمام تر اختلافات کو پس پشت ڈال کر ،عیش و عشرت اور طاؤس و رباب کو چھوڑ کر قبلہ اول اور خون میں لتھڑے ہوئے اہل فلسطین کے لیے کچھ کرجائیں اگر نہیں تو یہ ضرور سوچیں کہ تاریخ کے اوراق میں ہمیں کیا لکھا جائے گا اورکن ناموں اور القابوں سے نوازا جائے گا کہ جب مسلمانوں پر بم و بارود کی برسات جاری تھی تو ہم کہاں کھڑے تھے ؟… اوربروز حشر خدائے متعال کو کس منہ سے کیا جواب دیں گے ؟…..

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.