اے این پی کی جمعیت پر تنقید
سیاسی جماعتوں کے درمیان گرمی اور نرمی ہوتی رہتی ہے ، کیوں کہ ہر جماعت کا منشور اور پروگرام الگ الگ ہے۔ سوچ وفکر اور نظریہ کےاختلاف کے باوجود رویات اور اقدار کی پاسداری پی ٹی آئی کے علاؤہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کا شیوہ رہا ہے۔ جب سے عمران خان نے سوشل میڈیا کے ذریعے جو سیاست متعارف کروائی اس سے قدیم سیاسی جماعتیں بھی کافی متاثر ہوئی ہیں ۔ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر ۔۔ ۔۔۔ کی مصداق اب دیگر جماعتوں کے بعض قائدین بھی اس بے ہودہ ٹریک پر چل پڑے ہیں ۔ملک بھر کی اکثر سیاسی جماعتوں کے کارکنان تقریباً سوشل میڈیا پر وہی انداز اپنا چکے ہیں جس کی داغ بیل پی ٹی آئی ڈال چکی ہے۔اس کے برعکس چند دن قبل بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا کے سنسنی خیز انٹرویو کے متعلق سوال پر قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن نے انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے صحافی کو سوال مکمل کرنے سے روک دیا ۔ اس سے قبل عائشہ گلالئی اور ریحام خان کی جانب سے عمران خان کی زندگی کے متعلق ہوشربا انکشافات پر بھی مولانا نے کسی قسم کے تبصرے سے نہ صرف گریز کیا بلکہ سوال کرنے والوں کی حوصلہ شکنی بھی کی ۔ اس کے برعکس پی ٹی آئی نے مولانا صاحب کی شان میں نوجوان نسل کی جس سمت تربیت کی اس پر ندامت ہی ہوسکتی ہے۔ سیاسی اختلاف کے باوجود اعلیٰ اقدار کی پاسداری کا سہرا مولانا صاحب کو جاتا ہے ۔ حالانکہ خاور مانیکا کی گفتگو سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میاں نواز شریف نے بھی عمران خان پر تنقید کی ۔ محترم قارئین موضوع کی طرف آتا ہوں !۔ وہ یہ کہ بعض قوم پرست تنظیموں کی جانب سے استعمال ہونے والے لروبر کے نعرے کو گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمن نے بربادی سے تعبیر کیا، تو اس کا جواب دینا اے این پی کے ایمل ولی خان اور اس کے بعد بلوچستان کے صدر اصغر خان اچکزئی نے ضروری سمجھا، اس حوالے سے گزشتہ پانچ سال سے اے این پی کے بلوچستان کے صوبائی صدر جمعیت علماء اسلام اور ان کی قیادت کو تنقید میں ذاتیات تک جانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ چند ماہ قبل جمعیت علماء اسلام کے صوبائی امیر مولانا عبد الواسع کے بیٹوں اور بھائیوں کے متعلق ایسی گفتگو کی جو خاندان کے اندر مداخلت کے مترادف ہے، لیکن اس کا جواب دینے کی بجائے ہمیشہ جمعیت علماء اسلام برداشت کی پالیسی پر گامزن ہوکر آگے بڑھنا چاہتی ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا جب پی ڈی ایم اتحاد سے اے این پی اور پیپلز پارٹی بغیر کسی دلیل کے باہر گئیں تو پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ان کے خلاف کسی قسم کی بات نہیں کی ، اور آخر تک سب جماعتوں سے بعض اہم ایشوز پر شدید اختلاف رکھنے کے باوجود ان کو ساتھ چلاتے رہے ۔ گزشتہ دنوں اے این پی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی نے جلسے سے خطاب کے دوران جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے ان پر سنگین قسم کے الزامات لگائے ، اور افغانستان کی بربادی کا ذمہ دار ٹہرایا ، اور ان کی فلسطینیوں کی حمایت پر بھی تنقید کی اور انہیں وہاں جاکر جہاد کرنے کے طعنے دئیے ۔ اس کے جواب میں جمعیت علماء اسلام ضلع کوئٹہ کے امیر مولانا عبد الرحمن رفیق سنئیر نائب امیر مولانا خورشید احمد جنرل سیکریٹری حاجی بشیر احمد کاکڑ اور ضلعی مجلس عاملہ کے اراکین نے بھرپور جواب دیتے ہوئے میڈیا کو جاری کیے گئے بیان میں کہا کہ روس اور امریکی استعمار کو” پخیر راغلے ” کہنے والے افغانوں کی بربادی کے ذمہ دار ہیں۔ کاش ! اے این پی والے روسی یلغار ،امریکہ کے انسانیت کش مظالم اور ڈیزی کٹر بموں، پل چرخی، بگرام ائیر بیس، گوانتانامو کے ذریعے انسانیت ہی کی تذلیل کے متعلق لب کشائی کا تصور بھی کرتے تو ہم مان جاتے کہ واقعی آپ پختونوں کے غم خوار ہیں۔مگرایسا ہرگز نہیں پشتون عوام کی غم خواری کے دعویدار بلوچستان میں پانچ سال باپ پارٹی کی گائے کا دودھ پینے میں اس قدر مدہوش ہوگئے تھے کہ اپنی پارٹی رہنماؤں کے اغواء اور قتل کے موقع پر ان کے قائدین لواحقین سے تعزیت اور حکومت سے احتجاج کرنے کی بجائےکوئٹہ میں ان کی قیمت وصول کرنے کے لیے خفیہ دروازوں پر سجدہ ریز تھے۔اے این پی کے محترم صوبائی صدر آئندہ انتخابات میں شکست دیکھ کر اس قدر حواس باختگی کا شکار ہیں کہ انتخابات سے قبل ماحول کو پراگندہ کرنے کے لیے قدر آور سیاسی رہنماء پر الزامات لگاکر پشتون عوام کے درمیان نفرت کی کوکھ سے نئی سیاسی دکان چمکانا چاہتا ہے، جس کی اجازت یہاں کی قبائلی روایات نہیں دیں گی۔پشتون عوام کی دلی وابستگی جمعیت علماء اسلام کے ساتھ اتنی مضبوط ہے کہ قیادت اور کارکنوں پر خودکش حملوں ، بم دھماکوں شہادتوں کے باوجود قائد کے ایک حکم پر فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت اور اسرائیل کے خلاف ملک بھر میں نہ صرف لاکھوں کارکنوں نےزبردست احتجاج کیا بلکہ فلسطینیوں کے ساتھ ایک ارب روپے سے زائد رقم کی مالی مدد کی۔ فلسطینی عوام کی حمایت اب اے این پی سے ہضم اس لیئے نہیں ہورہی ہے کہ جمعیت کے جلسوں میں لاکھوں افراد شریک ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کہا اس سے قبل افغانستان کے زلزلہ زدگان کی مالی مدد کی۔دنیا کے مظلوموں کی حمایت اور ہرظالم سے بغاوت کسی پر احسان نہیں یہ ہماری جماعت کے نصب العین کا حصہ ہے ۔ اب پشتونوں کے یہ نام نہاد بھی بتائیں کہ پشتونوں کی نسل کشی میں استعمار کی حمایت، لروبر کے خالی خول نعروں اور پشتونوں کی مخبری کے علاؤہ ان کیلئے کیا کچھ کیا ہے؟.جمعیت علماء اسلام ملک کے نازک حالات کو سمجھتے ہوئے بڑی سنجیدگی کے ساتھ انتخابات میں داخل ہونا چاہتی ہے حالانکہ سیاسی منفی پروپیگنڈوں اور تاریخی حقائق کی روشنی میں ہر تنقید کا ترکی بہ ترکی جواب دینے کاحق رکھتی ہے مگر اس کے باوجود قیادت کارکنوں کو صبر وتحمل کی تلقین کررہی ہے۔اے این پی کے صوبائی صدر اصغر خان اور ایمل ولی کو بھی سوشل میڈیا اور ٹک ٹاک کھیلنے اور قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن پر بےجا تنقید کی بجائے حقیقی طور پر باچا خان کے پیروکار بن کر ان کی استعمار دشمن اور انسان دوستی کی پالیسی پر گامزن ہوکر سنجیدگی کے ساتھ سیاست کرنی چاہئے ،یہ ان کا حق ہے۔انتخابات ہی میں پتہ چل جائے گا کہ پشتون قوم کس کو جماعت کو بہی خواہ اور خیرخواہ سمجھتی ہے۔