ہم خداوں کے قاتل ہیں

0 220

تحریر محمدنسیم رنزوریار
9/11 ڈرامہ پوری دنیا کیلئے ایک عجیب وغریب واقعے سے کم نہیں رہی۔جسے پوری انسانیت کی تزلیل تضحیک کے علاوہ بشردوستی کے نام سے وہ بشردشمنی کے وقعات پیش آئے کہ جسے ہمارے مذھب اسلام کیا عسائیت اور یھودیت بھی شرمندہ نظر آرہے ہیں۔امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی مشترکہ جنگ و جبر میں نہ کوئی نائٹ کلب جلا نہ کوئی مندر میں بم پھٹ گیا نہ کوئی عیسائی یھودی مذھب کے سکالرز کو گولی سے مارا نہ کوئی شراب خانے میں میزائل لگا نہ کوئی ڈانس و رقص کے محفلوں پہ ڈرون گرایا اور نہ کوئی ہندو سکھ عیسائی یھودی اور نصرانی کا ایک بچہ ذبحہ ہوا ہاں البتہ مسلمانوں کے مدارس مساجد کی بے احترامی۔علماءکرام کو بے دردی سے شہیدکرانا۔شادی اور جنازوں میں بم بلاسٹ مسلمانوں کے بچوں کو ذبحہ اور بچیوں کو اغوا کرنے کی سلسلہ اور پورے عالم اسلام کے مذھبی شعار پہ مزاق مختلف ناموں سے اڑایا گیا۔آخر وہ کونسی جرم ہے کہ ہمارے والدین بہن بھائی بیٹا بیٹی اور دوسرے مسلمان ملت اور سب کو اسکا سزا دی جارہی ہے۔تاریخ لکھتے ہیں کہ فرعون نے بھی لڑکیوں کو نہیں بلکہ لڑکوں کو ذبح کرتے تھے کہ کہی موسیٰ پیدا نہ ہوجائیں۔یہ ظالم تو فرعون سے بھی بڑھکر انسانیت پر داغ لگا کر انسانی خون کی ندیاں بہائے۔عالم کفر جو آج اسلامی ممالک میں اسلام اور مذھب کے نام سے جو کاروائیاں کرتے ہیں یہ سب ہم سے تاریخ کا انتقام لینا ہے۔ایک وقت بڑی عید کے موقع پر مکہ مکرمہ میں موجود کافروں اور مشرکوں نے اپنے مصنوعی بتوں کی تعظیم میں خوب کھانے تیار کر رکھاگیا اور وہ خود سیر وتفریح کیلئے نکل پڑے اسکے جانے کے بعد حضرت ابراھیم علیہ اسلام آکر سب بتوں کو کلہاڑی سے تھوڑ موڑ کر پاش پاش کیا اور کلہاڑی کو بڑے بت کے گلے میں لٹکاکر چلے گئے جب مشرکین آکر دیکھنے ہی سے ماتم شروع کو حضرت ابراھیم علیہ اسلام کے پاس آکر پوچھاگیا کہ یہ ظلم آپ ہی نے ہمارے خداو ¿ں کیساتھ کیا ہے حضرت ابراھیم علیہ اسلام نے بخاطر اسلمی دعوت جواب میں فرمایا کہ وہ بڑے بت سے پوچھیں کیونکہ کلہاڑی اسی کے گلے میں لٹک رہاہے اس جواب ملنے سے تمام مشرکین لاجواب ہوکر کہا کہ وہ تو باتیں نہیں کرسکتا ہے تو حضرت ابراھیم علیہ اسلام نے فرمایا کہ ایسی خدا سے مدد مانگنا ایسی خدا کو عبادت کرنا ایسی خدا کی اطاعت وبندگی کا کیا فائدہ ہے جو نہ اپنے آپکو بچاسکتے اور نہ ہی آپکو کوئی نفع پہنچا سکتی ہے حضرت ابراھیم علیہ اسلام کی اس دلیل اور منطق سے تمام مشرکین لاجواب ہوکر اس عید کو بڑی غمگینی اور آفسردگی سے گزارا۔اس بتوں کی انتقام میں یہی عالم کفر نے بڑی عید کے موقع پر صبح سویرے عراق کے بادشاہ صدر صدام حسین ہی کو بھانسی دی کہ مسلمان ملت کو ہماری طرح غم اور صدمہ پہنچ جائے کیونکہ وہ تاریخ کو دیکھتے ہی انتقام لیتے ہیں۔مزید اسکے بس مسلمانوں کے خدا اور رسول کو نقصان پہنچانا نہیں تھا بس اس غم اور ضرب سے مسلمانوں کی دل ازاری کی۔اسکے علاوہ جب افغانستان میں شریعت کا نظام نافظ ہوا تو تحریک کے سربراہ اور سادہ فقیر شخصیت ملامحمدعمر مجاھد نے افغانستان کے سرزمیں میں موجود بتوں کو راکٹ لانچر سے اڑایاگیا تو اسے پہلے جاپان اور دیگر ممالک نے بڑے بڑے آفر کئے کہ ان بتوں کے عوض میں پیسہ لیں مگر تھوڑنا نہیں ہے لیکن ایک مجاھد اور نڈر بادشاہ کی دل ودماغ میں یہ رعب دبدبہ اور پیسوں کی گنجائش نہیں تھا اس نے بتوں کو تھوڑ کر باقائدہ کالے رنگ کے گائے بھی صدقہ کرکے ایک تیر دو نشان والی کہانی دہرایا۔ایک طرف پورے عالم کفر کو بتوں کی تھوڑنے سے صدمہ پہنچایا دوسری طرف انڈیائ کی خداو ¿ں کو ذبحہ کرکے دیناپر واضح کیا کہ اللہ ایک ہے اور وہ ایسی ذات ہے کہ جسے کوئی طاقت اور مخلوق نقصان نہیں پہنچا سکتاہے یہی کہانی اور تاریخ کی اوراق میں مسلمانوں کی یہ فتوحات زرین لکیروں سے شامل ہوگئے مگر اھل غیر مسلم پر موت کی طاری کی طرح اثر کرکے دکھایا کہ انہوں نے ابراھیم علیہ اسلام کی زمانے میں بتوں کا انتقام صدام حسین کو پھانسی سے لیا اور ملامحمدعمر کی دور حکومت میں بتوں کی تھوڑ موڑ کی انتقام کیلئے اتحاد بناکر مسلم امہ کے علمائ دانش ور مجاھدین اور دیگر کٹر مذھبی اشخاص کو طرح طرح ناموں سے شہید کرتے رہے ہیں۔یہ کویہ نئی بات نہیں ہے ایک عیسائی شخص جو غیر مذھب کا سب سے بڑا مذھبی سکالر تھا نے اسلام قبول کرکے باقاعدہ ایک کتاب برٹش انگلش میں بپلیش کیا اس کتاب میں انہوں نے بڑے بڑے انکشافات کئے ہیں کہ عالم کفر کے بڑے دانشوروں نے کلیساو ¿ں میں کئی بار میٹنگ کئے ہیں کہ ہم عالم اسلام پر کیسے غالب آسکیں گے تو اس پروگرام کی روشنی میں ہم نے مسلمان ملت کے مذھب اور ملک و معاشروں میں روشن خیال اور نام نہاد علمائ ادبائ سیاسی اشخاص انہی ملک میں اپنے پالے ہوئے افراد سے خرید کر انکے تصانیف انکے اشاعت اور انکے مشہور ہونے کیلئے بڑی رقم خرچ کرکے انہی ہی سے ہم اسلام اور مسلمان کو کمزور کرنے میں مصروف ہیں۔اور ہر منگل والی دن ہم عالم کفر کے کلیساو ¿ں میں اپنے دین کیبترقی و اشاعت کیلئے مجالس کرتے ہیں جیسے مسلمانوں ہمارے تبلیغی حضرات منگل کی مشورہ کرتے ہیں دین اسلام کی سربلندی کیکئے اسی طرح وہ اپنے دین کیلئے بھی یہی کوشش کرتے ہیں۔۔۔قیامت تک عالم کفر آرام سے نہیں بیھٹے گے نہ مسلمان ملت کو چھوڑینگے کیونکہ وہ ہر دور میں مسلمانوں کیکئے کسی نہ کسی طرح بہانے تلاش کر حملہ آور ہوتے ہیں وہ ہمیں اپنے ہی مذھب کی فتویٰ سے مسلم نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ ہم انکے خداو ¿ں کے قاتل ہیں۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.