نیشنل پارٹی بلوچستان کی حقیقی جماعت ہے، پروفیسر حلیم صادق
انٹرویو۔ قیوم بلوچ
بلاشبہ انسانیت کی خدمت عظیم عبادت ہے اور عبادت کے لیے اللہ تعالی نے اپنے نیک بندے مقرر کر رکھے ہیں.اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں دنیا میں کوئی صلہ نہیں ملتا نہ وہ اس کے طلب گار ہوتے ہیں گویا وہ گھاٹے کا کاروبار کرتے ہیں لیکن درحقیقت ان کا کاروبار اس پاک ذات سے ہوتا ہے۔ جو دو جہاں کا مالک ہے یہ عبادت کسی کسی انسان کے نصیب میں آتی ہے بلوچستان کے قدیم تاریخی علاقے “نوشکی “کے چھوٹے سے گاؤں/ کلی “نیام درگئ ” میں ایک ایسی شخصیت نے جنم لیا۔جو آج بلوچستان کے لیے بہت بڑا نام ہے۔دنیا اس شخصیت کو ” پروفیسر ڈاکٹر عبدالحلیم صادق سمالزئی ” کے نام سے جانتی ہے بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ براھوئی کے سابق چیئرمین، صادق سمالز ئی ٹرسٹ کے چیئرمین، اور بلوچستان اسٹیڈیز کے سابق ڈائریکٹر اور اب ” نیشنل پارٹی ” کے مرکزی رہنما پروفیسر ڈاکٹر عبدالحلیم صادق سمالزئی کسی تعارف کے محتاج نہیں انھوں نے طویل عرصے تک تعلیمی میدان میں بلوچستان کی خدمت کی اور کئی نامور شخصیات کی تعلیم و تربیت کی پروفیسر ڈاکٹر عبدالحلیم صادق سمالزئی نے زمانہ طالب علمی میں ہی سماجی خدمات کا آغاز کیا اور اپنے دن رات انسانیت کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے لیے وقف کیے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے 1985ءمیں سمالزئی ٹرسٹ بھی قائم کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ 1987ءمیں بطور لیکچرار سرکاری ملازمت سے وابستہ ہوئے اور 2016 ءمیں پروفیسر کا رتبہ حاصل کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالحلیم صادق سمالزئی نے متعدد کتابیں بھی لکھیں۔خصوصا براھوئی زبان کی ترویج کیلے بہت کام کیا۔انہوں نے بی ایڈ، پی ایچ ڈی، ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور ہومیو پیتھک میں بھی ماسٹرز کیا۔پروفیسر ڈاکٹر عبدالحلیم صادق سمالزئی نے بطور ڈائریکٹر بلوچستان اسٹیڈیز ریسرچ بھی کرائے۔ اس کے علاوہ ان کی صحافتی شعبے میں گراں قدر خدمات ہیں اور انہوں نے اپنی بیٹوں کو صحافت کی جانب راغب کیا جو تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ صحافتی میدان میں بھی فعال رہے اور اس جہدوجہد کو انھوں نے ” شال پبلشرز گروپ “کے تحت منظم کیا اس وقت اس گروپ کے تحت متعدد ، روز نامہ اخبارات اور ماہانہ میگزین شائع ہوتے ہیں۔ جن کے سرپرست اعلیٰ پروفیسر ڈاکٹر عبدالحلیم صادق سمالزئی ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی میں طویل عرصے تک خدمات انجام دینے کے بعد بالآخر 11 مارچ 2020ءکو سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے جب کہ 3 ستمبر 2020ءتک بلوچستان اسٹڈیز کے ڈائریکٹر برقرار ر ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالحلیم صادق سمالزئی کو انسانیت کی خدمت ورثے میں ملی ،ان کا ایک تاریخی کارنامہ یہ ہے کہ اپنی ضروریات سے بچت کرکے انھوں نے سبی روڑ دشت میں زمین حاصل کی جس پر ” مکتبہ حلیمیہ یتیم خانہ ” کی تعمیر کا ” بےمثال کارنامہ ” انجام دیا ۔اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس عظیم مقصد کے لیے انھوں نے کسی سے ایک روپیہ کی مدد حاصل نہیں کی۔بلکہ تاحال اپنی مدد آپ کے تحت اس پروجیکٹ پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر عبدالحلیم صادق سمالزئی تعلیم مکمل کرنے اور اس کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کرنے اور پھر ریٹائرمنٹ تک انتہائی فعال رہے۔ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے آرام کے بجائے عوام کی خدمت کو ترجیح دی اور سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔
پروفیسر ڈاکٹر عبدالحلیم صادق سمالزئی جو بلوچستان کے لیے بڑا نام ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد پیپلز پارٹی، بی این پی مینگل، بی این پی عوامی ،نیشنل پارٹی نے ان سے رابطے کیے اور پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی۔ماہر تعلیم ،عظیم سماجی شخصیت، نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما، سمالزئی ٹرسٹ کے بانی چیئرمین،شال پبلشرز گروپ کےپروفیسر ڈاکٹر عبدالحلیم صادق سمالزئی سے خصوصی ملاقات کا شرف حاصل ہوا جس کے دوران انہوں نے ہمارے سوالات کے جوابات انتہائی تفصیل اور خندہ پیشانی سے دیتے ہوئے۔ پہلے سوال کے جواب میں کہا۔کہ انسانیت کی خدمت عظیم عبادت ہے اور اس کے لیے کسی وقت کی قید نہیں چونکہ میرے آباواجداد بھی انسانوں کی خدمت پر مامور رہتے تھے جن کو دیکھ کر میری بھی یہی تربیت ہوئی اور زمانہ طالب علمی سے ہی میں نے دکھی انسانوں کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کی کوششیں شروع کی۔ اور پھر سمالزئی ٹرسٹ بھی قائم کی انہوں نے کہا کہ آج نفسہ نفسی کے دور میں جب ہر انسان پریشانی اور مسائل میں مبتلا ہے اگر آپ کسی ایک انسان کو خوشیاں دینے میں کامیاب ہوتے ہیں تو بلاشبہ اپ نے اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے وہ کام انجام دینے کے بعد آپ کو دلی اور ذہنی سکون محسوس ہوگا۔اور خود کو اللہ کے قریب تر محسوس کریں گے اگر آپ سارے دن میں کسی انسان کے کسی ایک مسئلہ پر مدد کرتے ہیں تو بڑی بات ہوگی میں نے ایمبولینس سروس بھی اسی سوچ کے تحت شروع کی جس سے غریب، لاچار،بے بس مریضوں کو مفت سروس دی جاتی تھی اب ” مکتبہ حلیمیہ یتیم خانہ ” قائم کرنے کا مقصد بھی یہی ہے۔ کہ جو بچے ماں باپ خاندان وغیرہ سے محروم ھوجاتے ہیں۔لیکن وہ معاشرے کا اہم حصہ ھوتے ہیں۔ انھیں اچھا اور زمہ دار شہری بننے کیلئے تعلیم کے حصول میں مشکلات درپیش نہ ھوں۔اور غریب اور لاچار انسانوں کی مدد کی جائے۔نیشنل پارٹی میں شمولیت کے سوال پر پروفیسر ڈاکٹر عبدالحلیم صادق سمالزئی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ سیاست کے ذریعے انسانیت کی خدمت کی جاسکتی ہے اگر یہ سیاست مخلصی پر مبنی ہو۔ریٹائرمنٹ کے بعد پیپلز پارٹی، بی این پی عوامی، بی این پی مینگل، سمیت دیگر جماعتوں نے شمولیت کے لیے رابطے کیے اس دوران نیشنل پارٹی کے سربراہ، سابق وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور ان کے دیگر ساتھی بھی رابطے میں رہے اور دو مرتبہ میرے “وتاخ” بھی تشریف لائے ان تمام سیاسی جماعتوں کے حوالے سے میں اپنے قریبی رفقاء، قبائل کے لوگ اور ساتھیوں سے مشاورت کرتا رہا تاہم نیشنل پارٹی اور بالخصوص ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو ہم نے خود سے قریب تر پایا۔ یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ تاریخ ساز شخصیت ہیں۔انھوں نے زمانہ طالب علمی میں بھی بلوچستان کی تحریک میں فعال کردار ادا کیا۔ صوبائی وزیر تعلیم اور وزیر اعلیٰ بلوچستان رہنے کے باوجود انھوں نے کوئی کرپشن نہیں کی ان کے خلاف آج تک کرپشن کا کوئی مقدمہ قائم نہیں ہوا انہوں نے بلوچستان اور یہاں کے عوام کی جو خدمت کی وہ تاریخ کا حصہ ہے جب میں بلوچستان اسٹڈیز کا ڈائریکٹر تھا۔ تو تربت میڈیکل کالج کی دورے کا موقع ملا جس کو دیکھ کر مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے میں یورپ کے کسی کالج میں کھڑا ہوں۔ اس عمارت کی تعمیر ،وہاں کا تعلیمی نظام اور ماحول دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہاں کے طالب علم اس کالج کا اسٹوڈنٹ ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ سب ڈاکٹر مالک بلوچ کے مرہون منت ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے صوبے کا مالک اور اختیاردار ہونے کے باوجود ایک روپے کی بھی کرپشن نہیں کی۔ یہی ایک مخلص لیڈر کا عمل اور پہچان ہے۔ اس کے علاوہ نیشنل پارٹی ایک جمہوری پارٹی ہے یہاں فیصلے اکثریت کی بنیاد پر جمہوری طریقے سے ہوتے ہیں کوئی ڈکٹیٹرشپ نہیں ہے۔ہر کارکن کو اس کی صلاحیتوں کے مطابق اس کا مقام حاصل ہے جبکہ دوسری جماعتوں میں شخصیت پرستی اور ڈکٹیٹرشپ ہے۔پیٹ پرستی اور گروہی مفادات۔کی سوچ ہے۔ نیشنل پارٹی جو عوام کے حقیقی جماعت ہے۔ نیشنل پارٹی نے کبھی دورغ گوئی کی سیاست نہیں کی۔نہ کبھی عوام کو سبز باغ دکھائے ہمیشہ عوام اور ان کے ووٹ کی قدر کی ہے اور مجھے یقین ہے کہ نیشنل پارٹی ہی بلوچستان کو پسماندگی کے دلدل سے نکالے گی۔میری عوام سے بھی اپیل ہے۔کہ وہ اپنے روشن مستقبل کے لیے نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم پر متحد ہوجائیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عبدالحلیم صادق سمالزئی نے اعتراف کیا کہ میری شمولیت کے موقع پر مجھے جس طرح عزت دی گئی جس طرح میرا استقبال کیا گیا وہ ہمیشہ مجھے یاد رہے گا۔
15 اکتوبر2022ءکو کوئٹہ پریس کلب میں عظیم الشان پروگرام منعقد ہوا جس میں ہزاروں لوگ موجود تھے اس موقع پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ۔ میرجان محمد بلیدی،میر عطاءمحمد بنگلزئی،رحمت صالح بلوچ ،عبدالصمد رند،نیاز بلوچ اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔مجھے “و یل کم”کیا گیا۔ جو میرے لیے اعزاز کی بات ہے
بلوچستان میں تعلیمی نظام سے متعلق سوال پر پروفیسر ڈاکٹر عبدالحلیم صادق سمالزئی نے افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان تعلیمی میدان میں انتہائی پستی کا شکار ہے۔ یہ المیہ ہے۔افسوسناک بات یہ کہ جہاں ہمارے بچوں نے تعلیم حاصل کرکے ملک و قوم کی بھاگ ڈور سنبھالنا ہے ان اسکولوں میں نواب، سردار، ٹکری ، ملک،متعبر کی بکریاں باندھی ہوتی ہیں یا ان کے “مہمان خانے” قائم ہیں۔ اسی طرح ایک بڑا ظلم ہمارے اساتذہ کرام کرتے ہیں جو اسکولوں میں پڑھانے نہیں جاتے صرف تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ ہمیں تعلیمی نظام کی تبدیلی کے لیے انقلاب لانا ہوگا۔ بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کے گریونس کمیٹی میں مبینہ کرپشن سے متعلق اخبارات میں بیانات کے بارے میں سوال کے جواب میں پروفیسر حلیم صادق نے کہا۔کہ گریونس کمیٹی میں بے قاعدگیاں ،کرہشن ،اقرباء پروری عروج پر ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کو اس کا فوری ایکشن لیکر کاروائی کرنی چاہیے۔ انھوں نے کہا۔کہ بلوچستان میں نصابی کتب کی چھپائی اور تعلیمی اداروں کی فراہمی کے عمل میں بدترین کرپشن ،بے قاعدگیوں ” انکشافات سامنے آئے ہیں.مبینہ طور پر گریونس کمیٹی نے نصابی کتب کی اشاعت کا ٹھیکہ پنجاب کی ایک ایسی کمپنی کو دیا ہے۔ جو کسی بھی طور پر اس اہم ذمہ داری کے لیے اہل نہیں اس ٹھیکہ کی” بولی یا ٹینڈر ” میں قواعد و ضوابط کی بدترین خلاف ورزیاں کر کے پنجاب سے تعلق رکھنے والی ایک کمپنی کو بھاری ” نزرانہ ” کے عوض دی گئی۔ جبکہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی کمپنیاں جو ہر حوالے سے اس کے حقدار ہیں۔ انہیں اس اہم ٹھیکہ سے محروم کیا گیا۔ جس کی تمام تر ذمہ داری گویونس کے سربراہ اور اراکین پر عائد ہوتی ہے۔انھوں نے کہا۔کہ مذکورہ کمپنی نے کتابوں کی اشاعت کا کام بھی شروع کر دیا ہے۔ جس میں ناقص مٹیریل۔، ردی کاغذ وغیرہ کے استعمال کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ انھوں نے کہا۔کہ جس طرح سے گیم چلایا جارہا ہے۔ یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے۔ کہ آئندہ تعلیمی سال میں 25 فیصد بھی نصابی کتب دستیاب نہیں ھونگی۔ جو تبائی کے سوا کچھ نہیں۔ اور یہ بھی انکشاف ھوا ہے۔ کہ مزکورہ کمپنی سرکاری طور پر کتب تقسیم کرنے کے بجائے خود کتابیں تقسیم کرنے کی پلاننگ کررہی ہے۔ تاکہ کرپشن کو چھپایا جاسکے۔ آئندہ تعلیمی سال میں نصابی کتب کی بروقت دستیابی مشکل نظر آرہی ہے۔ اور اگر کتابیں دستیاب ہوئی بھی تو ان میں را مٹیریل ناقص قسم کا استعمال کیا گیا جا رہا ہے۔ یہ کتابیں دو ماہ سے زیادہ عرصہ تک نہیں چل سکیں گی۔
قبائلی تنازعات کے متعلق سوال پرپروفیسر ڈاکٹر عبدالحلیم صادق سمالزئی نے کہا کہ اگر مخلصی کا مظاہرہ کیا جائے اور حقیقی کوششیں کی جائیں۔ ” ملامت کو ملامت اور سلامت کو سلامت کہا جائے۔ذاتی مفادات کو پس پشت رکھا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ قبائلی تنازعات حل نہ ہوں۔ علاقائی مسائل سے متعلق سوال کے جواب میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالحلیم صادق سمالزئی نے کہا۔ کہ سبزل روڈ اور سریاب روڈ کی توسیع عوام کیلئے عذاب بن چکے ہیں۔ ان دونوں روڈز کی تعمیر میں تاخیر نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے ان علاقوں میں کھدائی وغیرہ سے گیس اور پانی کے پائپ لائن تباہ ہو چکے ہیں۔ اور اطراف کے علاقوں کے ہزاروں انسان مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں اور دونوں منصوبوں میں مبینہ طور پر بڑے پیمانے پر کرپشن کا بازار گرم ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں پروفیسر ڈاکٹر عبدالحلیم صادق سمالزئی نے واپڈا کو خصوصی طور پر نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ واپڈا کے افسران اور دیگر عملہ فرعون بن چکے ہیں کسی کی نہیں سنتے۔خصوصا سریاب اور کرانی سب ڈویژن والے صرف عوام کو الجھاتے ہیں۔ انہوں نے کبھی مسائل کے حل پر توجہ نہیں دی انھوں نے کہا کہ میں شمسی نظام کے تحت واپڈا کو کم قیمت پر بجلی فراہم کرنے کو تیار ہوں۔اور ایک سال سے کوشش کررہا ہوں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ میری قدر کی جاتی۔ مگر افسوس کہ مجھے ٹرخایا جارہا ہے۔دفاتر کے چکر لگوائے جا رہے ہیں۔
“گپ شپ” کے آخر میں عوام کے نام پیغام میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالحلیم صادق سمالزئی نے کہا کہ عوام اپنے اچھے اور برے میں تمیز کریں عوام دھوکا دے کر ووٹ حاصل کرنے والوں کو پہچانیں بار بار آزمائے ہوئے عناصر کو مسترد کریں۔ حقیق اورحقدار نمائیندوں کا انتخاب کریں۔اور اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔