مزاح نگاروں کا کمانڈر ان چیف سید ضمیر جعفری

0 23

حسب منشا

ہمارے دوست جناب جبار مرزا بھی عجوبہ ء روزگار شخصیت ہیں ، تعلق نبھانے کے گر کوئی ان سے اسباق کی شکل میں سیکھے محبت کرنے والے انسان ہیں ، قامت میں قیامت کا انداز ، ماتھے کی شکنوں میں رات کے پچھلے پہر کے مدبھرے گیت ، آنکھوں میں حیا کی معصومیت ، دل میں ایمان کی حلاوت ، افکار و تصورات میں انسانی خدمت کی جھلک دکھائی دیتی ہے ، آپ اس گئے گزرے دور میں اچھے وقتوں کی حسین و جمیل نشانی ہیں ، سکوت و شگفتگی کا حسین امتزاج ہیں ، ضمیر و خمیر میں زعفرانی رنگ و نور کی چاندنی کا عکس ضمیر جعفری کی زندگی کی کتاب کا دیباچہ لکھا ہوا ہے ، مزاح نگاروں کا کمانڈر ان چیف سید ضمیر جعفری پر خامہ فرسائی ہی نہیں کی ، ربع صدی کا طویل عرصہ جعفری مرحوم کے خاندانی نظام زندگی پر تحقیق وجستجو میں صرف کر دئیے ہیں ان کے ددھیال اور ننھیال کوائف کی جمع بندی کو اگر انسائیکلوپیڈیا کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ، مرحوم ضمیر جعفری کے یٹے میجر جنرل احتشام ضمیر جنہیں مرحوم لکھتے وقت دل کانپ اٹھتا ہے مرحوم کی مرزا جبار صاحب سے بڑی عقیدت تھی اور ان کی شدید خواہش تھی کہ مزاح نگاروں کا کمانڈر ان چیف جلد شائع ہو ،

یہ کہتے ہوئے بلبل بس موند گئیں آنکھیں

اب دور خزاں آئے یا فصل بہار آئے

محترم جبار مرزا بے شمار محاسن کا مجموعہ ہیں وہ نظر بہ ظاہر ایک انسان ہیں ، لیکن اپنی ذات میں پورا ادارہ، ایک پوری تحریک اور ایک پوری یونیورسٹی ہیں ، میں تو ان سے بے پناہ متاثر اس لئیے ہوں کہ وہ ہمیشہ چھوٹوں سے بہت محبت کرتے ہیں ، میں اس وقت عمر کے لحاظ سے چھوٹا نہیں ہوں ، لیکن ان کا رتبہ بہت بلند ہے اور وہ بڑی بلندی سے جب وہ اپنے چھوٹوں سے ملتے ہیں تو ان کے انکسار میں ، میں ہمیشہ افتخار تلاش کرتا ہوں۔ مختار مسعود نے ایسی ہی جلیل القدر شخصیات کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ لوگ آبشار کی مانند ہوتے ہیں جو بلندیوں سے یہ کہتی ہوئی نیچے آ رہی ہوتی ہے کہ اگر آپ لوگ میری سطح تک بلند نہیں ہو سکتے تو میں خود ہی نیچے اتر کر تمہاری کشت ویراں کو سیراب کرتی ہوں اور یہ حقیقت ہے جناب جبار مرزا آبشار کی مانند ہیں الطاف حسن قریشی صاحب ان کے بارے میں جتنی محبت سے بات کرتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ ہم بڑی دیر تک ان کی باتیں کرتے رہتے ہیں اور آج یہ کتاب جبار مزار نے مزاح نگاروں کا کمانڈر ان چیف لکھی ہے بڑی ہی خوبصورت کتاب ہے اور الطاف حسن قریشی صاحب نے خوبصورت تحریر لکھی ہے کہ ہمارے محترم دوست جبار مرزا نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور بے پایاں شوق صحرا نوردی میں اردو ادب اور صحافت میں بڑا نام پیدا کیا ہے ان کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے دوستوں اور کرم فرماؤں کی بے حد قدر کرتے اور انہیں یاد رکھتے ہیں اس کا زندہ ثبوت وہ عظیم تخلیق ہے جو انہوں نے مزاح نگاروں کے کمانڈر ان چیف کے عنوان سے ترتیب دی ہے جو ہمارے عہد کے بے بدل شاعر اور ادیب سید ضمیر جعفری کی شخصیت اور ان کے ادبی کار ہائے نمایاں کے بارے میں ہے مرزا صاحب نے سید ضمیر جعفری کے احوال بے پرواہ اور ان کے ددھیال اور نھنیال کے وسیع و عریض کووائف جمع کرنے اور ان کی نثری اور شعری تخلیقات کے محاسن چن لینے میں اپنی زندگی کے 30 برس صرف کیے جو یقیناً غیر معمولی بات ہے اس تصنیف میں اس رشتے کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے جو سید ضمیر جعفری اور فوج کے مابین قائم رہا اور جس کی بدولت عظیم نظمیں اور مضامین جلوہ افروز ہوئے اس کتاب میں وہ سہرے بھی جمع کر دیے گئے جو شعری ادب میں لازوال موتیوں کی حیثیت رکھتے ہیں ان میں میرے بیٹے کامران کا سہرا بھی شامل ہے جو ہمارے خاندان کی روح کو تر و تازہ رکھتا ہے بلا شبہ جناب جبار مرزا کی یہ تخلیق اردو ادب میں بہت بڑا اضافہ اور معلومات کا بیش بہا خزینہ ہے ، میں انہیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے عجیب خوشی محسوس کر رہا ہوں اور میں بھی الطاف حسن قریشی کے ساتھ مل کر جناب جبار مرزا کی اس کاوش کو اللہ کی نوازش کہتے ہوئے ان کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
مزاح ہسنے اور طنز ڈسنے کا عمل ہے مزاح ایک کار اعزاز ہے اور طنز ایک خار زار ۔۔ طنز پسماندہ معاشروں میں نشو و نما پاتا ہے اور مزاح خوشحال معاشروں میں پروان چڑھتا ہے شاعری میں جتنی وضعداری ، پردہ داری اور رکھ رکھاؤ کا تکلف ہونا چاہیے طنز و مزاح میں اتنی ہی بے تکلفی درکار ہوتی ہے پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اس میں پسماندہ اور خوشحال دونوں قسم کے طبقات موجود ہیں چنانچہ ہمارے ہاں طنز و مزاح کا سلسلہ قدم بے قدم چلتا ہے ۔۔ پاکستانی ادب شناخت کی نصف صدی غفور شاہ قاسم کی تحقیق و تنقید سے ماخوذ یہ چند سطور مستعار لی گئیں ہیں جس میں صدیق سالک ، رستم کیانی، عطا الحق قاسمی ، نظیر صدیقی، مسعود مفتی ، محمد خالد اختر، ابراہیم جلیس، کرنل محمد خان، سید ضمیر جعفری مرحوم نے فوجی زندگی اور شخصیات کو متوازن مزاجی سے دیکھا اور اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں اس پر تبصرہ کیا ضمیر صاحب کے مزاح کی ایک اور جہت وہ ہے جو اعلیٰ مزاح کے نہایت معیاری نمونوں میں پائی جاتی ہے یعنی مزاح کی تہہ میں آنسوؤں کی ایک زیریں لہر کا موجود ہونا ۔۔ نثری مزاح میں ضمیر صاحب کی نمایاں اور باقاعدہ تصنیف 15 فکاہی خاکوں پر مشتمل ان کی کتاب ۔ اڑتے خاکے،، ہے اسی طرح ان کی کتاب کتابی چہرے بھی مزاح کی نمائندہ کتاب ہے سید ضمیر جعفری مرحوم کو نظم اور نثر پر یکساں قدرت حاصل ہے انہوں نے ایک اچھی مثال قائم کی ہے ان کے طنزیہ مزاحیہ کلام کا مجموعہ مافی الضمیر اور انگریزی کی منتخب مزاحیہ نظموں کے منظوم تراجم کا مجموعہ ولایتی زعفران شائع ہو چکا ہے انہوں نے کامیاب مزاح نگاری کی اپنی قائم کی ہوئی روایتوں کو بخوبی برقرار رکھا ہے انہوں نے سماجی ناہمواریوں اور انسانی حماقتوں کو اپنی مزاحیہ اور طنزیہ شاعری کا موضوع بنایا ہے ان کے موضوعات متنوع اور دلچسپ ہیں اور ان کا اسلوب برجستگی کا حامل ہے، جبار مرزا نے حق ادا کر دیا ہے ، اس کا انتساب ضمیر جعفری کے بیٹے میجر جنرل احتشام ضمیر کے نام جن کی مسلسل خواہش رہی کے مزاح نگاروں کا کمانڈ ان چیف جلد شائع ہو جن کی ولادت 13 مارچ 1949 لاہور اور وفات چار مئی 2015 کھاریاں میں ہوئی جن کی تدفین بحریہ ٹاؤن فیز فور راولپنڈی میں ہوئی ،

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں

خاک میں کیا ہوں گی کہ صورتیں پنہاں ہو گئیں

انتساب ثانی سید امتنان ضمیر کے نام

مزاح نگاروں کا کمانڈر ان چیف ایک رلا دینے والا ہاسا

مغلوں نے سادات کو ہمیشہ سر آنکھوں پہ رکھا۔۔ لیکن جب جبار مرزا نے سید ضمیر جعفری سے عقیدت کی انتہا کر دی ہے ۔ ۔۔

جبار مرزا ہمارے خاندانی رازداں ہیں ۔۔۔ مزاح نگاروں کا کمانڈر ان چیف نامی زیر نظر تخلیق میری بات کی تصدیق کرے گی۔۔۔

ابا نے (سید ضمیر جعفری صاحب)ڈائریوں کی صورت جو یاداشتیں قلم بند کی تھیں ۔۔۔ چند ایک شائع ہوئی ۔ مگر بیشتر جو میں امریکہ سے پاکستان احتشام بھائی کے گھر چھوڑ آیا تھا وہ ایک صندوق میں بند تھیں اور انہیں دیمک کھا گئی۔

گزرے 76 برسوں میں اس ان دیکھی دیمک نے وطن عزیز کے ساتھ کیا کیا کھلواڑ کیا ۔۔۔ سید ضمیر جعفری ہوں یا پاکستان دیمک ہمارا مشترکہ دشمن ہے مزاح نگاروں کا کمانڈر ان چیف رلا دینے والا ہاسا ہے ، رب تعالیٰ ان لفظوں کو قبول فرمائیں آمین یا رب العالمین ثم آمین ۔

اس کتاب کے 45 عنوانات ہیں کمال کی منتہی ہے کہ خوبصورت تحریریں خاص طور پر جبار مرزا کا عرض مصنف وہ بڑا خوبصورت ہے ۔ رقم دراز ہیں صبر و استقامت کا استعارہ زندہ ضمیر قلم کا ضمیر ادب شہری صافت مزہ نگاری اور کالم نویسی کا روشن ضمیر گھر معاشرہ ماحول کا ضمیر ضمیر حاضر اپ کا ضمیر ہم سب کا ضمیر قوم کا ضمیر

پیرو مرشد سید ضمیر جعفری
عطا الحق قاسمی جبار مرزا صاحب کے بارے میں رقم طراز ہیں

جبار مرزا صاحب ہمارے نظریاتی اور ہم خیال قلم کار ساتھی ہیں ۔۔۔ نصف صدی کے تعلق میں عقیدت کا یہ عالم کہ ہمیں پیروں اور مرشدوں کا درجہ دیئیے ہوئے ہیں جبار مرزا صاحب یادوں کو پرزہ پرزہ سنبھال رکھتے ہیں ان کی کئی کتب نظر سے گزریں ۔۔۔ ایک نئی دنیا پڑھنے کو ملتی ہے ۔۔۔

مگر مزاح نگاروں کا کمانڈر ان چیف سید ضمیر جعفری۔۔۔ ہمارا مشترکہ اثاثہ ہے۔۔۔ ہم دونوں کا اپنے پیر و مرشد ضمیر جعفری صاحب کا اتفاق ہے۔۔۔ البتہ صفحہ 238 چیدہ چیدہ میں سید ضمیر جعفری سے جڑے ۔۔۔۔ سیٹھ اے ڈی ادیب ،، والے واقعے سے اختلاف میں میری عقیدت کو عمل دخل ہے مزاح نگاروں کا کمانڈر ان چیف بہت ہی کمال تحقیق ہے بعض ایسی باتیں جو کئی مقالہ نگاروں کی بھی نگاہ سے پوشیدہ رہیں ۔۔ جبار مرزا صاحب نے وہ سپرد قلم کر دیں ۔۔ اس کتاب میں ہماری ایک صدی کی ادبی۔۔ فوجی۔۔۔ لسانی۔۔۔ اور ۔۔ معاشرتی۔۔۔ تاریخ۔۔۔ محفوظ ہو گئی ہے ۔۔ خوش رہیں جبار مرزا صاحب۔۔۔

ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے بھی ضمیر جعفری اور کشمیر کے حوالے سے خوبصورت لکھا ہے جبار مرزا کے کرتوت محققانہ ہیں مگر میں نے کبھی انہیں سکہ بند محقق سمجھا نہ تھا لیکن زیر نظر محققانہ اور تخلیقانہ سلیقے سے ایک ایسی کتاب تحریر ہوئی ہے کہ میں برادرم جبار مرزا کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

محمد احمد ترازی بھی رقم طراز ہیں سید ضمیر جعفری ادبی دنیا کی منفرد اور ممتاز شخصیت تھے دنیائے ادب کو اپنی مزاحیہ تاریخ سے کشت زعفران بنانے والے سید ضمیر جعفری کسی تعارف کے محتاج نہیں ان کی ظریفانہ تخلیقات نے طنز و مزاح کی دنیا میں جو جولانی پیدا کی اس کے اثرات اردو ادب پر دیکھے جا سکتے کے جا سکتے ہیں ۔ ڈاکٹر جبار مرزا ادب و صحافت کا ایک معتبر نام ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ جبار مرزا نام نہیں برینڈ ہے تو بے جا نہ ہوگا ان کے نام کے ساتھ ادیب صحافی ایڈیٹر لکھنے کی ضرورت نہیں ان کا نام ہی کافی ہے علامہ عبدالستار عاصم رقم طراز ہیں مزاح معاشرے کا حسن ہوتا ہے۔۔۔ آبرو اور وقار ہوتا ہے ، سید ضمیر جعفری اسم با مسمہ تھے ۔۔ وہ معاشرے کا ضمیر تھے ماحول کو خوشگوار رکھا۔۔ مزاح کے پردے میں بیداری اور ذمہ داری کی تحریک دی۔۔۔۔

شوق سے لخت جگر، نور نظر پیدا کرو

ظالموں تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو

کراچی سے جناب ضیاء الحق قاسمی نے ضمیر جعفری کی لندن روانگی کے عنوان سے قطع لکھا تھا وہ بہت خوب تھا

طنز و مزاح آج بھی کتنا اداس ہے

سید ضمیر جعفری لندن چلے گئے

وہ کیا گئے بزم طرب ہی بکھر گئی

جیسے واشنگٹن سے کلنٹن چلے گئے

مزاح نگاروں کا کمانڈر ان چیف

ضمیرجعفری کا یہ شعر یاد آتا ہے تو جبار مرزا کا حسن انتخاب دیکھیں

عصر حاضر تجھ کو کیا معلوم ہم کیا لوگ تھے

جو صدی آئی نہیں اس کی صدا ہم لوگ تھے

اخر میں سید ضمیر جعفری کی دودھ پانی والی نظم پر اختتام کرتے ہوئے سید ضمیر جعفری مرحوم کی روح کے ایصال ثواب کے لیے تمام احباب سے اپیل کروں گا۔

غیر کے نہری رقبے سے اپنا بنجر بارانی اچھا

شہری انجانوں سے اپنے گاؤں کا بابا جانی اچھا

مصری سے ملتانی بہتر ، بصری سے بجرانی اچھا

لندن پیرس سے اپنا یہ ڈیرہ غازی خانی اچھا

قرض کے ریشم سے ہم کو اپنا پتھر بولانی اچھا

مانگے تانگے دودھ سے لوگ و اپنا سادہ پانی اچھا

میری نظر سے اتنی تحقیق اور گہرائی و گہرائی والی کتاب ابھی تک نہیں گزری کسی شخصیت کے حوالے سے اس کے عقب میں مصنف کی بالہانہ محبت محسوس ہوتی ہے اور سید ضمیر جعفری سے عقیدت کا کیا عالم ہوگا کہ 30 سال مصنف نے اس کتاب کی تحقیق میں لگا دئیے
اختر شیرانی کا اخراج تحسین 1945 میں۔

جعفری ویران ہے بزم دوستاں تیرے بغیر

کون راوی میں چلائے کشتیاں تیرے بغیر

اس کتاب کے مصنف جبار مرزا اور جملہ حقوق بحق محمد شہریار مرزا محفوظ ہیں

علامہ عبدالستار عاصم ۔ سلمان علی چوہدری نے بڑی خوبصورتی سے اہتمام کیا ہے سر ورق محمد مختار علی کے خامہ عنبر شمامہ کا عکاس ہے حسن طباعت میں محمد احمد ترازی کا کردار جزو اعظم ہے ۔

یکم جنوری 2024

پہلا ایڈیشن

سید ضمیر جعفری کی 108 ویں سالگرہ پر

کل صفحات 378

تعداد ایک ہزار اور قیمت تین ہزار روپے 40 امریکی ڈالر

قلم فاؤنڈیشن بینک سٹاپ والٹن روڈ لاہور کینٹ سے حاصل کی جا سکتی ہے

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.