“سلگتا سوال” کیا شاری بلوچ کا اقدام درست ہے؟؟؟
کیا خود کش حملے
بلوچوں کے مسائل
کا حل ہیں؟؟؟
پنجاب سے ایک بہن/
بیٹی کا خصوصی
تحریر و تجزیہ،،
ای میل،،
رمضان المبارک کے نیک لمحات میں کراچی یونیورسٹی میں ہونے والا دھماکہ ایک نہایت ہی خوفناک سانحہ ہے جس سے جامعہ کراچی اور اہل کراچی کے ساتھ بلوچستان سمیت پاکستان کی فضا میں ہراس و خوف اور وحشت کی سی کیفیت ہے اور دوسری طرف یہ ہر درد دل رکھنے والوں کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے ہر با شعور شخص مرد و عورت اور بچے و بوڑھے انگشت بدنداں ہیں کہ ایک خاتون جو ایک ماں بھی ہے آخر ایسا کیا ہوا کہ ایک ماں بمبار بنی اور دوسری طرف یہ حقیقت بہت دل 💓❤️ دہلانے والی ہے کہ جب ایک ماں بم باندھتی ہے تو حالات کس نہج پہ پہنچ جاتے ہیں بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور صوبے کے نصف آبادی پر مشتمل بلوچ قبائل کا یہ خیال ہے کہ یہ وسائل ان کی ملکیت ہیں تمام ملک ان سے استفادہ کر تا ہے اس لئے ان وسائل کی قیمت انہیں ادا کی جائے اس مطالبے کے پیچھے کیا ذہن ہے آیا ان کے یہ مطالبات درست ہیں یا نہیں یہ ایک الگ سوال ہے
کیا جو شاری بلوچ کا رد عمل ہے وہ درست ہے شاری بلوچ ایک باشعور خاتون تھیں ان کے اس اقدام سے مایوسانہ رویہ سامنے آتا ہے احتجاج اور اپنے حقوق کی جنگ کے لئے یہ طریقہ کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں دنیا کا کوئی بھی معاشرہ کس بھی شہری کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا علم انسان کو شعور اور اگہی بخشتا ہے احتجاج کے بھی ایک ہزار ایک طریقے ہیں ۔انسانی تاریخ گواہ ہے کہ قلم دنیا میں انقلاب لانے کا ایک بڑاذریعہ ہے اور مشہور مقولہ ہے کہ قلم تلوار سے زیادہ طاقت ور ہے،اور اپنے مطالبات کو منوانے کے لئے اپنے دلائل اور اپنے الفاظ کو بلند کیا جائے یہ زیادہ مناسب ہے اس سے کہ ہتھیار بلند کیا جائے، آج بھی ہم پڑھنے لکھنے اور اعلی تعلیم یافتہ کہلانے کے بعد بھی وقت اور حالات کے تقاضوں کو نہ سمجھیں;تو وہ وقت دور نہیں کہ ہمارا دشمن اپنی سازشوں میں کامیاب ہو جائیں گے،
یونیورسٹیوں کی سطح پر طلبا کو آگاہی دی جا ئے قلم کے ذریعے سیمینارز منعقد کئے جائیں اپنے مطالبات منوانے کے لئے پر امن احتجاج کیا جائےیہ زیادہ مناسب ہے اس سے کہ گولہ بارود برسایا جاۓایک ماں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اس کے پیش نظر اپنی اولاد کی بھلائی ہوتی ۔ذرا سو چیے ایک ماں جب کوئی ایسا قدم اٹھاتی ہے تو وہ درد کی کس انتہا پہ کھڑی ہوتی ہے
,,,وقت کرتا ہے
پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔،،،
اور اگر طبقاتی تقسیم کی بات کریں یا غیر مساوی حقوق کی بات کریں تو پاکستان کا کونسا سا صوبہ جہاں عوام غربت اور ظلم کی چکی میں نہیں پس رہے ہیں پنجاب ہی کو دیکھ لیجئے یا اندرون سندھ کی حالت بلوچستان سے کتنی مختلف ہے کیا انکااپنے وسائل پہ حق نہیں کیا وہ پاکستانی نہیں ہیں جی ہاں خیبر پختونخواہ کے قبائلی عوام کا پاکستان اور پاکستانی وسائل پہ حق نہیں ۔ابھی بھی وقت ہے سیاستدان اپنی ذاتی لڑائیوں میں پاکستان کے نفع و نقصان کو بالکل بھلا بیٹھے ہیں اور یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ حکمران اور سیاستدان طبقہ خواہ وہ کسی بھی صوبے سے تعلق رکھتا ہے انکے لئے ملک و قوم سے بڑھکر اپنی بھلائی ہی پیش نظر ہوتی ہے
اور مراعات سے ایک مخصوص طبقہ ہی فیض یاب ہو تا ہے ۔
یہ حکمرانوں ہی کی ناہلی تھی کہ ہم ماضی میں سقوط ڈھاکہ کی صورت میں ایک زخم کھا چکے ہیں تب بھی جنگ غیر
غیر مساوی حقوق ہی کی تھی،
ہمیں اپنے حقوق کی جنگ پر امن طریقے سے لڑنی ہے ہم مزید کسی نقصان کے متحمل نہیں ہو سکتے _ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اج جو گروہ اس سانحے کی ذمہ داری قبول کر رہی ہے کل اگر وسائل انکے ہاتھ میں آتے ہیں تو ایک ان پڑھ شخص بھی جانتا ہے کہ وہ لوگ جن
کو آج دھماکوں کے لئے استعمال
کیا جا رہا ان پر اتنا ہی خرچ کیا جائے گا جتنا کہ ہمارے حکمران ملک و قوم کی بھلائی پر خرچ کر رہے ہیں ضروت اس امر کی ہے کہ کسی کے آلہ کار بنے بنا اپنے حقوق کی جنگ لڑی جائے۔
کیا خود کش حملے بلوچوں کے مسائل کا حل ہیں۔ بالکل نہیں بلوچ پاکستان کے بااختیار اور تعمیری سوچ رکھنے والی زبردست قوم و ملت ہے جس نے اپنے تاریخی ارتقاء کے ساتھ ساتھ تہذیبی و ثقافتی تبدیلیوں کے باعث معاشرتی اور سیاسی وابستگیوں کے احیاء کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اور حکمت کا راستہ اختیار کرنا ہے ###