اخلاق کا اسلامی تصور
نور حسین افضل
کسی بھی معاشرے کے لیے اعلیٰ اخلاق اور مثالی کردار جز لاینفک شمار ہوتے ہیں۔ اس سے کسی بھی معاشرے کی جانچ کی جا سکتی ہے جبکہ اعلیٰ اخلاق دین اسلام کا ایک اہم جز ہے۔
یونان، روم اور یورپ کے حکمائے اخلاق نے اخلاق کے مختلف پہلو¶ں پر خوب بحث کی ہے۔ کسی نے اخلاق کی بنا جذبات پر رکھ دی، کسی نے عقل پر، کسی نے حسن اخلاق کو فطرت کا قانون قرار دیا اور کسی نے اسے سوسائٹی کی ضرورت سمجھا۔ کسی کے نزدیک یہ ضمیر کی آواز ٹھہرا اور کسی نے اسے وجدانیت کا قانون خیال کیا۔ کسی نے اسے روحانی لذت کا سرچشمہ بتایا۔ یہ لوگ اگر کسی حد تک کام یاب ہوئے بھی تو صرف یہاں تک کہ بجز نیک ارادے کے کوئی عمل بھی نیک نہیں کہلا سکتا۔
مگر یہ علمائے اخلاق ارادے کی صحیح جہت کا تعین نہیں کر پائے۔ ان کی تحقیقات ہرگاہ اس نکتے پر منتج ہوکر رہ جاتی ہیں کہ نیکی کا مقصود محض ایک خاص راحت، تسکین، مسرت اور انبساط کی لذت کے سوا کچھ بھی نہیں۔
اسلام میں حسن اخلاق یعنی نیکی کی غرض مسرت نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصود اللہ کی رضا جوئی ہے جس طرح شریعت کاملہ کا مقصود نفس عمل نہیں، بلکہ اس کا اصل مطلوب رضائے الٰہی ہے، اسی طرح اسلام میں اخلاق حسنہ کی بھی غرض و غایت اللہ کی خوش نودی ہے۔ چناں چہ اخلاق بھی عبادات میں شامل ہے۔
احساس رضا جوئی کا مایہ خمیر تقویٰ ہے اور تقویٰ تمام نیکیوں کا محرک ہے۔ تقویٰ صدیقین اور صالحین کی ایک امتیازی فضیلت ہے۔
مشہور ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جبریل علیہ السلام نے ایک بار پوچھا کہ احسان کیا ہے یعنی عبادت کا کمال کیا ہے؟ بہ الفاظ دیگر اللہ کی عبادات کیسے کی جائیں اور کس طرح اللہ کے احکام کی تعمیل کی جائے؟ آپ نے فرمایا: یوں کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو یوں کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔
یہ تقویٰ کی تعلیم تھی جو آپ نے دی۔ یعنی ایک موثر انداز میں یہ احساس دلایا کہ اس کارخانہ حیات میں کوئی ہستی موجود ہے جو ہمارے دل کے ہر گوشے کو ہر طرف سے جھانک رہی ہے۔ ہم مجمع عام میں ہوں یا کنج عزلت میں، اندھیرے میں ہوں یا روشنی میں، بہر صورت ایک ہستی موجود ہے جس کی آنکھیں بندے کے دل کی تہ کو ہزار پردوں میں بھی دیکھ رہی ہیں۔ تقویٰ کی نسبت سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم (الحجرات: ۳۱)
(درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے)
یہ واضح رہے کہ رسول کریم ہی سب سے اکرم ہیں۔ ان کے اخلاق کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے شہادت دی ہے:
انک لعلیٰ خلق عظیم (القلم: ۴)
(بے شک آپ اخلاق کے بلند رتبے پر ہیں)
ایک بار ایک شخص نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے دریافت کیا: آپ کے اخلاق کیا تھے؟ انہوں نے فرمایا: کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ یعنی آپ کے اخلاق تو وہی کچھ ہیں جو قرآن کی تعلیمات ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة (الاحزاب: ۱۲)
(درحقیقت تم لوگوں کے لیے رسول اللہ میں ایک بہترین نمونہ ہے)
خود آپ نے بھی فرمایا:
انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق (متفق علیہ)
(میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں)
آپ نے بھی فرمایا:
ان خیارکم احاسنکم اخلاقاً (بخاری ۔ ترمذی)
(تم میں سے بہترین لوگ وہی ہیں جو اخلاق کے لحاظ سے سب سے اچھے ہیں)
قرآن حکیم کا یہ دعویٰ سچا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمر بھر ”خلق عظیم“ پر رہے۔ اس ضمن میں آپ کی زندگی کے دو لمحے ایک لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ ایک لمحہ فتح و نصرت کا ہے۔ سن ۸ ہجری میں آپ کو اہل مکہ پر ہر قسم کے سلوک کا پورا اختیار حاصل ہوگیا تو آپ نے فرمایا:
لا تثریب علیکم الیوم
(آج کے دن سے تم پر کوئی الزام نہیں)
یعنی آپ نے ان کی غلطیاں معاف کردیں اور پھر اس کے بعد اہل مکہ کی تقصیر کا تذکرہ بھی نہ ہوگا۔ دوسرا لمحہ وہ ہے کہ جب غزوہ احد میں لشکر اسلام پراگندگی کا شکار ہوگیا۔ آپ کے رخسار پرنور پر زخم بھی آئے۔ آپ قدرے پہاڑ کی بلندی پر چلے گئے۔ جہاں ابو عبیدہ بن الجراحؓ نے خود کے حلقے، جو ہڈی میں پیوست ہو گئے تھے، اپنے دانتوں سے کھینچ کر باہر نکالے۔ پانی مہیا کیا گیا۔ آپ نے ریش مبارک کو دھویا۔ قریش کی ناہنجاری پر صحابہ کرامؓ غم و غصے سے تڑپ رہے تھے، مگر آپ نے بہ کمال رفعت فرمایا: اے اللہ میری قوم تیرے رسول کو نہیں پہچانتی، ان پر رحم کر۔
یہ تھا خاتم النبین رحمتہ للعالمینؓ کا اخلاق اور یہی اخلاق کا اسلامی معیار ہے۔
دنیا کے ہر نظام میں نیک و بد کی تمیز اور خوب وزشت کے امتیاز کے لیے کچھ معیارات ہوتے ہیں اور کچھ اقدار ہوتی ہیں جن سے اس معاشرے کا ڈھانچا بنتا ہے۔ یہی اقدار اس کے ضابطہ اخلاق سے عبارت ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ زندگی کے تمام شعبوں اور تمام اعمال میں، چاہے وہ ذاتی ہوں یا سماجی، انفرادی ہوں یا اجتماعی، وہ روح جاری و ساری ہوتی ہے جو ضابطہ اخلاق سے منور ہوتی ہے۔ اسی روح کو اپنانے سے اس معاشرے کا فرد پسندیدہ اور مقبول ہوتا ہے اور اسی روح سے صرف نظر کرنے کی بنا پر معتوب و نامقبول ہوتا ہے۔ جب ہم ”زندگی کے تمام شعبوں“ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس میں معاشرت بھی آ گئی اور سیاست بھی۔ صنعت بھی آ گئی اور معاش بھی۔ تعلیم بھی شامل ہو گئی اور فنون و علوم بھی۔ یہ سب چیزیں اگر ضابطہ اخلاق سے مفاہم نہ ہوں تو کسی معاشرے کے لیے یہ خوش آیند بات نہیں ہوتی اور اس معاشرے کا جما¶ اور استحکام متاثر ہوتا ہے۔ یہ صورت جتنی شدت کے ساتھ اور جتنی وسعت کے ساتھ ہوگی اتنی ہی شدت کے ساتھ معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا اور ہم آہنگی کم ہوگی۔
اسلام ایک ایسا متوازن نظام ہے جس میں اخلاق اور اخلاقی اقدار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ فرد ہو یا معاشرہ، اسلام کی اخلاقی اقدار کی سب پر حکمرانی ہوتی ہے۔ اسلام انسان کو ایک ایسا مکمل ضابطہ اخلاق عطا کرتا ہے جس کے نتیجے میں تمام ذاتی اور سماجی اعمال ایک سلسلے میں مربوط ہو جاتے ہیں۔ اسلام ضابطہ اخلاق کی رو سے ایک انسان مسجد ہی میں اطاعت شعار نہیں ہوتا، بلکہ پارلیمنٹ میں بھی وہ حق پرست ہوتا ہے اور اس کو ہر جگہ ایک سچا اور کھرا انسان ہونا چاہیے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم زندگی کے کسی بھی شعبے سے منسلک ہوں، ہمیں اعلیٰ اخلاق اور مثالی کردار کا دامن تھامے رہنا چاہیے تاکہ ہماری دنیاوی اور اخروی زندگی مثالی بن سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مرضیات پر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔