اسلام آباد نے بلوچستان کے ساتھ کبھی بھی وعدوں پر عمل نہیں کیا،،ثناءبلوچ
کوئٹہ (ویب ڈیسک)بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماءورکن صوبائی اسمبلی ثناءبلوچ نے کہاہے کہ اسلام آباد نے بلوچستان کے ساتھ کبھی بھی وعدوں پر عمل نہیں کیا،بلوچستان کامسئلہ سیاسی تھا جو مس ہینڈلنگ اور غیرسنجیدگی کی وجہ سے کنفلیکٹ کی شکل اختیار کرگیاہے اس کنفلیکٹ کے تمام تر سیاسی ،معاشی ،سوشو سائیکلولوجیکل محرکات جس نے عوام میں جڑیں بنالیں ہر آدمی ریاست سے ناراض ہیں ،بلوچستان میں اداروں کو ایڈہاک ازم پالیسی ترک کرناہوگی ریاست اور حکومت کو بلوچستان کے لوگوں میں اپنااعتماد پیدا کرنے کی ضرورت کے ساتھ ساتھ مسئلے کے مستقل حل کیلئے اقدامات اٹھانے چاہئیں ،ان خیالات کااظہار انہوں نے نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ ثناءبلوچ نے کہاکہ بلوچستان میں ناراض بلوچوں سے بات چیت کا یہ پہلا تجربہ نہیں 2004ءمیں بھی بلوچستان کے مسائل پر کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا میں بھی حصہ تھا جس نے بعد میں 18ویں ترمیم کاشکل اختیار کیا،اس کمیٹی نے ایک بہت ہی جامعہ حکمت عملی بنایا اس پارلیمانی کمیٹی کے ٹرم آف ریفرنس بنایاگیا جس میں 30سے 40کے قریب قومی اسمبلی اورسینیٹ سے سینئر سیاست دان شامل تھے لیکن وہ کمیٹی بھی ناکام ہوئی ،اس کی ناکامی کا بنیادی وجہ یہ تھا کہ کسی بھی ایک شخص سے بات ہوسکتی ہے لیکن بلوچستان میں اب جو حالات چیلنجز ہے جہاں اسٹیک ہولڈرز بہت زیادہ ہوگئے مسائل ہیں اب ہر گھر سے ایک فرد متاثر ہواہے نوابزادہ شاہ زین بگٹی نے جو باتیں کی سب سے پہلے ہمیں مسئلے کو سمجھنے کی ضرورت ہے بلوچستان کا مسئلہ سیاسی تھا اس کے بعد 1948ءکے بعد اس مسئلے کو مثبت انداز میں ہینڈل نہیں کیاگیا تو یہ ڈویلپمنٹ اور معاشی مسئلہ بن گیا اور پھر یہ بدانتظامی کاشکار ہوا جس سے یہ کنفلیکٹ میں تبدیل ہوا ،لاپتہ افراد ،آئی ڈی پیزتمام تر کنفلیکٹ کا نتیجہ ہے ،ہمیں سب سے پہلے اس کنفلیکٹ کوسمجھنے کی ضرورت ہے آئی ڈی پیز کولے جایاجائے تو پھر 20ہزار آئی ڈی پیز اور5ہزارلاپتہ ہوںگے اس کنفلیکٹ کے تمام تر سیاسی ،معاشی ،سوشو سائیکلولوجیکل محرکات جس نے عوام میں جڑیں بنالیں ہر آدمی ریاست سے ناراض ہیں انہوں نے کہاکہ ریاست ماں کی طرح ہے اور جب بھی کوئی کنفلیکٹ حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس میں شرائط نہیں رکھے جاتے اگر کوئی بچہ یااس کا شہری بہت زیادہ ناراض ہے علیحدگی کی بات کرتاہے آپ کے پاس وسائل ہیں انہیں قائل کیاجائے وہ ناراض کیوں ہوئے ہیں ریاست کے ساتھ موجود وسائل کوملا کر بات چیت کی جائے ۔ثناءبلوچ نے کہاکہ اداروں کی بلوچستان سے متعلق ایڈہاکزم پالیسی ہے بلوچستان میں جب حالات خراب ہوجاتے ہیں تو پھر کہاجاتاہے کہ آئیں بات چیت کرینگے جب بلوچستان میں حالات ٹھیک ہوجاتے ہیں تو پھر بلوچستان کو بھلادیاجاتاہے بلوچستان کامسئلہ سیاسی جب تک اس کامستقل حل تلاش نہیں کیاجاتا یہ مسئلہ جوں کا توں رہے گا بلوچستان میں اتنی قابل حکومت نہیں کہ کل کو تمام تر پروسس کو فالو کرسکیں وفاق نے فیصلہ لیاہے جبکہ صوبے میں ہر ضلع میں ایک نیا کنفلیکٹ خود ابھررہاہے تمام اسٹیک ہولڈرز سیاسی جماعتیں جن کی سینیٹ ،قومی اسمبلی ،صوبائی اسمبلی میں موجودگی ہے ،بی این پی ،نیشنل پارٹی ،جمہوری وطن پارٹی ،جمعیت علماءاسلام سمیت دیگر جو اسٹیک ہولڈرز ہیں ان پر اوپن ڈسکشن ہونی چاہےے بلوچستان کے مذاکرات خفیہ نہیں ہونے چاہئیں ،اگر کوئی علیحدگی کی بات کرتاہے تو یہ مسئلہ شروع کہاں سے ہوا ریاست کے دل اور گردے بڑے ہونے چاہئیں ریاست ایک فرد نہیں ہے اس کیلئے ایک سنجیدہ سیاسی قیادت کی ضرورت ہے ۔ثناءبلوچ نے کہاکہ کوئٹہ میں تقریباََ16سے 17گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے مذاکراتی عمل میں اگر زیادہ لوگ ہوں تو اس کے خراب ہونے کا خدشہ ہے لیکن میں سمجھتاہوں کہ بلوچستان کے تمام تر مسئلہ میں ایک وجہ یہ ہے کہ وہ مس ٹرسٹ کا ہے جتنی کوششیں ہوئی مسائل کے حل کا لیکن بداعتمادی بڑھی ،اسلام آباد کی جانب سے کبھی بھی وعدے وفا نہیں کئے گئے 1948سے لیکر آج تک دیکھاجائے ریاست پر عوام کااعتماد اس وقت ہوتاہے جب سب سے بڑا عنصر اعتماد برقراررکھاجائے ، دوحہ مذاکرات10سال سے جاری ہے لیکن افغانستان میں امن نہیں آیا تمام اسٹیک ہولڈرز آمنے سامنے بیٹھ گئے بلوچستان میں افغانستان کے سطح کے کرائسز نہیں ہے لیکن لوگوں میں اعتماد برقراررکھنا سب سے لازمی ہے ،لاپتہ افراد ،آئی ڈی پیز کامسئلہ حل کرناہوگا،نچلی سطح پر مسائل کوسمجھنے سے ریاست اور ریاستی اداروں پراعتماد بڑھے گا،افغانستان کے ساتھ ہمارا ایک ہزار کلومیٹربارڈر ہے بہت سے لنک ہے اس کے اثرات بھی دیکھنے کو ملی ہے وزیراعلیٰ ہاﺅس کے ساتھ ریلی گزری طالبان کی جیت کاجشن منایاگیا ،عمران خان اور اس کے سپورٹرز سے بہت بڑی غلطی یہ ہوئی کہ گزشتہ تین سالوں میں ایسی مضبوط گورننس کی ضرورت تھی گزشتہ 30سالوں میں سیاسی ڈپریشن ،مایوسی بڑھ گئی ہے ایڈہاکزم کی پالیسی ترک کرناہوگی بلوچستان کے معاملے پرجن لوگوں سے مذاکرات کی جائےگی یہ تاثر ختم ہوناچاہےے انہیں سنجیدگی چاہےے ،اعتماد کی بحالی وقت کی ضرورت ہے جن لوگوں کے پاس لاپتہ افراد ہے وہ جانتے ہیں جب 4سے 5سو لوگ گھر پہنچیںگے تو ہی اعتماد بحال ہوگا مسائل اس وقت جنم لیتے ہیں جب رولز میں رولز ،ریاست کے اندر ریاست اور جوڈیشری کے اندر جوڈیشری بنائی جائے بلوچستان کو مستحکم بنانے کی ضرورت ہے ،ہم سب سے زیادہ متاثر ہیں بلوچستان میں شرح تعلیم سب سے کم ،بے روزگاری سب سے زیادہ ،بجلی ،پانی سے ہم محروم ہیں ،سینکڑوں مسائل ایک ساتھ چل رہے ہیں ریاست کومشکلات کاسامناہے ۔پہلے بطور ریاست بلوچستان کی بہتری کیلئے کیااقدام اٹھایاجاسکتاہے مذاکرات تو بعد کی بات ہے لاپتہ افراد ،آئی ڈی پیز ،جوڈیشل سسٹم کی بہتری ،بجلی کی گھر گھر فراہمی ،ترقیاتی اقدامات سے کس نے روکا ہے ۔
[…] 200ارب روپے لگنے کے باوجود گوادر کی شہری بنیادی سہولیات سے محروم ہیں،ثناءبلوچ […]