اردو ادب اور میں

0 255

تحریر: سعداللہ سعدی

ادب الفاظ کی ترتیب و تنظیم اور مناسب جوڑ وحسن کو کہتے ہیں۔ ان الفاظ میں جذبہ و فکر بھی شامل ہوتے ہیں، اس لیے کہا جاتا ہے کہ الفاظ کی مدد سے جذبہ واحساس یا فکر و خیال کے اظہار کو ادب کہتے ہیں۔ یہ ادب کی ایسا حد تام ہے جس میں کم و بیش ہر وہ بات جس سے کسی جذبے، احساس یا فکر کا اظہار ہوتا ہے اور جو منہ یا قلم سے نکلے، ادب کہلائے گی۔
اس ادب کو میں بذات خود بڑے ادب سے سیکھتاہوں، کیوں کہ ادب سیکھنے کےلیے آداب کا خیال رکھنا ہوتاہے۔ جس شخص کا قلم ادیب ہو، اور خود عملی زندگی میں بے ادب، تو شاید دونوں آداب میں سے کسی کی بو تک نہیں سونگھی ہوگی۔
ادب کی مثال معاشرے میں کچھ یوں بھی دی جاسکتی ہے کہ آس پاس اندھیرے نے زلفیں بچا رکھی ہو، اور اندھیرا ہو بہت گہرا۔  تو روشنی کو جو اس کی ضد ہے، بہت زیادہ بڑھا دیا جا تا ہے۔ تاکہ تیز روشنی سے اندھیرا زیادہ سے زیادہ کم کیاجائے بلکہ مٹادیا جائے۔

آج بھی جن مہم مسائل کا ہمیں سامناہے، اس کا اظہار اگر کسی ادیب  کے قلم سے ہو جائے تو سونے پہ سہاگہ، اور اگر عام فہم اور آسان الفاظ میں ان مہم مسائل کا اظہار ہو تو بہت کم لوگ اس سے متاثر ہوکر مسائل کا حل تلاش کرنے نکلیں گے۔
اس وجہ سے تحریر کےلیے ادب کا تڑکا لگانا از حد ضروری ہے۔ شیر کی مانند بھوکا آدمی جب روٹی پر حملہ آور ہوکر چیرتاہے۔ مگر جب سالن پیکا محسوس ہوتاہے تو دو چار نوالوں کے بعد بھوک مٹ جاتاہے۔ اگر خوب تڑکے والا سالن کسی لمبی لمبی  ڈکار لینے والے کے سامنے آجائے تو ثواب کے بہانے پلیٹ پر انگلی پھیر دے۔
مجھے صحافت کے میدان میں ادب ہی نے ادب سے اتارا۔ مجھے ہر وہ کتاب اچھی لگتی تھی جس میں ذائقہ کے ساتھ ساتھ معلومات ملے۔ کئی بار ایسا بھی ہواہے کہ علمی مواد سے بھری کتاب چھوڑ کر ادبی کتاب سے اتنی گہری دوستی لگائی کہ حریف کتاب ہماری دوستی پر عش کھاکر ٹیبل پر سے گرگئی۔ اصل میں مجھے میری دوست کتاب نے اتنا مستغرق کیا ہوتا کہ مطالعہ کرتے کرتے جھوم جاتا اور کبھی ہاتھ یا پاوں کو استراحت کے لیے پھیلادیتا تو حریف کتاب کو ادیب کتاب اس طرح لات یامکہ مارنے میں دیر نہیں کرتی۔

ویسے بہت سارے ادیبوں کو میں پڑھ چکا ہوں مگر اب قدرت اللہ شہاب نے اپنے شہاب نامے میں شہاب ثاقب بناکے رکھ دیا۔  اس کی چند پیراگراف ملاحظہ ہو۔
ایک جگہ وہ اپنے کشتی کے سفر کاداستان بیان کرتے  ہوئے  لکھتے ہیں۔”کشتی کو کئی جگہ روک کر اس کے تلے میں بھرا ہوا پانی نکالاگیا۔ بھلول پور پہنچ کر بیلوں کی جوڑی تبدیل ہوئی۔ جب پو پھٹی توصبح کی زرکار کرنوں میں نہر کے کنارے دور تک ایک طویل قطار نظر آئی جیسے لوہے اور پیتل کی گاگروں کو الٹ کر زمین پر رکھا ہواہو۔ جب نزدیک پہنچ کر غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ گاگریں نہ تھی بلکہ سکھوں کی قطاریں تھی جو نہر کی طرف پشت کرکے ایک دوسرے سے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بیٹھے تھے اور سر جھکا کر بڑے خضوع وخوشوع سے برسرعام رفع حاجت فرما رہے تھے۔جب کشتی ان کے قریب پہنچی تو چند سکھ ہماری طرف منہ کر کے ننگ دھڑنگ کھڑے ہو گئے اور منہ سے بکرے بلا بلا کر بڑے فخر سے اپنے پوشیدہ علم الابدان کی تشریح کرنے لگے۔کشتی میں سوار عورتوں نے اپنے دوپٹوں سے چہرے ڈھانپ لیے اور مرد کھانس کھانس کر ایک دوسرے سے کھسیانی کھسیانی باتیں کرنے لگے۔ ملاح سب مسلمان تھے۔ایک نوجوان کو جو تاو آیا تو اس نے بھی اپنا تہبند اٹھا کر سکھوں کو ترکی ترکی جواب دینے کا ارادہ کیا۔ لیکن عمررسیدہ ملاح نے اسے ڈانٹ کر بٹھایا۔ جب کشتی ان کے سامنے سے قریب گزری تو سکھ جوان بھی نہر کی طرف پیٹھ کرکے بیٹھ گئے اور فطرت سے ہم کلامی میں مصروف ہوگئے”۔
ایک اور جگہ لکھتے ہیں: اردو کے علاوہ ماسٹر منگل سنگھ بھی علم ریاضی میں ماہر تھے۔ یہ اور بات ہے کہ سوالات حل کرتے وقت جمع تفریق تقسیم کی جگہ وہ طلبائ پر ضرب کاعمل زیادہ بروئے کار لاتے تھے۔ حقیقتا ان کو شرح صدر زد وکوب کے فن میں حاصل تھا۔ ذرا سی بھول چوک پر قصاب کی طرح وہ طالب علم پر لپکتے تھے۔ اسے گردن سے دبوچ کر ہوا میں اچھالتے تھے۔ اور پھر اس پر لاتوں ٹکوں اور مکوں کی ایسی تابڑ توڑ بارش برساتے تھے۔ کہ دیکھنے والوں کو بھی دن میں تارے نظر آنے لگتے تھے۔ ہر روز ایسی دو تین تین پٹائیاں دیکھ کر سکول کا ایک ایک لمحہ میرے لئے سوہان روح بن گیا۔ ہر وقت سر پر خوف کی ننگی تلوار لٹکتی رہتی تھی۔ جانے کب اس مارپیٹ کا قرعہ فال اچانک میرے نام نکل آئے؟ یہ خیال آتے ہی میرے رونگٹے کھڑے ہوتے اور سر سے پاو¿ں تک پسینہ چھوٹنے لگتا تھا۔
اس طرح قدرت اللہ شہاب کے شہاب نامے میں ادبی تحریریں پڑھ کر دل میں لذت اورمٹھاس محسوس ہوتا ہے۔ ادبی تحریر لکھنے کا ذوق شوق بڑھ جاتا ہے۔ دل کرتا ہے کہ روز ادبی کتاب کا مطالعہ کرکے اس کے اوپر خود ایک کتاب تصنیف کر ڈالوں۔
ادب میں مٹھاس بھی ہے لذت بھی ہے شوق بھی ہے جذبہ بھی ہے احساس بھی ہے۔ ادبی کالم یا تحریر یا کتاب پڑھتے وقت بھوریت ختم ہو جاتی ہے۔ مزید پڑھنے کا شوق بڑھ جاتا ہے۔
مجھے خود تمام تحریر کے اصناف میں سب سے بڑھ کر ادب سے لگاو¿ ہے۔ ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ ادبی کالم ادبی تحریر لکھ کرکے چھپواوں۔ انشائ اللہ کوشش ہوتی ہے کہ جو کتاب لکھنے کا ارادہ ہے وہ بھی انشائ اللہ ادبی تقاضوں کے مطابق لکھوں گا۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.