افغانستان کے مسائل اور عالمی دنیا
تحریر حافظ خلیل احمد سارنگزئی
اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے آہستہ آہستہ صحت یاب ہورہا ہوں چلنے پھرنے اٹھنے بیٹھنے کا قابل ہوا ہوں اس پر جن دوستوں نے گھر آکر یافون کے ذریعے عیادت کی اور ناچیز کو اپنی دعاو¿ں میں یاد رکھا ان سب کا شکر گزار ہوں۔ موجودہ عالمی سطح پر چلنے والے موضوع کے مطابق جوکچھ پڑھا، محسوس کیا وہ آپ دوستوں سے شئیر کررہا ہوں۔ بات یہ ہے کہ بیس سال بعد ایک بار پھر افغانستان کا اقتدار طالبان کے ہاتھ آیا ماضی کے برعکس طالبان اس دفعہ دنیا کے ساتھ چلنے کا عزم لئیے بتدریج اصلاحات لانا چاہتے ہیں سب سے بڑھ کر یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ اس مرتبہ اکثر علاقوں میں پرامن طریقے سے تبدیلی آئی اس وقت پورے ملک پر طالبان کی گرفت ہے اور ہر افغانی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ طالبان آنے کے بعد قتل وغارت چوری ڈکیتی اغواءبرائے تاوان کا سلسلہ مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے اور ساتھ ہی قندھار میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف اربوں روپے کی خطیر رقم خرچ کرنے والا انڈیا کو دم دبا کر بھاگنا پڑا شمالی اتحاد اور افغان میڈیا کے ذریعے پاکستان کے خلاف بھارت نے جو کام کیا اس پر پانی پھیر گیا۔ دوسری اہم بات یہ کہ طالبان کے آپس میں اختلاف کی خبریں بھی منظرعام پر آگئیں اگرچہ طالبان نے اس کی بارہا وضاحت کی مگر افغان امور کے تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ کچھ عرصے سے تحریک کے مرکزی رہنمائ ملا برادر کا خاص اور حساس موقع پر گوشہ نشین ہونا بہت کچھ واضح کردیتا ہے۔ دوسرا اہم مسئلہ حکومت کے قیام کا تھا کہ کابینہ کی تشکیل میں توقع کے برعکس طالبان نے تحریک کے علاوہ دیگر افغانوں اور خواتین کو جگہ نہیں دی اس پر دنیا نے سوالات اٹھائے جس کے جواب میں طالبان کا موقف ہے کہ یہ عبوری کابینہ ہے اور یہ وزارتیں بھی بطور نگران اور سرپرست کام کریں گی۔اب دنیا اس حکومت کو تسلیم کرنے کیلئے شرائط رکھ رہی ہے اس پر قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان صاحب کا موقف ہے کہ بیس سال بندوق کے ساتھ پہاڑ میں رہنے والے جنگجو امن اور مذکرات کی میز پر آکر امن کی ضمانت دے کر اصلاحات کی بات کرتا ہے،اسے موقع دینا چاہئیے آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اب افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم نہ کرنے اور دیگر ممالک کا تعاون نہ کرنے کی وجہ سے وہاں بڑے پیمانے پر خوراک،لباس و ادویات کی کمی کا بحران پیدا ہوا ہے افغانستان کی اگر انسانی امداد نہیں کی گئی تو معاشی طور دیوالیہ ہوسکتا ہے، یہ الفاظ ناروے کی ریفوجی کونسل کے سیکرٹری جنرل جان انگلینڈ کے ہیں،ناروے کی پناہ گزین کونسل کے سیکرٹری جنرل جان انگلینڈ کی رپورٹ کافی پریشان کن ہے جو اس وقت افغانستان کا دورہ کر رہے ہیں جان انگلینڈ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ افغانستان کی معیشت کنٹرول سے باہر ہو رہی ہے نقدی کی کمی کی وجہ سے باقاعدہ بینکاری نظام کسی بھی دن گر سکتا ہے۔ میں نے ان خاندانوں سے بات کی ہے جو مجھے بتاتے ہیں کہ وہ چائے اور پرانی روٹی کے چھوٹے ٹکڑوں پر زندہ ہیں۔اگر معیشت منہدم ہو جاتی ہے تو یہاں تک کہ بنیادی خدمات بھی کام نہیں کریں گی اور انسانی ضروریات اور بھی بڑھ جائیں گی اس بحران سے نمٹنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ امدادی تنظیمیں فوری انسانی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔سخت سردی آنے اور درجہ حرارت منفی 20 ڈگری سینٹی گریڈ تک گرنے سے پہلے ہم زندگی بچانے کے لیے گھڑی کے خلاف دوڑ میں ہیں۔ آنے والے ہفتوں میں لاکھوں بے گھر افراد کو فوری طور پر پناہ گاہ، گرم کپڑوں اور خوراک کی ضرورت ہے۔ پہلے ہی، تین میں سے ایک افغان نہیں جانتا کہ ان کا اگلا کھانا کہاں سے آئے گا۔’ہمارے اپنے عملے نے مجھے بتایا کہ وہ کھانا خریدنے یا بینکوں سے اپنی بچت تک رسائی کے لیے نقد رقم نکالنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہم عملے کو ان کی پوری تنخواہیں ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں کیونکہ ملک میں محفوظ طریقے سے پیسہ لانا ناممکن ہے۔اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو معیشت کو مستحکم کرنے، مناسب عوامی خدمات کے لیے فنڈ اور معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر ایک کثیرالجہتی معاہدہ کرنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نئے اور موجودہ میکانزم کو تلاش کریں، چاہے بین الاقوامی فنڈنگ کو اقوام متحدہ کے ٹرسٹ فنڈز کے ذریعے یا انسانی بنیادوں پر تنظیموں کے ذریعے عبوری اقدام کے طور پرہو،بصورت دیگر افغان عوام کی حمایت جاری رکھنے کے ان کے وعدے خالی ہوں گے،ڈونرز کو بچوں، عورتوں اور مردوں کے لیے فوری امداد فراہم کرنے کے لیے تیز اور موثر حل فراہم کرنے پر توجہ دینی چاہیے جو کہ مزید انتظار نہیں کر سکتے۔ ملک معاشی تباہی کی گنتی میں ہے – ہمیں انسانی اور اسلامی بنیادوں پرافغان عوام کی مدد کرنی چاہیئے۔اللہ تبارک وتعالیٰ پورے خطے خصوصاً افغانستان اور پاکستان کو امن اور خوشحالی کا گہوارہ بنادے۔