ہمارے ملک کا الیمہ
تحریر خالد سرور
پاکستان میں رہنے والے واسیوں نے خود کو کرپٹ اشرافیہ کا غلام بنا رکھا ہے اور غلاموں کی زندگی ان چند اشعار کی تشریح میں واضح کرتا چلوں میں
کوئی مائی کا لال دلوں سے کرپٹ اشرافیہ اور ان کے سپورٹرز کی محبت ختم نہیں کر سکتا۔
یہ صرف تعلیم کر سکتی ہے۔
چوری خدا سے جب نہیں بندوں سے کس لیے
چھپنے میں کچھ مزا نہیں سب کو دکھا کے پی
دوستو! عام چور آپ کا مال‘ آپ کا پرس‘ آپ کی گھڑی اور آپ کا موبائل فون وغیرہ چھین لیتے ہیں ۔
لیکن سیاسی کرپٹ چور آپ کا مستقبل‘ آپ کے خواب‘ آپ کے عمل‘ آپ کی تعلیم‘ آپ کی صحت‘ آپ کی قوت اورآپ کی مسکراہٹیں سب چھین لیتے ہیں۔
اس سے بڑی تعجب کی بات یہ ہے کہ پولیس عام چور کا پیچھا کرتی ہے جبکہ سیاسی چور کو پولیس تحفظ فراہم کرتی ہے اور پروٹوکول دیتی ہے۔‘‘
دوستو! آپ جانتے ہیں کہ بنیادی فرق کیا ہے؟
عام چور آپ کا انتخاب کرتا ہے جبکہ سیاست دانوں کا انتخاب آپ خود کرتے ہیں۔
ہمارے ملک میں جہاں شریعت کے مطابق چور کے ہاتھ کٹنے چاہئیں لیکن وطنِ عزیز میں چور شیر 🦁 ہوتا ہے ’’چور، بھی کہے چور، چور‘‘ لہٰذا ’’چوروں سے خبردار رہیے‘‘
عام انسان اگر اپنی آواز کو دبا کر بیٹھے گا تو پے در پے چوروں کا وجود بڑھتا جائے گا دنیا میں بیشتر ممالک اس لئے کامیاب ہے کہ انہوں نے اپنی آواز بلند رکھی بدقسمتی سے مسلم ممالک میں وہ اتحاد و اتفاق نا رہا آج بھی پاکستان میں اسلامی قوانین محض نام کی بنیاد تک ہے خود کو بدلنے کی کوشش کریں تو غلامی جکھڑ سے نکلنے میں آسانی ہوگی