سیاست اور مدرسہ لازم و ملزوم
ایک عجیب گمراہ کن جملہ زبان زد عام ہے کہ مولوی کا سیاست سے کیا لینا دینا ہے؟ مولوی کو مسجد تک محدود رہنا چاہیے ۔ قدوری ، شروط الصلواۃ پڑھانا چاہیے ۔ مردے نہلانا چاہیے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اسلام نہ صرف عبادات ، اخلاقیات کے مجموعے کا نام ہے ۔ بلکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔
اسلام نے رہتی دنیا تک کے انسانیت کیلئے نظام سیاست ، معیشت ، عدلیہ پیش کیا۔ اس کے بغیر اسلام کا تصور ادھورا ہے۔ انگریز جب برصغیر پر قابض ہونے لگے ۔ تو انہوں نے مولوی کو مدمقابل پایا۔ مولوی کو سامراجی اور فرنگی نظام میں رکاوٹ محسوس کیا۔ تب انگریز نے بڑے منظم طریقے سے یہ غلط فہمی پہلائی کہ مولوی کا سیاست سے کوئی کام نہیں ۔ آج تک ان کے ہمنوا اسی غلط فہمی کی پرچار کرکے مولوی کو مسجد تک محدود کرنے پر تلے ہیں ۔
وطن عزیز پاکستان میں دو قسم کی سیاسی سوچ پائی جاتی ہے ۔ اول سیکولر ازم جو مولوی ازم کے مخالف ہے ۔ مولوی کو قدوری ،شروط الصلواۃ پڑھانے، مردے نہلانے تک محدود کرنے پر بضد ہے۔ جبکہ دوم مذہبی طبقہ ، جو پاکستان کو اسلامی ،فلاحی ریاست بنانے کیلئے سعی کررہی ہے۔
حالیہ دنوں حکومت بلوچستان کے حکومتی نمائندہ نور محمد دومڑ نے ایک انٹرویو میں مولوی کو مسجد و منبر تک محدود رہنے ، قدوری ، شروط الصلواۃ پڑھانے کا فلسفہ جھاڑا ۔ جس پر ان کے مخالف مذہبی طبقے نے شدید رد عمل کا مظاہرہ کیا۔ بندہ نے ضروری سمجھا کہ مدلل اور تاریخی حقائق سے موصوف کو جواب دیا جائے ۔ کہ کیا واقعی مولوی کو قدوری اور شروط الصلواۃ پڑھانا چاہیے یا سیاست کی پرخار وادی میں قدم رکھنا چاہیے ؟
مشرقی معاشرے میں اسلامی طرز سیاست کا قیام اسلام کے مقاصد میں سے ہے ۔ قائد انسانیت جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ان کے رفقا خلفائے راشدین نے اسلامی نظام نافذ کرکے مزید اس کی حقانیت اور ضرورت واضح کردی ۔ رعایا کو بنیادی ضروریات زندگی، انصاف کی فوری فراہمی اہم فرائض میں سے تھے۔ یہ تمام امور قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ پاکستان کو حقیقی اسلامی ریاست کے طور پر بنانے، اور ان اصولوں پر چلانے کیلئے قوم کو ایک ایسی رہنما کی ضرورت ہے جو قرآن و حدیث سے مکمل آشنا ہو۔
تاریخ میں جتنے بڑے اکابرین گزرے ہیں ، وہ اشاعت دین کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کو ظلم و بربریت سے نجات دلانے ، مساوات و عدل کو فروغ دینے کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں۔
حضرت امام ابو حنیفہ رح جسے حکومت وقت نے چیف جسٹس کا منصب دینے کی پیشکش کی۔تاکہ ان کی آواز خاموش کرایا جاسکے۔ امام صاحب نے یہ پیشکش قبول نہیں کیا۔ نتیجے میں انہیں قید کردیا گیا اور زہر پلاکر شہید کردیا گیا۔ امام صاحب نے اپنی جان کا نذرانہ تو پیش کردیا مگر اپنی موقف سے پیچھے نہیں ہٹے ۔
برصغیر کی تاریخ پر اگر نظر دوڑایا جائے تو ایسے عظیم نام دیکھنے کو ملتے ہیں جنہوں نے اپنے وقت کے ظالم حکمرانوں سے ٹکر لی۔ اور قوم کی صحیح سمت رہنمائی کی ۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رح، مجدد الف ثانی رح وہ عظیم شخصیات تھے جنہوں نے مسلم حکمرانوں کی ہر وقت اصلاح کی۔حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رح، مولانا عبید اللہ سندھی نے سیاسی رہنمائی کی۔اورنگزیب عالمگیر، شاہ اسماعیل شہید رح، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رح، مولانا مفتی محمود رح نے اسلامی قوانین کی نفاذ کیلئے زندگی وقف کردی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی قلم کے ذریعے انگریز کے خلاف جہاد کیا۔ امیر شریعت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے لسانی جہاد میں اپنا لوہا منوایا۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی رح، مولانا رشید احمد گنگوہی رح، مولانا عبد الجلیل شھید رح ،مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ رح نے ظالم حکمرانوں سے ٹکر لیکر اپنا حق ادا کردیا۔
برصغیر کی سیاسی میدان میں علماء پیش پیش رہے۔ خواہ وہ جہاد بالقلم ہو یا پہر جہاد باالسان، یا جہاد باالنفس ہو، آخری دم تک برصغیر کی آزادی کیلئے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے اور تاریخ میں اپنے نام سنہری الفاظ کے ساتھ درج کردیا۔علماء ہر وقت اپنی قوم کیلئے فکر مند رہے۔ جب انگریز نے ناجائز طریقے سے برصغیر میں اپنی ناجائز اور غیر اسلامی نظام لاگو کرنے کی کوششیں شروع کردی تو شاہ عبد العزیز دہلوی رح نے دارالحرب کا فتویٰ جاری کردیا۔ یہ فتویٰ انگریز سامراج کے خلاف جنگ آزادی کی بنیاد ہے ۔ اور اس فتویٰ نے برصغیر کے انسانوں کو اپنی دھرتی ، روایات اور اسلامی کلچر کی حفاظت کیلئے تازہ دم کردیا ۔
قیام پاکستان میں علامہ شبیر احمد عثمانی رح نے سرتوڑ کوششیں کیں۔صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں مسلم لیگ کامیابی مولانا شبیر احمد عثمانی رح، مولانا ظفر احمد عثمانی رح کی مرہون منت تھی۔قیام پاکستان کے بعد ڈھاکہ میں مولانا ظفر احمد عثمانی رح ، جبکہ کراچی میں علامہ شبیر احمد عثمانی رح کو سبز ہلالی پرچم لہرانے کا شرف بھی حاصل ہوا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ پر اگر نظر دوڑایا جائے تو علماء کو نمائندگی اس طرح نہیں ملی جس طرح ملنی چاہیے تھی ۔ اس کے باوجود 1973 کے آئین میں مفکر اسلام مولانا مفتی محمود رح نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ 1974 میں قادیانیوں کو آئین پاکستان میں کافر ڈکلئیر کرنے میں مفتی محمود رح ، مولانا شاہ احمد نورانی رح نے مرکزی کردار ادا کیا تھا ۔ 7 سات ستمبر 1974 کو باقاعدہ آئین پاکستان کی رو سے قادیانیوں کو کافر ڈکلئیر کردیا گیا۔ جس کی کریڈٹ مولوی کو جاتا ہے۔
صوبہ سرحد ( خیبر پختونخواہ) میں جب مولانا مفتی محمود رح وزیر اعلی منتخب ہوئے تو اپنی دور میں اسلامی قوانین کے نفاذ کیلئے شاندار کوششیں کیں۔ شراب پر پابندی، عصری تعلیمی اداروں میں اسلامی تعلیم لازم قرار دینے، انگریزی لباس کے بجائے شلوار قمیص کو دفتری لباس قرار دینے، اردو کو سرکاری زبان نافذ کرنے، سود اور جوئے پر پابندی میں آپ کامیاب ہوئے۔
آج اگر وطن عزیز پاکستان میں ایک سیاسی جماعت ہے جو حقیقی معنوں میں اپنی اسلاف کی نقش قدم پر چل کر پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی مشن میں مصروف عمل ہے تو وہ جمعیت علماء اسلام ہے۔
اس کی قیادت مولانا فضل الرحمان صاحب کررہے ہیں۔ پاکستان کے عوام سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ اپنی ملی، اسلامی تشخص کو پہچانیں۔ اس کی حفاظت کیلئے جمعیت علماء اسلام کا ساتھ دیں۔ جمعیت علماءِ اسلام کے دروازے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے عوام و خواص کیلئے کھلے ہیں۔