کوئٹہ میں کتاب دوستی کا عملی مظاہرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادبستانِ بولان کا مشاعرہ اور “صحب” کا اجراء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معروف ادیب ایم صلاح الدین مینگل صاحبِ فراش ، دعائے شفاء کی اپیل
۔۔۔۔۔ُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوچستان میں کتاب پڑھنا ، کتابوں سے محبت کرنا اور کتاب دوستی کی روایت بڑی قدیم رہی ہے ، برٹش دور میں اگرچہ کوئٹہ سے کوئی ادبی رسالہ یا جریدہ شائع کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا ، اکثر طباعت کا کام ملتان سے کرایا جاتا تھا اورادبی تنظیم قندیل کی ماہوار روداد وغیرہ بھی ملتان سے شائع ہوتی تھیں ۔
الحمد اللہ علمی ادبی اشاعت کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے ۔اہلِ بلوچستان نےکتاب سے محبت کا ہمیشہ عملی ثبوت دیا
ہے ، حمود الرحمٰن نے چب زیارت میں بطور ڈپٹی کمشنر چارج سنھبالا تو پہلا سوال یہ کیا کہ یہاں لائبریری ہے ؟ جواب ملا ، سر ۔۔۔ جس جگہ آپ بیھٹے ہیں یہاں لائبریریہی ہوا کرتی تھی ، یہاں آپ کا دفتر بنا دیا گیا ہے اور لائبریری ختم کر دی گئی ہے ۔۔۔۔حمود الرحمٰن کو محسوس ہوا وہ کتابوں کی قبر پر بیھٹے ہیں ، فوراً کھڑے ہو گئیے اور حکم دیا ایک ماہ میں مجھے لائبریری چاہیئے ۔اور اِس کتاب دوست نے زیارت کی لائبریری قائم کر کے کتاب سے محبت کا بی٘ن ثبوت دیا ۔ اب کوئٹہ کے شہریوں کو بس میں۔سفر کرتے ہوئے بھی مطالعہ کی سہولت دستیاب ہونگی , تفصیلات کے مطابق کمشنر کوئٹہ ڈویژن حمزہ شفقات کو کتابی پاکستان کے سی ای او عاصم بخاری کی جانب سے گرین بسوں کے لئے کتابوں کا عطیہ دیا گیا اس موقع پر کمشنر کوئٹہ ڈویژن حمزہ شفقات نے کہا کہ یہ ایک قابلِ ذکر اور بہترین قدم ہے یہ عطیہ ایک منفرد منصوبے کا حصہ ہے جس کے ذریعے شہر کی گرین بسوں میں کتابوں کے شیلف قائم کیے جائیں گے تاکہ مسافروں کو اپنے روزمرہ کے سفر کے دوران مطالعے کا موقع فراہم کیا جا سکے انہوں نے کہاکہ یہ تخلیقی منصوبہ کوئٹہ میں اپنی نوعیت کی پہلی کوشش ہے جو عوامی مقامات پر تعلیم اور علمی ترقی کو فروغ دینے کے لیے ایک مثال قائم کرتا ہے۔ بسوں میں سوچ سمجھ کر منتخب کردہ کتابوں کو رکھ کر یہ منصوبہ یقینی بناتا ہے کہ تمام عمر اور پس منظر کے مسافر مطالعے کی خوشیوں سے مستفید ہو سکیں یہ کوشش صرف کتابوں کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ یہ تعلیم اور علم کو ان جگہوں تک پہنچانے کا عمل ہے جہاں شاید اس کی توقع بھی نہ ہو۔کمشنر کوئٹہ حمزہ شفقات نے اس موقع پر کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ کتابیں مسافروں کو متاثر اور روشن کریں گی اور ان کے سفر کو مزید مفید اور خوشگوار بنائیں گی کمشنر کوئٹہ ڈویژن نے اس اقدام کو سراہتے ہوئے اسے ایک “قابلِ ذکر اور مددگار کوشش” قرار دیا جو شہریوں کی زندگیوں میں ایک مثبت تبدیلی لائے گی شہر بھر میں گرین بسوں میں لگائے جانے والے یہ کتابی شیلف ایک تعلیم یافتہ اور باشعور معاشرے کے قیام کی طرف ایک قدم کی عکاسی کرتے ہیں اس موقع پر سیکرٹری آر ٹی اے علی درانی بھی موجود تھے جنہیں کمشنر کوئٹہ حمزہ شفقات نے تمام گرین بسز میں کتابوں کی فراہمی کی زمہ داری بھی سونپ دی ۔ بلوچستان رائٹرز گلڈ (برگ) کے علاوہ علمی ادبی حلقوں نے حکومتی سطح پر ایسا مثبت اقدام کرنے پر خوشی کا اظہار کیا ہے ۔
ایک طرف کتاب دوستی پر خوشی ہو رہی ہے تو دوسری جانب یہ سنکر دل مغموم ہے کہ ہمارے معروف ادیب و براہوی زبان کے دانشور اور قانون دان ایم صلاح الدین مینگل سخت علیل ہیں اور کراچی ایک نجی ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں ۔ اِس ضمن میں تمام احباب سے دعائےشفاءکی اپیل کی گئی ہے
پسنی کے ادیب و شاعر اکمل شاکر سہ ماہی صحب اردو انٹر نیشنل پسنی بلوچستان
جنوری تا مارچ شائع کررہے ہیں ۔ یہ ضخیم شمارہ میں ڈاکٹر قاسم جلال قاضی اعجاز احمد محور,پروفیسر ڈاکٹر رفیق خان,زیب النسا زیبی ڈاکٹر منور کنڈے،سید شرافت حسین اداس ,سید شرافت عباس ناز, شاہدہ لطیف ,ایم زیڈ کنول ,عمران شاہ ، نسیم سحرکے مختصر گوشے شامل ہیں یہ شمارہ 2010ء سے تیار تھا مگر اکمل شاکر کے مطااق مالی وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے کم شائع نہیں کرا سکے ۔ یہ شمارہ ضخیم ہے اور جلد کور میں شایع کیا جا رہا ہے ۔دبستانِ بولان کا ماہانہ محفل مشاعرہ
دبستان بولان ایک تسلسل سے دو ماہانہ مشاعرے کروتا ہے ایک مہینے کی ابتدا میں دوسرا مہینے کے آخر میں۔ اس کی اس ادبی روایت نے اسے علم وادب کے میدان میں ایک خوبصورت گرین بیلٹ بنا دیا ہے جس میں اہل دل احباب مسلسل شرکت کرتے رہتے ہیں اور اپنے دلوں کا حال ایک دوسرے بیان کرتے ہیں بقول امیر مینائی:
امیر جمع ہیں احباب دردِ دل کہہ لے
پھرالتفاتِ دلِ دوستاں رہے نہ رہے
اس کے علاوہ سالانہ تین روزہ ادبی میلہ بھی ایک تسلسل سے جاری ساری رہتا ہے، جس میں ملک بھر سے شعرا اور ادبا شرکت کرتے ہیں۔
دبستان نے ہمیشہ بلوچستان کی تمام زبانوں کے اہل قلم کو کھلے دل سے دعوت دی ہے ویسے بھی بلوچستان ایک ہفت زبانی خطہ کہلاتا ہے۔
یہ دوسری مرتبہ ہے کہ دبستان کا ماہان مشاعرہ پروفیسر صدف چنگیزی کی غیر موجودگی میں منعقد ہو رہا ہے کیونکہ وہ آج کل آسٹریلیا میں ہیں مگر پہلے کی طرح مسلسل نگرانی کرتے رہتے ہیں دبستان کی انتظامیہ بھی بہت باکمال ہے اپنے تسلسل کو ٹوٹنے نہیں دیتی، ہر قسم کے حالات دامے دہمے سخنے کے ساتھ تیار رہتے ہیں بقول اعجاز رحمانی:
وہ آئنے کو بھی حیرت میں ڈال دیتا ہے
کسی کسی کو خدا یہ کما ل دیتا ہے
اس بار بھی ماہانہ مشاعرہ 26 جنوری 2025ء کو شام 5 بجے حسب معمول مرکزی دفتر اخلاص ٹیم واقع علمدار روڈ کوئٹہ بلوچستان منعقد ہوا، اس دفعہ ایک خاص بات یہ تھی کہ ملک بھر سے شعرا اور شاعرات نے اپنی اپنی غزلیں ٹیکسٹ اور وائس میسیجز کے ذریعے بھیج کر غائبانہ شرکت کی اس طرح یہ ماہانہ مشاعرہ ایک کل پاکستان مشاعرے میں تبدیل ہو گیا استاد رشید انجم مرحوم نے کیا خوب کہا ہے:
پھول اور کانٹے مزا دیتے ہیں اس انداز میں
جب بہار آئے تو دونوں سے لپٹ کر دیکھنا
گویا حقیقی خزاں میں بہار آگئی تھی۔ ہم اپنے مقامی شعراء کے ساتھ ملک بھر کے شعراء کے دل سے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے حقیقی ادب پروری کا حق ادا کیا ، اگر چہ اس سے پہلے بھی ملکی شعراء نے اسی انداز سے شرکت کی ایک نئی روایت کو قائم کیا ہے اس تازہ سر سبز روایت کے بانی دبستان بولان پروفیسر صدف چنگیزی ہیں بقول شاعر:
جو ہو سکے ہمیں پامال کرکے آگے بڑھ
نہ ہو سکے تو ہماری مثال پیدا کر
ایک عرصے سے محترم زاہد آفاق صاحب اپنے منفرد انداز اور بھر پور شرکت سے دبستان کو چار چاند لگانے میں مصرف ہیں۔ انہوں اپنا نیا شعری مجموعہ ” مشغلہ ” بھی دبستان کے پلیٹ فارم سے چھپوایا جس کی دبستان نے کل پاکستان سہ روزہ میلہ میں تقریب رونمائی کروائی،موصوف علم عروض کے نہ صرف ماہر ہیں بلکہ بلکہ اصلاح بھی دیتے گویا انہوں نے استاد رشید انجم کی روایت برقرا رکھا ہوا ہے اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
ماہ جنوری کے شاعرہ کی صدارت لاہور کے کہنہ مشق بزرگ شاعر جناب محمد صابر پنوار نے کی جبکہ مہمان خاص کئی مجموعوں کے خالق اور کہنہ مشق شاعر جو بہت سے احباب کی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دے رہے ہیں محترم پروفیسر رشید حسرت تھے اور مہمان اعزاز ہمارے محترم زاہد آفاق تھے۔
میزبانی کے فرائض جناب شفقت عاصمی کمبوہ اور جرات علی رضی نے انجام دئیے جبکہ نظامت کے فرائض اکبر خان نے خوب نبھائے۔
مشاعرہ میں شریک و غائبانہ شرکت کرنے والے شعراء کرام کے کلام کا نمونہ آپ کی باذوق بصارتوں کی نذر :
میروفراز، غالب، ناصر، منیر و بیدل
اب ان اکابروں کا قصہ ہوا پرانا
رمضان بے غرض ہے، شہرت نہ کوئی لالچ
تطہیر ہو زباں کی، مقصد ہے مخلصانہ
( رمضان صابر پنوار ۔ صدر مشاعرہ )
اسے ہم نے سمندر پار بھیجا تو کمانے کو
پرائے دیس میں جانے ہمارا لعل کیسا ہے؟
کیا کرتا تھا تو تنقید حاکم کی جفاؤں پر
سو تیرے جسم سے کھینچی گئی ہے کھال- کیسا ہے؟
( پروفیسر رشید حسرت ۔ مہمان خصوصی )
ڈوب کر وہ خود سے ابھرا کیسی انگڑائی کے ساتھ
اپنی گہرائی کا دریا کو جب اندازہ ہوا
میں مرتب کر رہا ہوں داستانِ خونچکاں
ہے قلم میرا ، مِرے ہی خون میں ڈوبا ہوا
( زاہد آفاق ۔ مہمان اعزاز )
ہر زرہ زمیں کا آسماں ہے
بے تابئ دل جہاں جہاں ہے
زنجیر_وفا ہے حلقہ حلقہ ، !
اور عشق کاپاوں درمیاں ہے
ہے عکسِ گلِ بہاراس میں
آل وجد میں آبِ جورواں ہے
(پروفیسر صدف چنگیزی۔ صدر دبستان بولان ۔ حالیہ آسٹریلیا )
یہ میں جو چپ سی بیٹھی ہوں مجھے خاموش رہنے دو
بہت اُلجھی کہانی ہوں مجھے خاموش رہنے دو
(گل ہمزاد۔ لاہور )
لپٹ کے میرے گلے سے اداس چیخ پڑے
لکھے جو ہجر میں وہ اقتباس چیخ پڑے
سحر جدائی کے منظر کی اس کہانی میں
نہ درد اتنا بڑھا دیوداس چیخ پڑے
(سمیرا سحر )
جامِ ہستی کو کیوں نہ بھر جائیں
سارے قصے تمام کر جائیں
جو ترے در کی سمت جاتی ہو
ہم تو ناصر اُسی ڈگر جائیں
(پروفیسر ناصر مراد۔ )
ہر کسی میں وفا نہیں ہوتی
ہر نظر آئنہ نہیں ہوتی
یہ ہے میرا مشاہدہ زرقاؔ
ہر نظر میں حیا نہیں ہوتی
(ڈاکٹر زرقانسیم غالب۔ )
پیڑ خاموش، چُپ گلہری ہے
سرد موسم کی سرد مِہری ہے
کچھ بھی ہو جائے ٹھنڈ ہے خسروؔ
قوم اپنی یہ گونگی بہری ہے
(فیروز ناطق خسروؔ۔ کراچی)
زمیں ہے پاؤں میں نہ آسمان باقی ہے
یقیں کی لاش پہ رقصِ گمان باقی ہے
(ذکیہ بہروز ۔ اسلام آباد )
یقین ہو بھی تو خود کو خدا کبھی نہ سمجھ
کہ مختصر ہے بہت عمرِ آبگینہ سمجھ
جو دل پہ ہاتھ نہ ڈالے وہ بات کیا راحت
ردیف و قافیہ بندی کو شاعری نہ سمجھ
(راحت سرحدی۔راولپنڈی)
فاصلہ ہے تو محبت کیسی
اے غمِ ہجر شکایت کیسی
اے ظفر اُس کا کہا مان بھی لے
شرطِ آئینِ محبت کیسی
(ظفر بھوپالی کراچی)
خواب رخصت ہوئے جب قوتِ بینائی گئی
تیری تصویر مرے سامنے پھر لائی گئی
ہم نے جب سیکھ لیا دشت نوردی کا ہنر
ایک زنجیر سحرؔ پاؤں میں پہنائی گئی
(شجاعت سحر جمالی)
جب ان کی رحمتوں کی کوئی حد نہیں سراج
پھر کیوں الجھ رہیں ہیں گناہ و ثواب میں
( سراج حسین ناطق ۔ جیکب آباد )
یہ موجِ دل کے درمیاں عجیب رازِ عشق ہے
وہ آنکھ بھر کے رو دیا رہِ ملال دیکھ کر
یہ زندگی ہے مختصر کہ جیسے خواب کا سفر
مَیں عاصمی اُلجھ پڑا رہِ زوال دیکھ کر
زندگی کا سفر ہے الجھا ہوا
بچپنے کا زمانہ رکھا جائے
(شفقت عاصمی کمبوہ)
لُطف لیتے ہو مری توہین میں
کیا تقابل کَرگس و شاہین میں
عشق کرنا شاہزادی سے عظیم
شعر کہنا میرؔ کی تضمین میں
(عظیم انجمؔ ہانبھی)
میں اپنے گلشنِ حسیں کا وہ پرندہ ہوں
مرے عروج میں شامل کوئی زوال نہیں
یہ کائنات ہے انساں کی دسترس میں نیاز
کوئی بھی کام زمانے میں اب محال نہیں
( نیاز خلجی)
ہے کون بسا دل میں بتا کیوں نہیں دیتے
ہمدرد کو ہمراز بنا کیوں نہیں دیتے
دل گُل کا کسی عارضے کی بھینٹ چڑھا ہے
اے چارہ گرو! دل کی دوا کیوں نہیں دیتے؟
( فہمیدہ گل )
ہر کوئی اپنے ہنر سے طے کرے اک راستہ
کچھ کو ملتی ہے سیاہی کچھ کو ملتا ہے چراغ
لوگ حیراں ہیں مری شعلہ بیانی دیکھ کر
دل نہیں ہے میرے سینے میں دھڑکتا ہے چراغ
(جرات علی رضی)
رہنما شکل_آدمی کر لوں
یعنی بر با د ز ند گی کر لوں
لوگ ساے فرشتے ہیں تنہا!
دل یہ کر تا ہے خو د کشی کر لوں
(فضل اللہ تنہا۔۔۔ پشن)
تڑپ کی لاج رکھ کر جی لیا ہے
گریبانوں کو اپنے سی لیا ہے
نہیں آنکھوں سے ٹپکا ایک قطرہ
سمندر کا سمندر پی لیا ہے
(شاہ محمد عمرانی )
ایک ہنگامہ مسلسل ہی رہا
ہجر کے لمحوں میں ہلچل ہی رہا
ایک اداسی چھاگئی ھے ہر طرف
دل جو قاتل تھا وہ قاتل ہی رہا
(عجب خان سائل)
بس نظر ان سے ملاؤں گا چلا جاؤں گا
حال اپنا نہ سناؤں گا چلا جاؤں گا
دل کی نگری کا مسافر ہوں اندھیرے میں بھی
یاد کا دیپ جلاؤں گا، چلا جاؤں گا
(اکبر خان اکبر)
دل کے رستے سے وہ ملا ہی نہیں
یعنی چاہت کا کچھ صلہ ہی نہیں
( عرفان علی عابد ۔ حالیہ ایران)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ُ💠۔۔۔۔۔۔۔۔