بلوچستان میں یوم بیسڈ ورکرزکو معاشی وقانونی تحفظ حاصل نہیں حکومت بلوچستان نے پالیسی ڈرافٹ تیار کر لیا ہے

0 141

تحریر۔وطن یار خلجی
بلوچستان جوکہ پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے بڑا اورآبادی کے لحاظ سے چھوٹا صوبہ ہے یہاں پر تعلیم کی شرح بھی تمام صوبوں سے کم بلکہ دیہی علاقوں میں نہ ہونے کے برابر ہے یہ وہ صوبہ ہے جوکہ قدرتی وسائل سے مالا مال مطلب امیر ترین مگر یو این ڈی پی کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق لوگ غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور شدید ترین غربت کی وجہ سے بلوچستان میں روزگار کے مواقع کا نہ ہوا اور صنعتوں کا نہ ہونا ہے بلوچستان کے روزگار کے دو ہی بنیادی ذریعے موجود ہیں جس میں زراعت و لائیو سٹاک شامل ہیں زراعت بھی محدود پیمانے پر موجود ہے ملک کے دیگر حصوں کی طرح بلوچستان میں بھی ہوم بیسڈ ورکرز یعنی گھر کی سطح پر کام کرنے والے مزدور وں کی تعداد بہت ہی زیادہ ہے اور ان میں ایک واضح اکثریت خواتین کی ہے جو کہ اپنے گھرکے گزربسر کیلئے یہ کام کاج کرتی ہیں ان میں کشیدہ کاری ، سلائی ،کڑھائی ،مال و مویشی پالنا اور گھرکی سطح پر چھوٹے پیمانے پر دکانداری کے علاو ہ دوسروں کے گھروں پر کام کرنا شامل ہے اور اس کے علاوہ دیگر بھی شعبے ہیں جس میں ہوم بیسڈ ورکرز کام کرتے ہیں ہوم بیسڈ ورکرز میں مردوں کو بھی شمارکیا جاتا ہے جواسی سطح کے کام کاج کرتے ہیں شریفہ بی بی کہتی ہیں کہ ان کے شوہر کو خطرناک بیماری لاحق ہے اور وہ پندرہ سالوں سے گھر پر پڑے ہوئے ہیں اور بیماری سے لڑرہے ہیں جبکہ میں غربت اور تنگ دستی سے لڑ رہی ہوں ہمارے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں میں انہیں سرکاری سکول میں پڑھارہی ہوں میں گھر پر سلائی کڑھائی اور بلوچی و افغانی کشیدہ کاری کا کام کرتی ہوں صبح سے لیکر شام تک کام کرتی ہوں اکثر کام آرڈر لیکر کرتی ہوں لیکن جومحنت میں اپنے کام پر کرتی ہوں مجھے اسکا معاوضہ بہت کم ہی ملتا ہے جس سے بہت مشکل سے دو وقت کی روٹی نصیب ہوجاتی ہے مگر میرے ہاتھ کے کام سے دوسرے بہت ہی کھاتے ہیں ہزاروں میں کماتے ہیں میں معمولی پڑھی لکھی بھی ہوںاور اکثر یہی سوچتی ہوں کہ محنت اور وقت کے علاوہ خون پسینہ میرا ہے مجھے اتنا کم اورانہیںاتنازیادہ منافع ملتا ہے پر سوچتی ہوں کہ میں خود تو باہر جاکر بیچ بھی نہیں سکتی مجھے تو شہر میں معلوم بھی نہیں ہے کہ یہ میٹریل کہاں پر بکتا ہے اور پھر جانے اورآنے کیلئے کرایہ کہاں سے لا ¶ں گی کیا ہماری حکومت مجھ جیسے لاچار اور گھر پرکام کرنے والے مزدوروں کیلئے کچھ نہیں کرسکتی ہے میں اپنے جیسی بہت سی خواتین کو جانتی ہوں انکے ساتھ بھی یہی ناانصافی ہورہی ہے اور کام کاج کا معاوضہ اورصلہ نہیں ملتا ہے ہم کر بھی کیا سکتے ہیں جو ہماری آواز سنے اور ہم پر بھی کرم ہوجائے واقعی بلوچستان میں شریفہ بی بی جیسی ہزاروں کی تعداد میں کہانیاں موجود ہیں ان کیلئے کون آواز اٹھائے گا اور کون ان کو محنت کی صحیح کمائی دلائے گا اور کب شریفہ بی بی جیسی ہوم بیسڈ ورکرز مضبوط ہوں گی اس سلسلے میں عورت فاونڈیشن کوئٹہ سے بات ہوئی کیونکہ پاکستان بھر میں نہ صرف خواتین کی ترقی انہیںسیاست اور مقامی حکومتوں میں لانے اور مضبوط بنانے کے علاوہ ہوم بیسڈ ورکرز کے حقوق کیلئے ہوم نیٹ پاکستان کی بنیاد بھی 2005ئ میں رکھی تھی جس میں پاکستان بھر سے بلکہ بلوچستان سے بھی بڑی تعداد میں خواتین ورکرز ہوم نیٹ پاکستان کاحصہ بنی تھیں تو اس سلسلے میں عورت فاونڈیشن کوئٹہ آفس کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر علاو الدین خلجی کہتے ہیں کہ عورت فاونڈیشن نے پاکستان بھر میں ہوم بیسڈ ورکرز کو ہوم نیٹ کے ذریعے اکٹھاکیا اوریہ ایک زبردست تجربہ ہے اورہمارا مقصدان کو مستحکم بنانا اور انکی پیداواری صلاحیت اورآمدنی میں اضافہ کرنا ہے تاکہ مزدوروں کے قوانین کے تحت ان کو پہچان لینے اورانکی معاشرتی تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے عورت فاونڈیشن نے ہوم بیسڈ ورکرز کے مسائل کو بخوبی سمجھ لیا ہے ان مسائل میں رہائش ،تحفظ ،بچوں کی تعلیم ،صحت ،انکے کاروبار میں رکاوٹیں اور انکے کام کی استعدادکار بڑھانے کیلئے انکی تربیت اور تنظیم سازی کا نہ ہونا شامل ہے اور ہم ایک مضبوط ایڈوکیسی مہم بھی اپنے پارٹنرز کے ساتھ چلارہے ہیں بلوچستان ہمارا خصوصی فوکس پوائنٹ ہے ہم نے حکومت بلوچستان تک مختلف نوعیت کی سرگرمیوں کے ذریعے یہ بات پہنچادی ہے کہ ہوم بیسڈ ورکرز کے سماجی اور معاشی تحفظ کے لئے صوبائی سطح پر پالیسی ترتیب اور تشکیل دی جائے خواتین کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لئے ترقیاتی اسکیمیں تشکیل دی جائیں نیز خواتین کی تیار کردہ مصنوعات کو آخری شکل دینے کیلئے صوبائی سطح پر پروڈکٹ فینشنگ یونٹس قائم کئے جائیں۔علاو الدین خلجی نے یہ بھی بتایا کہ بشمول بلوچستان ملک بھر میں ایک کروڑ بیس لاکھ سے زیادہ ہوم بیسڈورکرز مختلف شعبو ں میں کام کر رہی ہیں ان مذکورہ خواتین کو کسی قسم کا قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے ان خواتین کا معاشی ترقی میں خاطرخواہ حصہ ہے یہ خواتین تاحالقانونی اور معاشی تحفظ سے محروم ہیں ان کا شمارانتہائی کم مراعات یافتہ طبقات میں ہوتا ہے پاکستان کے آئین کی شق نمبر3کہتی ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ کارکنان کے ہرقسم کے استحصال کا خاتمہ کرے اور ان کارکنان کو مناسب سہولیات اور امداد مہیا کرے موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ حکومت بلوچستان ہوم بیسڈ ورکرز کے امور پر فوری فیصلہ و قانون سازی کرے تاکہ ان کارکنان کی حالت بہتر کی جاسکے۔
دوسری جانب بلوچستان میں عورتوں کے حقوق پر کام کرنے والی رہنما اور ہوم بیسڈورکرز کیلئے ایک غیر سرکاری ادارے میں بحیثیت پروجیکٹ ہیڈ کام کرنے والی صائمہ ہارون کہتی ہیں کہ آئی ایل او کا کنونشن C177ہے وہ ہوم ورکرز کی بات ہی کر رہا ہوتا ہے مگر مزدور ،عورت یا آدمی اس کنونشن کی روح سے اپنے گھر میں کام کے حقیقی معاوضے کا حق دار ہوتا ہے اور معیشت کی ترقی میں ان ورکرز کے کردار کو سراہا جاتا ہے تاہم ہمارے صوبے بلوچستان کے لاز کے تحت ہوم بیسڈ ورکرز کو ورکرز تسلیم نہیں کیا گیا ہے یہ ایک بڑا ایشو اورچیلنج ہے اس کے علاوہ ان ورکرز کے مسائل بھی ہیں جن کے تحت ان کے اوقات کار مقرر نہیں ہیں صحت کی سہولیات کے علاوہ سوشل سیفٹی نیٹ یعنی انکی کہیں رجسٹریشن نہیں ہے اور نہ ہی دیگر بنیادی سہولیات فراہم ہیں بچوں کی تعلیم میں سپورٹ نہیں ہے اور ہوم بیسڈورکرز جو کام کرتے ہیں ان کا معاوضہ ان کی مرضی سے ہے بلکہ مڈل مین طے کرتا ہے جو ان سے کام کراتا ہے مڈل مین جو ہمیشہ سے اس معاملے میں موردالزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ وہ کم معاوضہ کے بدلے ان ہوم بیسڈ ورکرز سے تیار کردہ چیزیں لے کر مہنگے دام آگے فروخت کرتا ہے تو اس سلسلے میں کوئٹہ کے ایک مڈل مین شکیل خان سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ایسی بات بھی نہیں ہے ہم ورکرز کو انکی محنت کا معاوضہ دے جاتے ہیں آگے سے ہم نے بھی محنت کرکے ان اشیاءکو بیچنا ہوتا ہے اس مقصد کیلئے ہم اپنی شاپس کا کرایہ ،شاپس کے یوٹیلٹی بلز ،شاپس میں کام کرنے والے عملے کی تنخواہیں یہ سب ہم نے ادا کرنی ہوتی ہیں ہم نے مارکیٹنگ کے اخراجات بھی دینے ہوتے ہیں اس مہنگائی میں ہمارے اپنے اخراجات بہت زیادہ ہیں اور ہم اتنا بھی نہیں کماتے ہیں جتنا لوگوں کی سوچ ہے دریں اثناءاگر دیکھا جائے تو ان ورکرز کی تربیت اور مارکیٹنگ ایکسپوژز بھی نہیں ہوتا ہے کوئٹہ میں ان ورکرز کی ایک بہت بڑی تعداد ہے یہ خواتین صرف کشیدہ کاری نہیں بلکہ دیگر ایسے بہت سی چیزیں تیار کرتی ہیں بلوچستان کی ان خواتین کی پراڈکٹس نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں پسند کی جاتی ہیں۔ان پراڈکٹس میں بلوچی اور افغانی ہاتھ کی بنی ہوئی ٹوپیاں ،خواتین اور مردوں کی چادریں ،کشیدہ کی ہوئی چابی چین ،پرس و بٹوے ،بیگز اوردیگر فروٹ کی پیکنگ وغیرہ بھی شامل ہے ۔گوادرسے لیکر ژوب تک مختلف پراڈکٹس تیار ہوتی ہیں مگر ان ورکرز کے کام کو نہ تسلیم کرنا بڑا مسئلہ ہے لیبر ڈیپارٹمنٹ اور حکومت بلوچستان اس شعبے کی ترقی و فروغ کیلئے اقدامات کریں اور پالیسی لائیں گزشتہ دس سالوں سے ہم یہی جدوجہد کر رہے ہیں کہ صوبائی سطح پرپالیسی بنے تاکہ ان ورکرزکو محفوظ کیا جاسکے اس سے بہت سی چیزیں جڑی ہوئی ہیں ان ورکرزکیلئے ایکسپوٹرزرکھے جائیں حکومت انکو چھوٹے سطح پر آسان قرضے جاری کرے تاکہ یہ معاشی ترقی میںاور بھی کھل کر کردارادا کریں۔صائمہ ہارون کہتی ہیں کہ ہوم بیسڈ ورکرز کے کام کی اجرت بالکل نہ ہونے کے برابر ہے ۔جس طرح محنت یہ ورکرز کرتی ہیں کاش انکو معاوضہ بھی اتناہی ملتا ایک ورکراپنے گھر کے کام کاج کے علاوہ روزانہ چھ سے آٹھ گھنٹے ایک پروڈکٹ کی تیاری پر محنت کرتی ہے اوراسکی تیاری میں کئی دن لگتے ہیں پراڈکٹس پر آنے والے اخراجات بھی ورکرز خود ادا کرتی ہیں سردی یا گرمی اور موسمی صورتحال کے علاوہ صحت کے مسائل و گھریلو ذمہ داریاںنبھانا ان تمام صورتحال کا بھی انکو سامنا کرنا پڑتا ہے لہذا اس طرح ان ورکرز کو جو معاوضہ ملتا ہے وہ بہت کم ہے یہ نا انصافی ہے یہ کام زیادہ کرتی ہیں حکومت ان کو رجسٹرڈ کرے ان کی تنظیم سازی اشد ضروری ہے ا س سے یہ ورکرز زیادہ مضبوط ہوں گے حکومت انکی سرپرستی ضرور کرے۔علاوہ ازیں بلوچستان کی نامور ہوم بیسڈ ورکرزلیخہ رئیسانی جوکہ بلوچستان کی نمائندگی پر مختلف اداروں کی جانب سے مختلف ممالکمیں بلوچستان کے ہوم بیسڈ ورکرز کی مصنوعات کو انٹرنیشنل مصنوعاتی میلوں میں پیش کرچکی ہے وہ کہتی ہیں کہ جو کام بلوچستان کے ہوم بیسڈ ورکرز کا نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پرپسند کیا جاتا ہے وہ بلوچستان کی خواتین کیلئے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے مگر افسوس کہ صوبائی حکومت ان ورکرز کے کوم کو پروموٹ نہیں کررہی ہے بلکہ ان ورکرز کوایکسپوٹرز بھی نہیں کرایا جاتا ہے انٹرنیشنل کی بات چھوڑیں بلوچستان کے ورکرز کو تو نیشنل سطح کے ایونٹس میں بھی حکومت نے نہیںبھیجاہے حالانکہ ان ورکرز کے قومی سطح پر ان ایونٹس میں شرکت سے انکے کام میں نکھار آئے گا بلکہ ان کے کام کا پروموشن بھی ہوگا اوران ایونٹس میں انکی شرکت سے انکی بنی ہوئی چیزیں بھی اچھی قیمت پربکیں گی اور مارکیٹنگ کے مواقع بھی ملیں گے بلوچستان کی خواتین اس میدان میں نام کماسکتی ہیں اورانکا معاشی مسئلہ حل ہوسکتا ہے بلکہ اس طرح ان کی غربت میں کمی بھی آسکتی ہے لیکن حکومت کی سطح پر اس پر توجہ کی ضرورت ہے اور ابھی تک حکومت نے کوئی خاص کام نہیں کیا ہے اور نہ ہی ہمارے ہاں کوئی پالیسی اب تک بنی ہوئی ہے۔
بلوچستان وومن بزنس ایسوسی ایشن کی چیئرپرسن ثنائ درانی صوبے کے ہوم بیسڈورکرز کے حوالے سے یوں کہتی ہیں کہ بلوچستان میں ہوم بیسڈ ورکرز کی تعداد کے حوالے سے آج تک کوئی مصدقہ ڈیٹا کسی کے پاس نہیں ہے اور نہ ہی آج تک اس پر کوئی سروے ہوا ہے تاہم جہاں تک میرا علم ہے تو کچھ رپورٹس کے مطابق بلوچستان میں76فیصد خواتین ہوم بیسڈ ورکرز ہیں ان ورکرز کی کوئی حوصلہ افزائی اوراہمیت نہیں ہے اور نہ ہی اس جانب کوئی توجہ دی گئی ہے بلکہ بلوچستان میں نہ تو سہولیاتاور مراعات انہیں حاصل ہیں بلکہ انہیں لیبر بھی تسلیم نہیں کیا گیا ہے جس کی بنائ پر وہ حکومت کے پاس رجسٹرڈ ہوں جب تک حکومتی اقدامات اس سلسلے میں نہیں ہونگے تو ہوم بیسڈ ورکرز کے مسائل ایسے ہی رہیں گے بلوچستان انڈسٹریل ایریا نہیں ہے یہاں کوئی کارخانے نہیں ہیں لہذا گھر کی سطح پر ہی لوگ خود سے کام کرتے ہیں اور چیزیں بناتے ہیں۔ثنائ درانی کہتی ہیں کہ بلوچستان وومن بزنس ایسوسی ایشن2014ئ میں اسی مقصد کیلئے بنی کہ ہوم بیسڈ ورکرز کی حیثیت کو تسلیم کیاجائے اور انہیں معاشی اورقانونی تحفظ دیاجائے اور جب یہ مقصد حاصل ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیا تو ہم نے ہوم بیسڈ ورکرز کیلئے دیگرراستوں کی تلاش شروع کردی تاکہ ان کو پرائیویٹ سطح پر مختلف اداروں کے ساتھ جوڑا جائے اورانہیں اس قابل بنائیں کہ یہ خود اپنے پا ¶ں پر کھڑے ہوکر اپنے کام کوبزنس کی شکل دے دیں ہم نے یہ بھی سوچا کہ 5ورکرز کی سطح پر ورکرز تنظیمیں بناکر انہیں رجسٹرڈ کروالیں تاکہ یہ رجسٹرڈ ہوکر تنظیموں کی شکل میں کام کرسکیںاوراس مقصد کے حصول کیلئے ہماری ایسوسی ایشن کام کررہی ہے ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ ورکرزخود بزنجس اونربن جائیں تاکہ ایک تبدیلی کے ساتھ خواتین آگے بڑھیں اور پارٹنر شپ کریں حکومت بلوچستان کے ادارے وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں جو اکنامک کونسل بنی ہے اس کا مقصد خواتین کو معاشی طور پر مضبوط بنانا ہے اوراس کے لئے حکمت عملی وضع کرنی ہے تاکہ ایک ایسی پالیسی بنے بلوچستان میں ہوم بیسڈ ورکرز کیلئے سمیڈا بلوچستان کیا کردارادا کر رہا ہے تو اس سلسلے میں سمیڈا بلوچستان کے صوبائی سربراہ شکور احمد نے بتایا کہ سمیڈا کا مقصد چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کوسپورٹ کرنا ہے یہ ادارہ حکومت پاکستان کا ایڈوائزری ادارہ ہے بلوچستان میںلورالائی ،گوادر،حب اور کوئٹہ میں ہمارے آفس ہیں ہم دیگر چیزوں کے علاوہ خواتین کی کیپسٹی کو بڑھاتے ہیں ہم خواتین کی ٹریننگ کرواتے ہیں تاکہ ان کے کام کے استعداد کوبڑھایا جاسکے سمیڈا بلوچستان کی خواتین ورکرز کیلئے سمجھتا ہے کہ ان کیلئے مارکیٹنگ کا واحد ذریعہ مینابازار منعقد کئے جائیں اور ریگولربنیادوں پر یہ بازار منعقد ہوںبلوچستان میں خواتین ورکرز کے کام کو ان بازاروں کے توسط سے اجاگر کیا جاسکتا ہے سمیڈا بلوچستان نے گورنمنٹ آف پاکستان کو تجویز دی ہے کہ کوئٹہ میں ایک مستقل وومن سنٹر بنایا جائے یا وومن بازار کے منصوبے شروع کئے جائیں جس میں بیچنے والی اور خریدنے والی دونوں خواتین ہوں اس پر کام ہورہا ہے۔شکوراحمد نے کہا کہ ان خواتین کے مسائل واقعی زیادہ ہیں اور اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے سمیڈا ہوم بیسڈ ورکرز کونہ صرف کوئٹہ بکہ دیگربڑے شہروںمیں منعقدہ مصنوعاتی میلوں میں شرکت کے مواقع فراہم کرچکا ہے۔دریں اثنائ ہوم بیسڈ ورکرز کیلئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت بلوچستان خودو ان کے لئے پالیسی بنائے اور ان کے کام کو سپورٹ کرے بلوچستان میں حکومتی سطح پر قائم محکمہ محنت و افراد ی قوت کے ڈائریکٹر جنرل سعید احمد سرپرہ اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ہوم بیسڈ ورکرز کیلئے حکومت بلوچستان نے ایک ٹاسک فورس قائم کی ہے جس کی سربراہی سیکرٹری لیبر کر رہے ہیں اسکے علاوہ ٹاسک فورس میں خواتین پر کام کرنے والی این جی اوز ،پارلیمنٹرین و دیگر حکومتی ادارے بھی شامل ہیں ہوم نیٹ پاکستان بھی اس کا حصہ ہے ہم نے ایک ڈرافٹ پالیسی بھی تیار کی ہے ۔اس پالیسی ڈرافٹ ک اہم نکات یہ ہیں ورکرز کو اپنے حقوق کیلئے بارگین کا حق ہونا چاہئے ورکرز کے پیشے میں انکے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ ہو پیشے میں سوشل سیکورٹی اور صحت کی مراعات ملنی چاہئے ٹریننگز تک ورکرز کو رسائی ہو تاکہ وہ اپنے پیشے میں بہتری لاسکے ورکرز کو مارکیٹ تک رسائی کا حق بھی ملنا چاہئے ورکرز کو آسان قرضے کی فراہمی اوران تک رسائی حاصل ہو ورکرز کو حکومتی سطح پر مزدور تسلیم کیا جاناچاہئے ورکرز میں حاملہ خواتین کیلئے خصوصی مراعات ہوں کیونکہ اس دوران انکا پیشہ متاثر ہوسکتا ہے ورکرز اور مڈل مین کے درمیان موجودہ مڈل مین کے رول کو محدود کردینا چاہئے ورکرز کو بھی چھوٹی کا اور ورکنگ آورز کا حق ہونا چاہئے کام کے دوران مزدور پیشہ خواتین پر کسی قسم کا کوئی تشدد نہ ہو اوفر جنسی ہراسمنٹ سے بھی انکو محفوظ بنایا جائے۔ٹاسک فورس نے اس پالیسی کے علاوہ ایک قانون بھی بنایا ہوا ہے سفارشات بھی تیار ہیں یہ ڈرافٹ پالیسی ہم نے صوبائی بی ٹی سی سی سے منظوربھی کروائی ہے وہ محکمہ قانون کوارسال کررہے ہیں کہ پہلے پالیسی بنے اور پھر ہوم بیسڈ ورکرز کیلئے قانون سازی ہو جوکہ صوبائی کابینہ اور بلوچستان اسمبلی سے منظور کروانا ہے حکومت بلوچستان کے پاس یہ ڈیٹا موجود نہیں ہے کہ صوبے میں کتنی خواتین ہوم بیسڈ ورکرز ہیں اور کونسے ٹریڈ پر کام کررہی ہیں اس سلسلے میں ہم نے یو این اوومن اور آئی ایل او کو درخواست کی ہے کہ ہ بلوچستان میںایک بنیادی سروے منعقد کریں جس کے نتیجے میں کام کرنے والی خواتین کی تعداد ، ضروریات اور ٹریڈ سامنے آسکیںہم ان ٹریڈ کو سوشل سیکورٹی میںرجسٹرڈ کروانا چاہتے ہیں ہم کچھ یونین کو رجسٹرد بھی کرچکے ہیں اور مزید بھی کرنا چاہتے ہیںہم چاہتے ہیں کہ بیس لائن سروے کے بعد وومن ڈویلپمنٹ اورسمال انڈسٹریز کے ساتھ ملکر ای کامرس جیسا کوئی سیٹ اپ بنالیں جہاں پرانہیں مڈل مین پرتکیہ نہ کرنا پڑے اور اپنے پراڈکٹس خود مارکیٹ کرسکیں حکومت بلوچستان ان چیزوں کوفالو کر رہی ہے یواین وومن اور ہوم نیٹ پاکستان ہمارے پارٹنر ہیں اور آئی ایل او کی معاونت بھی حاصل ہے پالیسی اور لائ دونوں کا ڈرافٹ بھی یو این وومن اور آئی ایل او کے کنسلٹنٹ نے بناکردیئے ہیں ہم نے ہوم ورکرز کے نمائندوں سے بھی رائے لی ہے ان کی سفارشات بھی اس ڈرافٹ میں شامل ہیں محنت و افرادی قوت نے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا سلسلہ مکمل کیاہے ہم چاہتے ہیں کہ ہوم بیسڈورکرز خود اپنے پا ¶ں پر کھڑے ہوں اوران کے مسائل حل ہونے سے بلوچستان میں ترقی کے نئے دروازے کھل جائیں۔
دریں اثناءاس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ہوم بیسڈ ورکرز ملکی معیشت میں ایک بھرپور حیثیت رکھتے ہیں تاہم وہ خود زبوں حالی کا شکار ہیں انکی حالت زار توجہ کی طالب ہے آج تک ان کو ورکرز تسلیم نہیں کیا گیا ہے مطلب انکو انکا کوئی پہلا حق بھی نہیں ملا ہے جوانکے ساتھ زیادتی ہے بلوچستان میں ان ورکرز کے کام کوتو پوری دنیا میں سراہااورپسند کیا جاتا ہے مگران کے لئے کوئی پالیسی حکومتی سطح پر گزشتہ دس سال کی کوششوں کے باوجود نہیں بن سکی ہے اب اللہ کرے کہ محکمہ محنت وافرادی قوت کی یواین وومن ،ہوم نیٹ پروسس کامیابی کے ساتھ آگے بڑھیں اور بلوچستان میں ہوم بیسڈ ورکرز کیلئے ایک نوید لیکر آئے تاہم اس پالیسی اور لائ کو منظور کرانے کیلئے ایڈووکیسی کی بھی بھرپور ضرورت ہے۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.