آخری الفاظ

0 581

بلاشبہ زندگی کی سب سے بڑی سچائی موت ہے یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جسے انسان چاہ کر بھی جھٹلا نہیں سکتا۔ اس کا کوئی وقت مقرر نہیں لیکن موت بر حق ہے، ایک نہ ایک دن اس کا مزہ ہر بشر کو چکھنا ہے۔ لیکن شاید مرنے والے کو مرنے سے قبل ا س کا ادراک ہو جاتا ہے یا پھر وہ قدرتی طور پر ایسی باتیں کرنے لگتا ہے جو اس کے گھر والوں، جان پہچان، عزیز و اقارب، دوست احباب یا پھر اگر وہ کوئی معروف شخصیت ہے تو اپنے مداحوں کے لیے کسی نصیحت یا مشعل راہ کا سامان کر جاتی ہیں۔ انہیں زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ بتاتی یا پھر ان کے لیے عبرت کا نشان بن جاتی ہیں۔ آخری الفاظ کسی مشہور و معروف شخصیات کے ہوں تو یہ صرف ا ±س کے اہل خانہ کے لئے ہی نہیں بلکہ اس کے مداحوں کے لیے بھی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، ان کے چاہنے اور سراہنے والے اسی جستجو میں ہوتے ہیں کہ کسی طرح جان سکیں کہ جسے وہ آئیڈیلاز کرتے ہیں ان کی زندگی کے آخری لمحات کیسے تھے؟ انہوں نے کیا کہا، آخری پیغام کیا دیا؟۔ دنیا کی چندمعروف شخصیات کے آخری لمحات میں انہوں نے آخری الفاظ کیا ادا کئے یا مرنے سے قبل آخری پیغام کیا دیا؟ یہ آخری الفاظ عبرت کاایک نمونہ بھی ہیں کہ دنیا بھرکی آسائشیں مٹھی میں لئے راج کرنے والوںکی موت کے سامنے بے بسی کا انداز کیسا تھا؟
٭ پروفیسر ڈاکٹر لیفٹیننٹ کرنل الٰہی بخش، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے پرنسپل اور بانی پاکستان قائد اعظم کے خصوصی معالج تھے۔ وہ اپنی کتاب ‘ With the Quaid-i-Azam during his last days میں قائد کے آخری الفاظ سے متعلق تحریر کیا ہے کہ، جب 11 ستمبر 1948ء کو 1 بجکر 15 منٹ پر قائد کی نبض کمزور پڑ کر بے قاعدگی سے چلنے لگی اور جسم کے تمام حصوں پر ہلکا ہلکا پسینہ آنے لگا۔ کورامین (طاقت کا ٹیکہ) دینے کے بعد معالج نے قائد اعظم کو مخاطب کیا ”ہم نے یہ طاقت کا ٹیکہ لگایا ہے، خدا کے فضل سے جلد اثر کرے گا اور آپ اچھا محسوس کریں گے“۔ جواباً قائد اعظم نے موت سے آدھا گھنٹہ قبل بمشکل ”میں اب نہیں“ کہا، یہ ان کے مرنے سے قبل آخری الفاظ تھے۔ اس کے بعد کمزوری محسوس ہونے کے باعث آدھے گھنٹے تک خواب میں رہے، بعدازاں ان کا انتقال ہو گیا۔ جب کہ فزیشن ڈاکٹر ریاض علی شاہ کے مطابق قائد کے آخری الفاظ ”اللہ پاکستان“ تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح کے مطابق کمزور آواز میں آخری الفاظ یوں تھے ”فاطمہٰ خدا حافظ، لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ“۔ واضح رہے کہ، قائد اعظم ؒکے آخری لمحات میں ان کے پاس پانچ افراد تھے۔ ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش، ڈاکٹر ریاض علی شاہ، ڈاکٹر ایس ایم عالم کے علاوہ محترمہ مس فاطمہ جناح اور اسٹاف نرس موجود تھیں۔ ٭ معروف ماہر نفسیات اور تجزیاتی نفسیات کے بانی سگمنڈ فرائیڈ نے زندگی کے آخری لمحوں میں کہا، ”واہیات ہے یہ کیا واہیات ہے “اس کا اشارہ موت کی تکلیف کی طرف تھا۔٭ بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی نے اپنے قتل سے تھوڑی دیر پہلے سکیوریٹی اہل کاروں سے کہا، ”پریشان مت ہو، ریلیکس….“ ان الفاظ کی ادائیگی کے کچھ ہی دیر بعد وہ خودکش حملے میں ہلاک ہوگئے۔٭ ایلوس پرسیلے کو، کنگ آف راک این رول کہا جاتا ہے، بلاشبہ اپنے عہد کے مقبول ترین گلوکار تھے، ان کی موت 42 برس کی عمر میں 16 اگست 1977 کو ہوئی، آخری لمحات میں انہوں نے کہا ” ٹھیک ہے، میں نہیں کرتا”٭ معروف ہسپانوی مصور پکاسو کے آخری کلمات تھے، ”پلاو ¿….“
٭ شاعر مشرق علامہ اقبال کا انتقال طویل علالت کے بعد ہوا۔ ان کے آخری وقت کے متعلق تذکرہ نگاروں نے اقبال کے دیرینہ خادم علی بخش کے بیان کو نقل کیا ہے جس کے مطابق علی الصبح علامہ اقبال کے سینے میں درد اٹھا، علی بخش نے اقبال کو سہارا دیا، ”اللہ! میرے یہاں درد ہو رہا….“ کہتے ہوئے اقبال کا سر پیچھے کو ڈھلک گیا اور مشرق کا بلند ستارہ وقت سحر غروب ہو گیا۔٭ پاکستان کے پہلے وزیراعظم قائد ملت لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی میں ایک جلسے کے دوران فائرنگ کرکے قتل کیا گیا ان کے لبوں پر دم آخرت یہ الفاظ تھے، ”اللہ ۔۔پاکستان کی حفاظت کرے۔“
٭ انگریزی اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق، ذوالفقار علی بھٹو سے پھانسی سے قبل وصیت تحریر کرنے کے حوالے سے پوچھا گیا تھا، جس پر انہوں نے مدھم آواز میں جواب دیا کہ، ” میں نے کوشش تو کی تھی مگر خیالات بہت زیادہ منتشر تھے، اس لیے ایسا نہیں کرسکا اور کاغذات کو جلا دیا”، یہ ان کے آخری الفاظ تھے۔ اس کے بعد وہ پھانسی تک خاموش رہے۔ جب کہ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا تھا، جب ذوالفقا علی بھٹو کو جیل سے تختہ دار تک لے جایا جا رہا تھا تو انہوں نے نہایت مدھم آواز میں” I am sorry for my county, she will be left alone without its leader. “کے الفاظ ادا کیے تھے۔ چوں کہ یہ انتہائی مدھم آواز میں تھے اس لیے صرف وہ افسر جو ان کے اسٹریچر کے پاس تھے، انہوں نے یہ جملہ سنا اور سمجھا کہ، بھٹو اپنی اہلیہ کے لیے کہہ رہے ہی کہ وہ اکیلی رہ جائیں گی۔ بعدازاں پھانسی کے تختہ پر پہنچ کر ان سے پوچھا گیا کہ، کیا وہ خود پھانسی کا چبوترا چڑھ سکیں گے؟، وہ نہایت خود اعتمادی کے ساتھ چبوترے کے زینے چڑھ گئے۔ انہوں نے آخری چبوترے پر پہنچ کر اپنا پاو ¿ں زور سے چبوترے پر مارا جیسے یہ دیکھنا چاہتے ہوں کہ یہ واقعی تختہ ہے یا کسی ڈرامے کا حصہ۔ پھر تارا مسیح نے ان کے چہرے پر نقاب چڑھایا اور گلے میں رسی ڈال کر گرہ لگا دی۔ ابھی پھانسی کا لیور کھینچا نہیں گیا تھا کہ انہوں نے تقریباً چیخنے کے انداز میں کہا ”Finish“ یہ آخری الفاظ تھے، جو ان کے منہ سے نکلے تھے۔ اس وقت دو بج کر پانچ منٹ ہوئے تھے۔ سپرنٹنڈنٹ نے اشارہ کیا اور پھانسی کا لیور گرا دیا گیا، تختے نیچے گر گئے اور پاکستان کا بہت بڑا لیڈر 11 فٹ گہرے گڑھے میں معلق ہو گیا۔٭ 1965 کی جنگ کے دوران شہید میجر عزیز بھٹی کو مسلسل چھ یوم تک دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے بعد کرنل قریشی نے کچھ دیر کے لئے آرام کرنے، کانفرنس کے بہانے سے ہیڈ کوارٹر بلوایا۔ جب میجر عزیز بھٹی پر انکشاف ہوا کہ انہیں کسی گڑبڑ کااحساس ہو اتو انہوں نے کرنل قریشی سے کہا کہ، ” سر جس احساس اور جذبے کے تحت مجھے آپ نے بلایا ہے ، اس کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں لیکن مجھے اگر محاذ سے واپس بلا لیا جائے، تو میرے لئے یہ ایک روحانی عذاب ہو گا۔ میرے لئے یہ امر ناقابل تصور ہے کہ میں اپنے جوانوں کو محاذ پر چھوڑ کر یہاں آرام کرنے بیٹھ جاﺅں۔ میں پچھلے مورچوں پر نہیں جاﺅں گا، بلکہ وطن پاک کی حفاظت کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرنا پسند کروں گا“۔کرنل قریشی کے بےحد اصرار پر میجر عزیز بھٹی صرف ایک گھنٹہ آرام کرنے کے بعد محاذ پر یہ کہہ کر لوٹ آئے کہ، ”مجھے اب دوبارہ نہیں بلوائیے گا، میں اپنے خون کاآخری قطرہ تک وطن عزیز کی حفاظت کی خاطر قربان کر دوں گا“۔یہ ان کے آخری الفاظ تھے۔جس کے بعد 12 ستمبر 1965 کو انہوں نے جام شہادت نوش کیا۔
٭ سقوط ڈھاکہ سے چند ماہ قبل 20 اگست 1971 کو جب بنگال سے تعلق رکھنے والے فلائٹ لیفٹیننٹ متاالرحمٰن نے شہید راشد منہاس کے تربیتی طیارے کو اغوا کرنے کی کوشش کی تو شہید راشد منہاس نے دشمن کے ناپاک عزائم کو ناکام بنادیا اور جام شہادت نوش کیا۔ شہادت کا رتبہ حاصل کرنے سے قبل دوران تربیت فلائٹ لیفٹینیٹ مطیع الرحمٰن ،راشد منہاس کو بے ہوش کر کے ان کا طیارہ بھارتی علاقے میں لے جانا چاہتے تھے۔ لیکن پاکستانی حدود ختم ہونے سے 40 میل دور راشد منہاس ہوش میںآگے اور طیارے پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ انہوں نے کنٹرول روم سے رابطہ کرکے انہیں آگاہ کیا کہ، ”مجھے اغوا کیا جا رہا ہے“۔ یہ شہید راشد منہاس کے آخری الفاظ تھے، جو کنٹرول روم میں ریکارڈ ہوئے۔ جس کے بعد وہ پاکستانی سرحد سے 32 میل کے فاصلے پر سندھ کے علاقے ٹھٹھہ میں طیارہ گر کر تباہ ہوگیا راشد منہاس نے جام شہادت نوش کیا۔
٭ 24 نومبر 2015 کو شہید ہونے والی مریم مختار پاکستان کی پہلی خاتون فاٹر پائلٹ تھی، جنہوں نے شہادت حاصل کی، موت کی آغوش میں جانے سے ایک روز قبل اہل خانہ سے ہونے والی آخری گفتگو میں انہوں نے اپنے والد سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، ”جب ایک پائلٹ اپنے ملک کی حفاظت کی خاطر شہادت کو گلے لگاتا ہے تو آپ کو اس کا جسد ِخاکی نہیں بلکہ اس کی راکھ ملے گی“۔٭ 1984 میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر کی حیثیت سے پولیس فورس کا حصہ بننے والے چوہدری اسلم کا نام شہری پولیس کے لئے نیا نہیں، سٹی پولیس میں 30 سالہ ملازمت کے بعد ایس پی چوہدری اسلم بہت سے لوگوں کے لیے فتح اور کچھ کے لیے نفرت کی علامت تھے۔ بیشتر شہریوں کے لیے وہ حفاظت کا ذریعہ تو کچھ کے لیے مستقل دہشت کی حیثیت رکھتے تھے، تنازعات ان کی زندگی کا اہم جزو رہے لیکن یہ چیزیں بھی مجرموں کو منہ توڑ جواب دینے کے اصول کی راہ میں حائل نہ کرسکیں۔ 1990 کی دہائی میں ہونے والے کراچی آپریشن سے لے کر 2009 میں عبدالرحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیٹ کے قتل تک، گینگ وار کے ملزموں کے خلاف اپریل 2012 لیاری میں کئی روز ا?پریشن سے لے کر اپنی ہلاکت سے کچھ گھنٹے قبل منگھو پیر میں مطلوبہ دہشت گردوں کے مارے جانے تک ، ایس پی خان میڈیا، پولیس حکام اور سیاسی جماعتوں میں کیب حوالوں سے جانے جاتے تھے۔ کالعدم تنظیم کے ارکان کی گرفتاری کے کامیاب آپریشن کے بعد آئی جی سندھ شاہد ندیم بلوچ کی جانب سے شہر کے خطرناک ترین افسران میں سے ایک قرار دیئے جانے والے ایس پی خان کرائم سندھ پولیس انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ(سی آئی ڈی) کے انسداد انتہا پسندی سیل کے سربراہ تھے۔ انہیں اپنے پیشہ ورانہ کیریئر میں بھرپور عزائم کی کئی بار قیمت چکانا پڑی۔ 2011 میں ان کے گھر پر بارود بھر گاڑی سے دھماکہ کیا گیا، تاہم وہ اور اہل خانہ اس دھماکے میں محفوظ رہے۔ لیکن 9 جنوری 2014 کو لیاری ایکسپرس سے گزرتے ہوئے ان کی گاڑی پر ایک بار پھر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں خوف کی علامت سمجھے جانے والے چوہدری اسلم جاں بحق ہوگئے۔ ان کے آخری کلمات کےبارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے، مگر ان کی اہلیہ کے مطابق چوہدری اسلم اپنی آخری گفتگو میں بار بار ایک ہی بات کہہ رہے تھے کہ، ”میں شہید ہونے والا ہوں“۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.